وجود

... loading ...

وجود
وجود

دس روپے کا دودھ !

جمعرات 03 ستمبر 2020 دس روپے کا دودھ !

بھائی دس روپے کا دودھ دینا۔۔یہ آواز سن کر میں چونک پڑا۔دیکھا کہ ایک بزرگ ہاتھ میں دس کا نوٹ دکاندار کی طرف بڑھا رہے تھے۔حلیئے سے وہ مجھے چوکیدار لگے۔پرانے لیکن صاف ستھرے لباس میں ملبوس ، ہاتھ اور چہرہ تروتازہ ، جیسے کچھ دیر پہلے ہی وضو کیا ہو۔ میں سوچنے لگا کہ دکاندار اب انہیں کیا ردعمل دیتا ہے،کیونکہ صرف ایک پاؤ دودھ بھی آج کل کم از کم تیس روپے کا آتا ہے۔میری نگاہ اب اس دکاندار پر تھی،میں سوچ رہا تھا کہ دکاندار کہیں ان سے یہ نہ کہہ دے کہ بابا جی کہیں دس روپے کا بھی دودھ آتا ہے؟ میں اس دکاندار کو کئی سال سے جانتا تھا اور شاید اس نے بھی ان بزرگ کی لاج رکھنے کا فیصلہ کیا، میں نے دیکھا کہ اس نے تھیلی میں دودھ ڈالا ، جو بہر حال دس روپیسے سے زیادہ کا تھا ، اس نے ان صاحب کو وہ دودھ پکڑادیا ،وہ بزرگ دس روپے دے کر دودھ لیکر روانہ ہوگئے۔میں نے دیکھا ایک سفید پوش آدمی کی سفید پوشی کا بھرم رہ گیا ہے۔جس نے ہاتھ پھیلانا گوارا کرنے کے بجائے جو کچھ اس کے پاس تھا،خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
میں انہیں جاتے دیکھتا رہا۔اور سوچتا رہا کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں۔انسان کی قوت خرید کا کیا عالم ہوگیاہے،کتنے ہی خوددار لوگ ایسے بھی ہوں گے جو ضرورت کے باوجود دل مار کر خالی جیب دکانوں کا رخ نہیں کرتے ہوں گے۔
ایک طرف تو وہ غریب آدمی تھا جس نے مانگنے کے بجائے اپنی خودداری کا بھرم رکھا۔دوسری طرف ہم اکثر ایسے پیشہ ور لوگوں کو بھی دیکھتے ہیں جو غربت کا لبادہ اوڑھے در در ہاتھ پھیلاتے نظر آتے ہیں، ان لوگوں کو آپ صبح سے شام تک صرف مانگتے ہوئے ہی دیکھیں گے۔اور کتنے ہی لوگ انہیں ، دس ، بیس ، پچاس اور سو روپے پکڑا کر ، دس روپے کا دودھ لیجانے والے اْن سفید پوش صاحب،جیسے لوگوں کا حق مار دیتے ہیں۔
میں نے اس سے پہلے بھی کئی مضامین میں پیشہ ور بھکاریوں کی نشاندہی کی ہے۔ جو صرف مانگتے ہیں،اور وہ اپنے اوپر کچھ خرچ نہیں کرتے،ان کا کام صرف پیسہ جمع کرنا ہوتا ہے اور اس کام کے لیے وہ اپنے بچوں کو بھی سڑکوں ، اور بازاروں میں خوار کررہے اور مستقبل کا بھکاری بنا رہے ہوتے ہیں، اور بہت سے جذباتی لوگ ان بچوں شکل دیکھ کر تڑپ کر انہیں فوراً بھیک دے دیتے ہیں۔حالانکہ ایسے بھکاری رحم کھانے کے لائق تو کیا، الٹا سزا کے مستحق ہیں، یہ لوگ ملکی معیشت پر بھی ایک بڑا بوجھ ہوتے ہیں ، کیونکہ یہ مانگ کر پیسہ جمع تو کرتے ہیں لیکن اسے اپنے اوپر خرچ نہیں کرتے۔یہ بھکاری پیسے والے ہونے کے باوجود کھاتے بھی مانگ کر ہیں اور پہنتے بھی مانگ کر۔
دودھ کی دکان پر پیش آئے اس واقعے نے مجھے ایک بار پھر ہماری معیشت، مہنگائی اور لوگوں کی قوت خرید کا درد ناک چہرہ دکھادیا۔زرا سوچیں کہ ان حالات میں دس، بارہ ہزار روپے کمانے والے ، چوکیدار،مزدور ، سیلز مین یا دوسرے محنت کشوں کی کیا حالت ہوتی ہوگی، جب کہ ان سے کہیں زیادہ کمانے والے ملازمت پیشہ، اور چھوٹے تجارت پیشہ لوگ بھی اس مہنگائی کے دور میں اپنی جائز ضروریات پوری کرنے سے قاصرنظر آتے ہیں۔
ایک صاحب جو ساٹھ ہزار روپے سے کچھ زائد تنخواہ پاتے ہیں بتا رہے تھے کہ مہینے کے آخر میں وہ ایک روپیہ بچا نہیں پاتے، بلکہ الٹا کچھ قرضدار ہوجاتے ہیں، جبکہ ان کی تمام ضروریات صرف گھریلو اخراجات سے متعلق ہیں،جن میں کوئی مہنگا شوق یا آؤٹنگ وغیرہ شامل نہیں۔تمام تنخواہ فیملی کے روزمرہ کے ضروری اخراجات کی نذر ہوجاتی ہے۔مجھے ان صاحب کی بات پر سو فیصد یقین ہے ، کیونکہ ہم بھی اسی شہر اور اسی ملک میں رہتے ہیں اور تمام معاملات کے عینی شاہد بلکہ ان حالات کے متاثرین میں بھی شامل ہیں۔
عوام کی معاشی حالت زار کو سیاسی حکومتوں کی کرپشن ، عالمی مالیاتی اداروں سے کئے گئیتباہ کن معاہدوں اور ملک کے لیے اپنائے گئے غیر موزوں معاشی نظام کا ثمر قرار دیا جاتا ہے۔گزشتہ تین دہائیوں کے اس صورتحال میں بہتری کے بجائے بگاڑ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔حکومتی نااہلیوں کا تمام تر بوجھ عوام پر لادا جارہا ہے۔ ہر گزرتا دن کسی سانحے کا شاہد ہوتا ہے،صورتحال مسلسل ایک خطرناک رخ کی جانب گامزن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر