وجود

... loading ...

وجود
وجود

لارنس آف عربیا ,ترکوں نے پانچ سوسال تک عربوں پرحکمرانی کی

هفته 24 اکتوبر 2020 لارنس آف عربیا ,ترکوں نے پانچ سوسال تک عربوں پرحکمرانی کی

(قسط نمبر: 5)

 
لارنس نے کئی سال غریب عربوں کے درمیان گزارے انکا بھیس بدل کر مقدس شہر مکہ میں بھی جاپہنچا،ان میں آزادی کاجوش جگایا

سینکڑوں سال قبل ایک عظیم الشان قوم اس ملک میں آبادرہ چکی ہے۔ اب اس کی یادگار صرف قصے کہانیاں رہ گئی ہیں یا چند چٹانیں۔ وحشیوں نے روم کی تھکی ہوئی حکومت کا صفایا کر دیا تھا اور چند صدیوں تک فرقے اور قبیلے شہر بشہر آوارہ گردی کرتے رہے۔ وہ ان کھنڈروں کی جو روم کی گذشتہ عظمت کی یاد گار تھے، تعمیر کر ہی رہے تھے کہ ان سے طاقتور قبیلوں نے انھیں بھی مار بھگایا۔
پھر ایک یتیم نے جس کا نام محمدؐ تھا ایک نئے دین کی تلقین کی۔ نویں صدی عیسوی تک اس کے پیرو کار قرآن (عربی بائبل) کے اثر سے اس وقت کی معلوم سر زمین یعنی کیتھے (Cathay) کی دور دراز پھیلی ہوئی فوجی چوکیوں سے لے کر اسپین تک پھیل گئے۔ عربوں نے سلطنتیں قائم کیں۔ ہئیت، طب اور ریاضی میں وہ یکتائے روزگار تھے۔ مقناطیسی سوئی سینکڑوں سال قبل انھوں نے ہی ایجاد کی۔ وہ بہترین جہازراں تھے۔ اس وقت کے عرب کئی چیزوں سے واقف تھے جن کو دنیا بعد میں صدیوں تک بھولی رہی۔ اب بھی اس زمانہ میں انکے مدفون شہروں کی کھدائی میں کوئی ایسی بیش بہا چیز ہاتھ لگ جاتی ہے جس کے رنگ کی خوبصورتی اور وضع کی درستی ہماری فہم سے بالا تر ہوتی ہے۔

 

جنگ عظیم کے پیشتر کے چار برسوں میں لارنس نے ان قدیم سلطنتوں کے طول و عرض کا دورہ نہیں کیا یا نہ کر سکا۔ لیکن وہ وہاں ضرور گیا جس کو اس سر زمین کے تمدن کا گہوارہ کہنا چاہیے، یہاں کے کھنڈروں اور مقبروں میں مدفون نوادر اور چٹانوں کے کتبوں میں… جس کو عہد قدیم کی مشقی تختیاں کہنا چاہیے… اس نے حیرت انگیز ماضی کی کہانی پڑھی۔
مسیحی مجاہدوں کے قلعوں میں اس نے عیسائیت کی پرقوت پیش قدمی اور اسلام کے مقابلہ میں طویل معرکوں کے بعد اس کی پسپائی مشاہدہ کی۔ وہ فلسطین سے شام گیا اور اس ملک میں سے گزرتا ہوا اس مقام پر جا پہنچا جہاں انگلستان اور یورپ کے سردار اور دیہاتی اپنے مقدس شہر یروشلم کے لیے کئی دفعہ لڑ چکے تھے۔ اس نے ان سڑکوں پر سفر کیا جن پر موٹریں حال میں چلنے لگی تھیں اور ان راستوں پر بھی جو سینا اور شام کے ریگستانوں کو قطع کرتے ہوئے گزرتے ہیں اور جن پر اونٹوں کے بے شمار کاروانوں کی آمدورفتنے ہمیشہ بدلتے ہوئے صحرا میں بھی ایک مستقل راستہ بنا دیا تھا۔ان پگڈنڈیوں پر بھی اس کے قدم پہنچے جن کو صرف عرب کا قصہ گوہی جان سکتا تھا۔ اس ملک کے اس سوکھے ساکھے بے آب و گیاہ، جان لیوا اور بظاہر نا قابل گزر معلوم ہونے والے علاقوں میں جو آڑے ترچھے آتش فشانوں سے مشابہ تھے، یہ پگڈنڈیاں صرف قریب کے راستوں کا کام دیتیں اور وہ بھی صرف اسی شخص کے لیے جس میں ہمت شجاعت اور قوت ہو۔
لوگوں کی زبانوں پر ترکوں کے ظلم و تعدی کے قصے تھے۔ پانچ سو سال تک ترکوں کی حکومت نے عربوں کا برا حال کر دیا تھا وہ چپکے چپکے بیان کرتے، اس لیے کہ کوئی سن پاتا تو شکایت کرنے والے کو قید اور بعض دفعہ جسمانی تعذیب حتیٰ کہ موت تک کی سزا ملتی۔
عربوں کی عظیم الشان سلطنت بری طرح منتشر ہو چکی تھی۔

 

ہر قبیلہ کی وفا شعاری کا مرکز جداگانہ تھا۔ ایک ہی قوم کے افراد ہونے کے باوجود وہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے۔ وہ اعلانیہ رائفل اور چھرے سے لڑتے اور ایک دوسرے کاروانوں پر چھاپے مار کر اونٹوں اور غلاموں کو لے جاتے۔ پہاڑ پر رہنے والے رات کے وقت میدانوں میں اتر آتے اور جب سورج نکلتا تو تباہی اور لوٹ اور حملہ کے گزر جانے کا منظر پیش نظر ہوتا۔
وہ ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔ ان میں ہر ایک اپنے دشمن کو مار ڈالنے کا حلف اٹھا چکا تھا۔ البتہ شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک دوار ادے یا تصور کا فرما نظر آتے تھے وہ اپنی گزشتہ سلطنت کے خواب دیکھنے لگے تھے اور خود کو ترکوں کی قابل نفرت غلامی سے آزاد کرا لینا چاہتے تھے۔
لارنس کوئی متمول آدمی تو نہ تھا۔ اس نے اپنی ابتدائی زندگی کے کئی سال مشرق قریب میں غریب لیکن خود دار عربوں کے درمیان گزارے۔ وہ ان کی آزادی کی خواہش سے بہت متاثر ہوا اور جب ان کو اچھی طرح پہچان گیا تو ان پر اعتماد کرنے لگا۔
کئی سیاح گزرے ہیں جنھوں نے عربوں کا بھیس بدل کر ریگستانوں کو طے کر ڈالا ہے حتیٰ کہ مقدس شہر مکہ میں بھی جاداخل ہوئے۔
لارنس پستہ قد تھا، داڑھی مونچھ دونوں صاف کرتا، اس کے بال سنہری تھے اور آنکھیں نیلی، اس کا جسم دھوپ سے گندمی ہونے کے بجائے اینٹ کی طرح سرخ ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ عربوں کی بالکل ضد تھا۔ جہاں کہیں اجنبی کی حیثیت سے جاتا فوراً پہچان لیا جاتا۔ وہ ایسا تھا جس کو دیکھ کر عموماً عربوں کے دل میں نفرت ہی نہیں بلکہ اس پر حملہ کرنے لوٹ لینے حتیٰ کہ مار ڈالنے کا خیال پیدا ہو سکتا تھا لیکن وہ ان کی مصیبتوں میںاعلانیہ طور پر ان سے ہمدردی کا اظہار کرتا وہ ان کے ارادوں اور خواہشوں سے اتنا قریب تھا اور ان کے خوابوں پر ایسا یقین واثق رکھتا تھا کہ انھوں نے اس کو اپنے دل میں جگہ دی اور اس کو اپنا مخلص سمجھا۔

 

یہ تو اس کی سیرت کا ظاہری پہلو تھا لیکن اس کا ایک خاص پہلو اور بھی تھا۔ وہ عسکریت کی تاریخ سے واقف تھا اور فوجی معرکوں اور صلیبی لڑائیوں کا گہرا مطالعہ کر چکا تھا۔ اس علم اور واقفیت نے اس کی فطرت کے جاں بازانہ حوصلہ سے ہم آہنگ ہو کر جو سیاحوں اور سپاہیوں سے سلسلہ بسلسلہ اس کو ورثہ میں ملا تھا، اس میں یہ صلاحیت پیدا کر دی تھی کہ صدیوں پہلے کی زندگی کا تصور کر سکتا تھا۔
ماضی کی عظمتوں اور حال کی تباہیوں نے اس عجیب اور محیر العقول ملک سے مزید واقف ہونے کی آرزو اس میں پیدا کر دی تھی۔
اس کے تمام تصورات محض خواب ہی خواب نہ ہوتے۔ انگلستان واپس آ کر اس نے مبسوط کتابیں لکھیں جن میں اپنے دیکھے ہوئے مقاموں اور چٹانوں اور ریت میں دبے ہوئے قدیم شہروں کی تفصیل نہایت خوبی سے بیان کی۔
پرانے ماہروں اور برسوں کا تجربہ رکھنے والوں نے ان رودادوں میں ایک عجیب و غریب دل و دماغ کی شہادت پائی اور وہ ذہن جو اس ملک اور اس کی تاریخ سے واقف تھے لارنس کو غیر معمولی ذہین شخص سمجھنے لگے۔ ایک بڑے آدمی نے دوسرے سے کہا:
’’ایک غیر معمولی لڑکا… عربوں کے درمیان بھٹکتے رہنے کے لیے وقف ہو چکا ہے۔‘‘
1913 ء میں لارنس نے دو عرب فورمین اپنے ساتھ لے لیے جس کے سبب آکسفورڈ میں گپ بازی کا خوب بازار گرم رہا۔
عرب اس کے باغ پائین والی جھونپڑی میں رہتے تھے۔ یہ جھونپڑی اس نے اپنے مطالعہ کے کمرہ کے طور پر بنائی تھی۔ نیز اس لیے بھی کہ اپنے چھوٹے بھائیوں کی پر شور مداخلت سے یہاں سکون مل سکے۔ ان عربوں کے مختصر زمانہ قیام میں لارنس نے انھیں سائیکل کی سواری سکھلائی۔ لیکن عربوں کی تمام تر توجہ اس امر پر رہتی کہ انتہائی تیز رفتاری کے اصول سمجھ میں آ جائیں۔

 

جنگ عظیم سے پہلے ٹریفک کوئی زیادہ نہ تھی۔ پھر بھی یہ نسبتاً نئی سواری عام رہروں کے لیے کچھ پریشان کن ہی تھی۔ لارنس عربوں کو لے کر بہت کم باہر نکلتا ۔ عرب اپنی لمبی چوڑی عباء میں ملبوس ہوتے جس پر لوگوں کو ان کے عورت ہونے کا گمان گزرتا۔ ان میں ایک عرب کے چہرہ پر داڑھی تھی جس کے متعلق لوگ اس کے سوا کچھ نہ سمجھتے ہوں گے۔ یہ بھی سرکس کی مشہورداڑھی والی عورتوں میں سے ایک ہے۔
عرب ایک دفعہ چڑیا گھر بھی گئے۔ بعض جانوروں کو تو وہ جانتے تھے۔ خود عربستان میں چھوٹے چھوٹے سانپ بکثرت پائے جاتے ہیں لیکن اجگر کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے۔ ان سے جب پوچھا گیا ہو گا کہ تم نے چڑیا گھر میں کیا دیکھ تو انھوں نے یقینا یہی جواب دیا ہو گا کہ ہم نے ’’مکانوں کے برابر لمبے سانپ دیکھے۔‘‘ اور چونکہ تمام عرب قصہ گوئی میں بڑے استاد ہوتے ہیں۔ اس لیے امکان ہے کہ اپنے ملک پہنچتے پہنچتے ان سانپوں کی لمبائی گلی کے برابر ہو گئی ہو گی۔
(جاری ہے)


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر