وجود

... loading ...

وجود
وجود

کشمیرکامقدمہ

منگل 17 نومبر 2020 کشمیرکامقدمہ

کہاجاتا ہے اگر کسی نے دنیا میں جنت دیکھنی ہو وہ کشمیر کی وادی کا نظارہ کرے اُسے اس بات کی صدقت پر یقین آ جائے گا ۔کشمیر ایک طویل عرصہ سے بھارتی سامراج کے ظالم و ستم کی جیتی جاگتی تصویربن کر رہ گیا ہے اور کشمیری دنیا کے منصفوں کی بے بسی کا ماتم کر ہے ہیں او اقوام متحدہ کو خود اپنی قراردادوں کا پاس نہیں جس میں واضح انداز میں کہا گیا ہے کہ بھارتی کشمیریوں کو حق خود ارادیت کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے دے۔تاریخی اعتبار سے شہنشاہ ہند بہادر شاہ ظفر کے تقرر کردہ گورنر عماد الدین کو (انگریزوں نے جو تا جر کے روپ میں ہندوستان پر قابض ہوگئے تھے)ہٹا دیا اور اس جنت نظیر وادی کو 1826ء میں ڈوگرا گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا ،یہ وہ شخص تھا جو منگلا میں چوکیدار ی کرتا تھا مگر اپنی سیاسی چالوں اور ریشہ دوانیوں سے سکھوں کا وزیر بن گیا ،لارڈ جان لارنسن کا کہنا ہے کہ ڈوگرہ گلاب سنگھ بڑا ظالم آدمی تھا جس کے متعلق کوئی بھی اچھی رائے نہیں رکھتا تھا، شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے کبھی اسکی تعریف کی ہو۔نہ جانے کون سے حالات یا وجوہات تھیں کہ کشمیر کو راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوںفروخت کر دیا گیا ۔ایک انگریز ہربرٹ ایڈورڈ جس نے ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ بہت وقت گزار ا تھا اس نے ایک مرتبہ کہا تھا راجہ گلاب سنگھ دنیاکی سب سے بد ترین مخلوق ہے اور جھوٹا او بد کردار آدمی ہے جس نے تخت نشین ہوتے ہی کشمیریوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کر دیا،کشمیری دوشیزائوں کی عصمت دری اور گھروں میں لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا ۔اس دن سے آج تک کشمیری اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔

گلاب سنگھ اور بھارتی حکمرانوں میں ایک حدتک قدر مشترک ہے کہ دونوں کشمیریوں کو مسلمان جان کر وحشیانہ تشدد کر رہے ہیں، دنیابھر کے غیرت مند کشمیری جرات پسندوں کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں لیکن مصلحت پسند اقوام کے کئی لیڈروں کاضمیر سو گیا ہے جسے بیدار کرنے کے لیے کشمیر ی برسرِپیکار ہیں،جب جب کشمیرکا تذکرہ ہوتاہے مجھ جیسے پاکستانی کا دل دھڑکنے لگتاہے شاید کشمیرکی محبت سانسوںمیں بسی اور خون میں رچی ہوئی ہے۔ کبھی کبھی تنہائی میں سو چتاہوں وہ لوگ کتنے عظیم ہیں جو کسی کاز کے لیے متحرک رہتے ہیں ،دراصل متحرک رہناہی زندگی کی علامت ہے ،کشمیرکاز کے لیے جن شخصیات نے اپنی زندگی وقف کررکھی ہے ،جنہوںنے اپنی خداداد صلاحیتیوںسے اس ایک تحریک کو دنیا کی سب سے بڑی آزادی کی تحریک بنا دیا وہ کتنے عظیم لوگ ہیں ،دنیا جانتی ہے کہ ایک طویل عرصہ سے کشمیری مسلمان بھارتی مظالم کا شکار ہیں ۔جنت نظیر وادی میں قتل و غارت کا بازار گرم ہے ۔کشمیریوں کی جدو جہد کو ریاستی جبر سے کچلنے کے لیے آئے روز مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے کشمیر ایک ایسا سلگتا ہوا سنگین ایشو ہے جو عالمی ضمیر کا امتحان بن کررہ گیا ہے ۔ تاریخی اعتبار سے جموں و کشمیر بھارت کی شمالی جانب مسلم اکثریت کی حامل جنت نظیروادی ہے جس کا بیشتر علاقہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر پھیلا ہوا ہے۔ جموں و کشمیر کی سرحدیں جنوب میں ہماچل پردیش اور پنجاب، بھارت، مغرب میں پاکستان اور شمال اور مشرق میں چین سے ملتی ہیں۔ جس پر بھارت نے پون صدی سے غاصبانہ قبضہ جما رکھاہے اس لیے پاکستانی اور کشمیری برادری وادی ٔ جموں و کشمیر کومقبوضہ کشمیر کے نام سے پکارتے ہیں۔

جموں و کشمیر تین حصوں جموں، وادی کشمیر اور لداخ میں منقسم ہے۔ سری نگر اس کا گرمائی اور جموں سرمائی دار الحکومت ہے۔ وادی کشمیر اپنے حسن کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے جبکہ مندروں کا شہر جموں ہزاروں ہندو زائرین کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ لداخ جسے “تبت صغیر” بھی کہا جاتا ہے، اپنی خوبصورتی اور بدھ ثقافت کے باعث جانا جاتا ہے۔ وادی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاہم ہندو، بدھ اور سکھ بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر دنیا کی دو جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث تقسیم ہند کے قانون کی رو سے یہ پاکستان کا حصہ ہے جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ علاقہ عالمی سطح پر متنازعہ قرار دیا گیا ہے۔بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 اور پاکستانی آئین کے آرٹیکل 257 کے تحت کشمیر آئینی طور پر کسی ملک کا حصہ نہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کرنے کیخلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں شدید احتجاج ،ریلیاں اور مظاہرے ہوئے ،دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ 5اگست 2019 کا دن سیاہ دن کے طورپرمنایاجائے گا ، ہم بھارت کی طرف سے کی گئی کاغذی کارروائی اور صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 370 اور 35 اے کو نافذ کر کے کشمیریوں کو ان کے حق خود ارادیت سے محروم کرنے اور لداخ کو علیحدہ کرکے کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کرنے کے فیصلہ کو مسترد کرتے ہیں، جو سازش فلسطینیوں کے خلاف کی گئی تھی ،آج کشمیری مسلمانوں کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں کی جارہی ہے۔ ایسے غیرمنصفانہ فیصلوںسے عالمی امن تباہ ہوسکتاہے۔ بھارتی تسلط میں مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جس میں وادی کشمیر میں مسلمان 95 فیصد بھارتی ظلم وبربریت کیخلاف جدو جہد کررہے ہیں اور بھارت نے خود اقوام ِمتحدہ کو کہا تھاکہ کشمیریوںکو حق ِ خود ارادیت کا حق دیا جائے وہ پاکستان یا بھارت جس کے ساتھ رہنا چاہیں اس کی اجازت دی جائے بعد میں بھارت اس سے مکرگیا اور کشمیریوںپر ظلم کے پہاڑ توڑ دالے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوںکو بھارتی فوج نے آزادی مانگنے کی پاداش میں شہید کرڈالا۔

دنیا بھرکے کشمیری مسلمان برس ہا برسوں سے انپے حق ِ خودارادیت کے لیے جدوجہد کررہے ہیں جس کی پاداش میں بھارتی حکومت نے ان پر عرصہ ٔ حیات تنگ کردیا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تلک ایک لاکھ سے زائد لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس تحریک کو ایک نئی زندگی دے چکے ہیں۔ ہزاروں مرد وزن لاپتہ ہیں۔ ان گنت بھارتی جیلوں،عقوبت خانوں یا ان کی خفیہ ایجنسیوںکی تحویل میں ہیں اس جدو جہد کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ نصف صدی سے زیادہ مدت سے کشمیر کی ہزاروںبیٹیوںکی عزت پامال کردی گئی ۔لاکھوں افراد معاشی اعتبار سے تباہ ہو چکے ہیں لیکن دنیا کے منصفوںکے کان پرجوں تک نہیں رینگتی۔۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموںاور نام نہادعلمبرداروںکو جانوروںپر ہونے والاظلم تو دکھائی دیتاہے لیکن کشمیری مسلمانوںپر گزرتی قیامت دکھائی نہیں دیتی شاید وہ اندھے ،گونگے اور بہرے بن چکے ہیںانہیں مقبوضہ کشمیرپر بھارت کا غاصبانہ قبضہ بھی نظر نہیں آتا ۔کشمیریوںکے حق استواب ِ رائے کے لیے اقوام ِ متحدہ کی قرار دادوںکا بھی احترام نہیں ۔اور تو اور بات بے بات پرعالمی طاقتوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا معمول کی بات ہے لیکن آج تک انسانیت کی توہین پر ان کا کوئی ردِ عمل نظر نہیں آتا بلکہ وہ کشمیر کی جدوجہد کو’’دراندازی‘‘ اور کشمیری مجاہدین کو’’ اتنت وادی‘‘ کا نام دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے حالانکہ پاکستان اورکشمیری حریت پسندباقاعدہ فریق ہیں جن کی مرضی کے بغیر مسئلہ کشمیر کا کوئی بھی حق قابل ِقبول نہیںدنیا بھر کے کشمیریوں اور پاکستانی قوم کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ بھارت ۔کشمیریوں کی رائے حق دہی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی فوجیں مقبوضہ وادی سے واپس بلائے اور کشمیریوںکو اپنی قسمت کا فیصلہ خو دکرنے کاحق دیاجائے یہ بھارت کے اپنے وسیع تر مفاد میں ہے ،تنازعہ ٔ کشمیر با عزت حل کرنے سے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے ۔ بھارتی حکومت جو مرضی کرلے کشمیریوںکی حریت پسندی کے آگے تمام مظالم دم توڑجائیں گے دنیابھرکے حریت پسندکشمیریوںکی قربانیوںکو قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی لازوال جدوجہدکو سلام ِ عقیدت پیش کرتے ہیں یہی قانون ِ فطرت ہے جسے جتنا دبابا جاتاہے وہ اتنی ہی تیزی سے ابھرتاہے لہذا کشمیری کبھی غلامی قبول نہیں کریں گے اور جنت نظیرخطہ کبھی بھارت کا نہیں ہو سکتا کیونکہ جنت کبھی کسی کافرکو ملی ہے نہ ملے گی۔ اب سلامتی کونسل نے مقبوضہ کشمیرکو متنازعہ علاقہ قراردیدیاہے اس تناظرمیں مقبوضہ وادی کی عوام کو استصواب ِ رائے کا حق دینا بھی اقوام ِ متحدہ کا فرض بنتاہے عالمی برداری مقبوضہ کشمیرمیں دو ہفتوں سے نافذ کرفیو ختم کروائے، کشمیریوںکو خوراک، ادویات اور بنیادی حقوق کی فراہمی کا اہتمام کیا جانا لازم ہے، آزادی یقینا بہت بڑی نعمت ہے اسی آزادی کے حصول کے لیے کشمیری قربانیاں دے رہے ہیں انشا ء اللہ بے گناہ کشمیروںکا خون ضرور رنگ لائے گااور مقبوضہ وادی بھارتی تسلط بے آزاد ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر