وجود

... loading ...

وجود
وجود

’’لارنس آف عربیا,کرنل بنوکاسب ‘‘ نے ترکوں سے دھوکے سے حاصل کردہ نقشہ مصرکے حوالے کردیا

جمعرات 29 اکتوبر 2020 ’’لارنس آف عربیا,کرنل بنوکاسب ‘‘ نے ترکوں سے دھوکے سے حاصل کردہ نقشہ مصرکے حوالے کردیا

یہ نوجوان فوجی لباس پہن کربھی فوجی نہ معلوم ہوسکا،اس کاگلاہمیشہ کھلاہی رہتا،افسران ہی کیاعام سپاہی بھی جان چکے تھے کہ یہ فوجی نہیں عام شہری ہے

قسط نمبر :6
1913-14ء کے جاڑوں میں حکومت مصر، سینا کا فوجی نقشہ حاصل کرنے کے لیے بے چین تھی۔ کرنل نیو کامب اس کام پر مامور ہوئے۔ حکومت ترکیہ سے درخواست کی گئی کہ ملک کی پیمائش کی اجازت دے لیکن حکومت ترکیہ اپنے انکار پر جمی رہی۔
متعلقہ عہدہ دار سر جوڑ کر بیٹھے۔ انھوں نے ترکوں سے دوبارہ درخواست کی کہ کیا وہ ملک کے آثار قدیمہ کی حد تک پیمائش کی اجازت دے سکتے ہیں؟
یہ اور بات ہے۔ ترک راضی ہو گئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں دولی اور لارنس نے سینا کے تقریباً چپہ چپہ زمین کی پیمائش کر ڈالی۔ وہ ساتھ ہی قدیم کار وانوں کی گزر گاہوں اور کھنڈروں کو بھی دیکھتے جاتے تھے۔ کرنل نیوکامب ان کے ہمراہ تھے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں تینوں نے اپنا کام ختم کر دیا اور ایک اثری نقشہ Archaeological Map لیے واپس لوٹے جو ماہرین کے نزدیک باضابطہ پیمائشی نقشہ کے عین مطابق تھا۔
ایک دفعہ تو عیار ترک دھوکہ کھا ہی گئے اور کرنل بنوکامب کو نقشہ تیار کرنے کے لیے وہ تمام مسالہ مل گیا جس کی حکومت مصر کو شدید ضرورت تھی۔
1914ء کی گرمیوں میں لارنس آکسفورڈ واپس آ گیا وہ شہر ہی میں تھا کہ جنگ کا اعلان ہو گیا۔ کچھ عرصہ کے لیے دفتر جنگ کے شعبہ نقشہ کشی میں اس کی خدمات مستقل طور پر حاصل کی جاتی رہیں۔ کرنل نیوکامب کا نقشہ مصری فوج کے استعمال کے لیے تیار ہو رہا تھا لیکن کرنل فرانس میں خدمت پر مامور تھے۔ اس لیے دفتر جنگ میں تفصیلات کی وضاحت کے لیے لارنس کی طلبی ہر وقت ہوتی رہتی تھی۔
لارنس غیر فوجی لباس پہنا رہتا۔ کچھ ہی عرصہ بعد بعض عہدہ دار تعجب کرنے لگے کہ جب ہر ایک اپنی وردی میں ملبوس رہتا ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ یہ نوجوان دفتر جنگ میں کام کرنے کے باوجود شہریوں کے لباس میں ملبوس رہے۔ اس پوچھ گچھ کی بھنک شعبہ نقشہ کشی کے افسروں تک بھی جا پہنچی۔ انھوں نے خوش سلیقگی سے لارنس کو سمجھا دیا کہ وہ کم از کم کسی مانگے تانگے کے یونیفارم میں نقشہ خانہ آیا جایا کرے تاکہ یہ پوچھ چھ بڑی حد تک ختم ہو جائے۔ لارنس نے یہی کیا اور آئندہ سیکنڈ لیفٹیٹ کی حیثیت سے نظر آنے لگا۔
فوجی خدمت کے لیے اس کی موزونیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان ہی ایام میں اس نے اپنے کسی بھائی کو لکھا ہے کہ اس کی جسمانی حالت کبھی اتنی اچھی نہیں رہی کہ وہ فوجی خدمات انجام دے سکے۔ بہر حال یہ امر مشتبہ ہی رہا جاتا ہے کہ اس نے کبھی اپنی رضا کارانہ خدمات پیش کی ہوں گی ’’ٹاپسی Topsy کی طرح وہ محض ’’اگ آیا تھا‘‘۔
فوجی عہدہ داروں نے بہت جلد بھانپ لیا کہ کوئی عجوبہ روزگار ان پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ وہ ان سپاہیوں سے بھی واقف تھے جو دفتروں میں کام کرتے ہیں لیکن یہ! یہ طالب علم تو سپاہی سے کوئی مشابہت ہی نہیں رکھتا۔ حد ہو گئی کہ وردی پہن کر بھی وہ سپاہی نہ معلوم ہو سکا۔ اگر وہ فوجی کوٹ پہنتا تو گلا ہمیشہ کھلا رہتا، جیکٹ کی کسی نہ کسی جیب کی بندھن ڈھیلی رہتی۔ وہ سیکنڈ لیفٹنٹ ہونے کی حیثیت سے مجاز تھا کہ ہر شانہ پر اکہرا تمغہ لگائے رہے۔ لیکن اس کو کبھی خیال بھی نہ آیا کہ وہ دونوں اپنی جگہ پر ہیں یا نہیں۔
بسا اوقات وہ سیم برآون کا بلٹ نہ لگاتا جس کا لگانا ہر افسر کے لیے ضروری ہے۔ کئی چیزیں تھیں جو عہدہ داروں کو کرنی پڑتی تھیں لیکن لارنس کسی نہ کسی طرح ان کو ٹال جاتا تھا۔
اس کے بالا دست عہدہ دار اس سے بحث کرتے۔ حکم دیتے کہ یہ کرو اور وہ کرو۔ حتیٰ کہ افسروں کو اس کی غفلت کی خبر تک دیتے لیکن ان کا کوئی فعل اس کو بدل نہ سکا۔ اپنے شعبہ میں اس کو اپنا کام کرنا ہوتا اور وہ اس کو پورا کرتا رہتا اور جہاں تک فوجی وردی کے پہننے کا تعلق تھا۔ وہ اس کو ایک دفعہ پہن ہی تو چکا تھا۔ اب اس سے کیا بحث کہ وہ اس کے جسم پر ہے یا نہیں۔
پیشہ ور فوجیوں کی نظر میں وہ یقینا ان کے پیشہ کے لیے باعث توہین تھا۔ یہ بات بلاتا مل وہ اس سے کہہ دیتے لیکن وہ بھی بلاتامل کہہ دیتا کہ ’’میں فوج کو ناپسند کرتا ہوں۔‘‘
دسمبر تک یوں ہی کام چلتا رہا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا لارنس سے ناپسندیدگی بڑھتی گی۔ وہ خود بھی فوج کی روح رواں یعنی ڈسپلن سے نفرت کرنے لگا۔ لیکن اس کے لیے صورت حال بدلتی رہی تھی۔ دفتر جنگ کی طرف سے کرنل نیوکامب فرانس سے انگلستان واپس بلائے گئے۔ مصر میں کمک درکار تھی ان عہدہ داروں کی بھی ضرورت تھی جو اس سے واقف ہوں اور وہاں کی زبان بول سکیں۔
کرنل کامب سے پوچھا گیا کہ وہ کن لوگوں کو اپنے ساتھ رکھیں گے۔ کرنل نے نام سوچ رکھے تھے جن میں قبل جنگ کے دو دوست یعنی دولی اور لارنس بھی شامل تھے۔
سال کے شروع ہوتے ہی لارنس قاہرہ پہنچ کر Intelligence Service کے شعبہ فوجی نقشہ کشی میں شریک ہو گیا۔ اب بھی جب کہ باضابطہ طور پر وہ کام پر مامور تھا، اس نے اپنے طور طریقے نہیں بدلے۔ ان لوگوں کے ماسوا جواس کو اچھی طرح جانتے تھے، محکمہ کے دوسرے عہدہ دار اس کو شبہ اور ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنے لگے اور ایک حیثیت سے تو اسے اپنی برادری سے خارج کر چکے تھے۔
لیکن لارنس بہت خوش تھا، وہ نہ صرف اپنے جانے بوجھے ملک میں تھا بلکہ ان نقشوں پر کام کر رہا تھا جن کے خاکے خود اس نے ملک میں سفر کر کے تیارکیے تھے۔
آپ کو ان لوگوں سے کتنی ہمدردی ہی کیوں نہ ہو جو فوج کے کڑے طریقوں اور احکام کو ناپسند کرتے ہیں پھر بھی یہ ماننا ہی پڑے گا کہ فوجی کل صرف اسی وقت چل سکتی ہے۔ جب تک کہ ڈسپلن قائم ہو اور جب تک ہر کام باضبطگی سے انجام پاتا رہے۔ اکثر مواقع ایسے آتے ہیں کہ اس فوجی ضابطہ پرستی Red Tape سے انحراف کیا جا سکتا ہے۔ (سخت اور جکڑے ہوئے آئین و قواعد کو ریڈٹیپ کا نام دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ تمام احکام، بات اور اطلاعات لال رنگ کی ڈوری سے باندھ کر طبلق میں رکھے جاتے ہیں۔)
لیکن فوجی دستور العمل سے انحراف کی صورت میں کام میں تھوڑی بہت سہولت ممکن ہے پیدا ہو جائے لیکن اس سے سارا فوجی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
لارنس یہ تو سمجھ گیا۔ لیکن پھر بھی کسی ایسے کام میں وہ تاخیر نہیں کرنا چاہتا تھا جس کے متعلق اسے یقین ہو کہ وہ صحیح راستہ پر ہے۔ مشکل یہ تھی کہ اس کی قابلیت اور اس کی نو عمری فوج کے دیرینہ نظام کے قلب ماہیت کے لیے ناکافی تھی۔
اگر نقشہ میں کوئی غلطی ہوتی تو اس کی رپورٹ لکھنی پڑتی اور غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے رپورٹ جانچ کے لیے بھجوا دی جاتی۔
تحریر جب زینہ بزینہ عہدہ داروں کے پاس سے گزرتی تو اس میں ان کی لکھی ہوئی تحریریں بھی شامل ہو جاتیں تاآنکہ وہ افسر مجاز تک جا پہنچتی اور اسی راستہ سے پھر واپس ہوتی۔ ممکن ہے یہ عمل کسی نام میں ایک آدھ حرف کی کمی یا زیادتی کے لیے ہی ہو لیکن یہ طریق عمل فوجی آئین کا ایک اصول تھا جس سے انحراف ناممکن تھا۔ برسوں سے یہی عمل درآمد چلا آ رہا تھا اور اب اس کو بدلنے کی کوئی وجہ نہ تھی ضابطہ آخر ضابطہ ہے۔
(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر