وجود

... loading ...

وجود
وجود

ابھی ہم خطرے میں ہیں

بدھ 28 اکتوبر 2020 ابھی ہم خطرے میں ہیں

بڑی عید گزری،محرم صفرکا مہینہ بھی گزرگیاعیدمیلادالنبی ﷺ کا ماہ مبارک آن پہنچا ہے، اللہ کا لاکھ لاکھ شکرہے کہ کورونا وائرس کا زور ٹوٹ گیاہے مریضوںکی تعداد کم سے کم ہورہی ہے لیکن اس کے باوجود کئی ممالک میں حالات تسلی بخش نہیں ہے جس کا مطلب ہے ابھی ہم خطرے میں ہیں اس لیے ماہرین کا خیال ہے احتیاط میں ہی عافیت ہے ،ذرا تصورکی آنکھ سے دیکھئے ماضی کا خوف وہراس کیا یہ قیامت سے کچھ کم تھا؟ نہیں اب بھی یاد آجائے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ انسان اتنا بااختیارہونے کے باوجود کتنا بے بس ہے، یہ 3مئی 2020ء کا دن تھا ایک فرانسیسی ڈاکٹر نے “Tv5” نامی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: آج ایک گھڑی ایسی آئی کہ مجھے لگا میں “شدت تکلیف سے” اندر ہی اندر جھلس رہا ہوں۔
ہوا یہ کہ “کورونا” کے ایک مریض نے اپنے آخری وقت میں ہم سے درخواست کی کہ وہ آخری مرتبہ اپنی اولاد سے ملنا چاہتا ہے۔ پہلے تو ہم نے صاف انکار کر دیا۔لیکن جب وہ بری طرح رو رو کر اصرار کرنے لگا تو ہمیں اس پر بہت ترس آیا اور ہم نے اس کی بات ماننے کا فیصلہ کیا۔ چناچہ ہم اس جگہ کی خاص طور پر صفائی میں مشغول ہو گئے۔تاکہ مریض کے گھر والوں کے لیے کوئی خطرہ نہ رہے۔ پھر “بطور ڈاکٹر” جب ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ اب “وہ ” کسی اندیشہ کے بغیر آسکتے ہیں تو ہم نے “موت کی آغوش میں آخری سانسیں لے رہے شخص کی ” آخری خواہش ” پوری کرنے کے لیے ” اس کے گھر والوں کو فون کیا۔ لیکن بہت افسوس کے ساتھ یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ مریض کے گھر والوں نے باپ سے آخری مرتبہ ملنے سے انکار کردیا کہ کہیں ان کو بھی یہ وائرس نا لگ جائے۔
ہم نے ان سے التجا کی اور لاکھ یقین دلایاکہ ہم نے احتیاطی تدابیر لے لی ہیں اور آپ کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن وہ نہیں مانے اور فون کاٹ دیا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قیامت کا ہولناک منظر کھینچتے ہوئے فرمایا: یہ وہ دن ہے کہ جس دن انسان اپنے بھائی سے بھاگے گا،اپنے ماں باپ اور اپنی بیوی بچوں سے بھاگے گا۔
یہ ووہان ہے… یہ امریکا ہے۔۔۔یہ اٹلی بھی ہوسکتاہے یاپھرپاکستان ہرجگہ ایک جیسے مناظر ایک جیسا خوف و ہراس ،ایک جیساماحول۔۔ کوروناوائر س نے انسانوںکے ساتھ جو کیا وہ کسی قیامت سے کم تو نہیں تھا ،دنیابھر میں سینکڑوں،ہزاروںشہر،لاکھوں ہسپتال اور کروڑوںمتاثرین سب سے سب ایک وباء کے سامنے ڈھیرہوگئے ،یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ انسان چاندکی تسخیرکے باوجود قدرت کے سامنے بے بس ہے۔ ووہان کے ایک ہسپتال میں اسٹریچر پر لیٹے مریض کو ڈاکٹرز نے جواب دے دیا، اس کے چہرے پرمایوسی تھی اسٹریچر کے ساتھ کھڑا ڈاکٹر لی ہے، مریض نے ڈاکٹر لی سے کہا زندگی کا علم نہیں کیا پتا مزید کتنی سانسیں باقی ہیں ایک خواہش ہے پوری کردو گے ؟
ڈاکٹر نے پوچھا بتاؤ ؟
مریض بولا آج شام کا سورج ڈوبتے دیکھنا چاہتا ہوں قبل اس کے کہ میری زندگی کا سورج ڈوب جائے شاید یہی سورج میری زندگی کا آخری ڈوبتا سورج ہو
ڈاکٹر لی مریض کو مغرب سے قبل باہر لے آیا اور مریض نے سورج ڈوبنے کا نظارہ کیا۔ پھر یہ ہوا کہ سورج تو ڈوب گیا لیکن کمال یہ ہوا کہ مریض کی زندگی کا سورج دوبارہ طلوع ہوا، دوسرے دن اس کی صحت میں بہتری کے آثار نمودار ہوئے اور وہ آج مکمل صحت یاب ہو کر گھر بیٹھا ہے لیکن جب بھی سورج ڈوبتے دیکھتا ہے تو رونے لگتا ہے
جانتے ہیں کیوں ؟
کیوں کہ ڈاکٹر لی کی زندگی کا سورج ڈوب گیاتھا وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔۔ بلاشبہ جِس کی موت لِکھی ہوئی ہے اْس نے جانا ہے چاہے وہ بیمار نہ ہو…!!! کورونا وائرس نے درجنوں ڈاکٹروں کی جان لے لی پاکستان میں ایک درجن سے زائد ڈاکٹر انسانیت کی خدمت کرتے کرتے اپنی جانوںکا نذرانہ دے چکے ہیں ایک روز قبل بھارت کی نامور ڈاکٹر عائشہ کورونا کے مریضوںکا علاج کرتے کرتے اپنے خا لق ِ حقیقی سے جاملی ان تمام مسیحائوںکو پوری انسانیت خراج ِ تحسین پیش کرتی ہے۔ایک ڈاکٹرنے اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ایک35 سالہ نوجوان جو جناح ہسپتال لاہور میں انتقال کر گیا تھا حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کی میڈکل ہسٹری بتاتی ہے کہ اس کے پھیپھڑوں کا یہ حال صرف 24 گھنٹوں میں ہوا میڈیکل سے وابستہ لوگ تو دیکھ کر سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح کورونا نے پھیپھڑوں کا بھرکس نکال دیا ہے مگر میرے جیسا میڈیک سائنس میں ڈفر بھی دیکھ رہا ہے کہ مریض کو LG یا SG کے کارتوس سے چھلنی کیا گیا ہو۔
کورونا وائرس کی اپنی بائیو سنتھیٹک مشینری (biosynthetic machinery) نہیں ہوتی. جس کا مطلب ہے ،یہ خوراک کھا نہیں سکتا. خود حرکت نہیں کرسکتا، اپنی افزائش نہیں کر سکتا . یعنی یہ کسی دوسرے زندہ جاندار کے جسم کے اندر رہ کر ہی افزائش کرسکتے چونکہ خود سے حرکت بھی نہیں کر سکتا اس مقصد کے لیے اسے ایک زندہ جسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جسم تک پہنچ کر سب سے پہلے یہ اس کے جسم کے سیلز میں گھستا ہے، جونہی وائرس ہوسٹ کے ان سیلز میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے ان کا مکمل کنٹرول اپنے اختیار میں کرتا ہے، سیلز کے میٹابولزم یعنی وہ ری ایکشنز جو ہوسٹ کے سیلز ہوسٹ کے لیے کر رہے ہوتے ہیں اب وہ وائرس کے لیے کرنا شروع کردیتے ہیںآسان الفاظ میں کورونا بہت بڑا ہائیکر ہے۔جو انسانی جسم کے سیلز کو ہائیک کر کے اپنے استعمال میں لے آتا ہے۔ وائرس اپنے ہوسٹ کے سیلز سے سب سے پہلے اپنے نیوکلیک ایسڈز کی کاپیز تیار کرواتا ہے. ایک سے دو. دو سے چار اور اسی طرح وائرس کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، وہ ایک ہوسٹ سیل جس کو آغاز میں ایک وائرس نے ہائی جیک کیا تھا اب وہ ہزاروں وائرسز کی آماجگاہ بن چکا ہوتا ہے. اسی دوران یہ ہوسٹ سیل پھٹ جاتا ہے جسے لائسز (lysis) کہا جاتا ہے. ایک سیل کے پھٹنے سے ہزاروں وائرسز برآمد ہوکر ہوسٹ کے جسم کے ہزاروں نئے سیلز میں گھس جاتے ہیں. ایک بار پھر سے وہ تمام سیلز وائرس کی تعداد بڑھانے میں لگ جاتے ہیں. اور لاکھوں نئے سائیکلز شروع ہوجاتے ہیں. ان سارے مراحل کے دوران ابھی تک ہوسٹ بظاہر صحت مند رہتا ہے،کیونکہ ہوسٹ کا اپنا جسم بھی کھربوں سیلز کا بنا ہے اور لاکھوں سیلز تباہ ہوجانے کے باوجود نارمل دکھائی دیتا ہے،ان مراحل کو وائرس کا انکیوبیشن پیریڈ (incubation period) کہا جاتا ہے. جیسے وزیر تعلم سعید غنی بظاہر ٹھیک ہیں اور محسوس بھی نہیں کر رہے بھر بھی کورونا + ہیں۔ یہ اس incubation period میں تھے کہ چیک ہو گئے۔ ان ساری معلومات کا مقصد آپ کو یہ یقین دلانا ہے کہ اگر آپ اب تک کورونا میں مبتلا نہیں بھی ہیں پھر بھی آپ خود کو اور دوسروں کو بچائیں،آپ میں سے کوئی بھی وائرس کا کیرئیر ہوسکتا ہے مگر وائرس انکیوبیشن پیریڈ میں ہونے کے باعث علامات ظاہر نہیں کر رہا ۔ خطرے کی بات یہ ہے کہ کورونا کش ادویات ابھی مارکیٹ میں نہیں احتیاط ہی آخری اعلاج ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ جو صحت یاب ہوگئے ہیں یہ کیسے ممکن ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے جسم کے مدافعتی نظام کے باعث ہورہے ہیں. مدافعتی نظام یا امیون سسٹم بیماری پیدا کرنے والے جراثیموں کے خلاف ہمارے جسم کا ایک قدرتی حفاظتی نظام ہے. جو ہائی جیک ہونے سے پہلے آخری حد تک مقابلہ کرتا ہے۔اور یہی قدرتی حفاظتی نظام ہی لوگوں کو کرونا سے محفوظ کر رہا ہے۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے ابھی ہم خطرے میں ہیں اسلئے احتیاط میں ہی عافیت ہے ذرا تصورکی آنکھ سے دیکھئے ماضی کا خوف وہراس کیا یہ قیامت سے کچھ کم
تھا؟ان ساری باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں اس عالمی وبا ء کے خلاف کھڑے ہوکر خود کو بچانا ہے. اپنے اہل خانہ کو بچانا ہے. اپنے ملک کو بچانا ہے. اور تمام نسل انسانی کو اس بحران سے نجات دلانی ہے ابھی احتیاط کریں زیادہ سے زیادہ اپنے گھروں میں قیام کریں اپنے ہاتھوں کو دھوتے رہیں. مصافحے اور معانقے سے پرہیز کریں. پرہجوم جگہوں سے دور رہیں. سیر سپاٹے ترک کریں کہیں کرونا پھر نہ لوٹ آئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر