وجود

... loading ...

وجود
وجود

سانحہ نہیں ٹلتا سانحے پر رونے سے

بدھ 16 ستمبر 2020 سانحہ نہیں ٹلتا سانحے پر رونے سے

کیاہم ایسے سماج میں جی رہے ہیں جہاں مثالی اقداریں اور روایتیں ناپید ہوتی جارہی ہیں ، اگر ایسا ہے تو یقینا ایک ایسے سماج کی تشکیل ہونے جارہی ہے جو اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہے جہاں’’ سانحہ موٹر وے(خاتون ریپ کیس) ‘‘جیسے واقعات کا تدارک ممکن نہیں ہوگا۔جہاں تک جنسی زیادتی کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے آج تک کسی بھی مجرم کو’’ نشان عبرت‘‘ نہیں بنایا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں آئے روز خواتین کے ساتھ ساتھ کم عمر بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔
بلاشبہ کسی بھی سماج میں جنسی زیادتی جیسے سنگین واقعات کو روکنے کے لیے ’’سرِ عام پھانسی ‘‘ جیسی سزائیں کار آمد ہوسکتی ہیں لہٰذا ایسی سزائوں کے اطلاق پر کسی قسم کا اختلاف نہیں ہونا چاہئے کیونکہ انسانیت اور درندگی میں تمیز کیے بغیر مثالی سماج کی تشکیل ممکن نہیں ۔ سانحہ موٹر وے کے تناظر میں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے یہ کہا جانا کہ جنسی زیادتی کرنے والوں کو سر عام پھانسی دی جائے یا پھر ان کو جنسی صلاحیت سے محروم کردینا چاہئے جو کہ دراصل قومی احساسات کی حقیقی معنوں میں ترجمانی ہے،لہذا وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ سماج سے ایسے درندوں کا صفایا کرنے کے لیے سزائے موت اور جنسی صلاحیت سے محروم کرنے جیسی سزائوں کے اطلاق کے لیے قانون سازی کریںاور اس میں کسی بھی قسم کی کوتائی اور عدم توجہی نہ برتی جائے۔
آج پوری قوم سانحہ موٹر وے (خاتون ریپ کیس)پر غم و غصے کا اظہار کررہی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس دل ہلا دینے والے واقعے کی ذمہ داری کسی بھی سطح پر نہیں لی گئی وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید واقعے کی ذمہ داری لینے کی بجائے وہ اس واقعے کو موٹر وے پر نہ ہونے کا دعویٰ کررہے ہیںجبکہ اپوزیشن ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہی ہے۔اسی طرح سانحہ موٹر وے پر سی سی پی او لاہور عمر شیخ کا متنازع بیان پنجاب پولیس کی کارکردگی اور اسکی اخلاقی تربیت کی قلعی کھول دینے کے مترادف ہے،یعنی یہ کیسے ممکن ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کا ایک اعلیٰ افسراپنی نااہلی اور فرائض میں مجرمانہ غفلت پر پرددہ ڈالنے کے لیے متاثرہ خاتون کو ہی اپنی ساتھ ہونے والی زیادتی کا مورد الزام ٹھہرادے ۔بہر کیف سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے اپنے متنازع بیان پر معافی مانگ لی ہے ۔ لہذا اس پر مزید بحث کرنے کی بجائے اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور انکی اخلاقی تربیت کرنے کے لیے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پولیس کو عوام دوست بنایا جاسکے جبکہ اس وقت معاملہ کچھ یوں ہے کہ عوام اپنے مسائل پولیس کے پاس لے جانے سے ڈرتے ہیںکیونکہ پولیس سب سے پہلے سائل ہی کی جیب پر ڈاکہ ڈالتی ہے پھر اس کے بعد کہیں جاکر سائل کی داد رسی ہوتی ہے اور اس کے بعد پکڑے جانے والا ملزم بھی پولیس کی کمائی کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔بہر کیف مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے پولیس اور پولیس کے نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے پولیس نظام میں اصلاحات لانا ضروری ہے بصورت دیگر محض سزائوں اور عبرت ناک سزائوںکے اطلاق سے جرائم کو روکا نہیں جاسکتا ۔ بہر کیف جنسی زیادتی کے مجرموں کو نشان عبرت بنانے کی غرض سے ایک قانونی بل سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے جو مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی کی جانب سے پیش کیا گیا ہے جس میں خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کو سر عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ کم سے کم سزا عمر قید تجویز کی گئی ہے اس قانونی بل میں جنسی زیادتی کے مقدمات براہ راست ہائیکورٹ کی سطح پر زیر سماعت لانے اور 30دن میں فیصلہ کیے جانے کی بھی تجویز دی گئی ہے ۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے جنسی زیادتی کے مجرموں کو نشان عبرت بنانے کے لیے مذکورہ قانونی بل کی اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر بھی حمایت ہونی چاہئے تاکہ ریاستی قوانین میں اس طرح کے مقدمات میں جو سقم پائے جاتے ہیں اسے دور کیا جاسکے بصورت دیگر قانون میں پائے جانے والے سقم کا یہ جنسی درندے فائدہ اٹھاتے رہیں گے ۔
بہر کیف سانحہ موٹر وے (خاتون ریپ کیس)کے بعض ملزمان کی گرفتاریاں عمل میں لائی جاچکی ہیں جبکہ ایک ملزم عابد تاحال پولیس کی گرفت میں نہیں آسکا ہے تاہم گرفتار ایک ملزم شفقت نے خاتون سے زیادتی کے جرم کا اعتراف کرلیا ہے۔سانحہ موٹر وے (خاتون ریپ کیس)کی تحقیقات اعلیٰ سطح پر جاری ہے اور امید کی جارہی ہے کہ اس بار جنسی درندے سزا سے نہیں بچ پائینگے لیکن اس کے باوجود جنسی زیادتی کے جرائم کے قوانین میں ترمیم کی گنجائش موجود رہے گی لہذا حکومت ملک میں جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لیے سانحہ موٹر وے (خاتون ریپ کیس)کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیتے ہوئے اس سنگین جرم میں ملوث کرداروں کو عبرت ناک سزا دلوائے جو یقینا سر عام پھانسی سے کم نہیں ہونی چاہئے جبکہ اصولاً تو یہ ہونا چاہئے کہ ایسے درندوں کو چوراہوں پر لاکر ان کے ’’سر قلم ‘‘ کردینے چاہئے۔ آخر میں اپنے استاد پروفیسر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم (سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی)کے اس شعر کے ساتھ اپنا عریضہ اختتام پزیر کروں گا

سانحہ نہیں ٹلتا سانحے پر رونے سے
حبسِ جاں نہ کم ہوگا بے لباس ہونے سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کچہری نامہ (٤) وجود پیر 20 مئی 2024
کچہری نامہ (٤)

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے ! وجود پیر 20 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے !

عصرحاضرکادہشت گرد وجود پیر 20 مئی 2024
عصرحاضرکادہشت گرد

چائے والا کروڑوں مالیت کے اثاثوں کا مالک وجود پیر 20 مئی 2024
چائے والا کروڑوں مالیت کے اثاثوں کا مالک

جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر