وجود

... loading ...

وجود
وجود

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

بدھ 02 ستمبر 2020 چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

دوستو، ایک خبرکے مطابق دیگر افراد کے مقابلے میں بچپن یا جوانی میں کسی بڑے صدمے، استحصال یا حادثے کے شکار ہونے والے افراد میں عمر کے ساتھ ساتھ سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت کم ہوسکتی ہے، نئی ریسرچ کے مطابق بچپن کے مقابلے میں جوانی میں اس صورتحال کا اثر قدرے سخت ہوتا ہے اور بعض اقسام کے اکتساب اور ذہنی صلاحیتوں میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔برینڈائس یونیورسٹی کے تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ، اگر والدین میں سے کوئی ایک فوت ہوجائے یا والدین کی علیحدگی ہوجائے تو اس کا گہرا نفسیاتی اثر ہوتا ہے، اسی تناسب سے ذہنی صلاحیت ماند پڑسکتی ہے لیکن یہ عمل یکدم ہونے کے بجائے پوری زندگی برقرار رہ سکتا ہے۔اس ضمن میں انہوں نے سال دوہزار چار سے دوہزار تیرہ کے درمیان اٹھائیس سے چوراسی سال کے ڈھائی ہزار مردوخواتین کا جائزہ لیا، تمام شرکا سے بارہ اقسام کے صدمات کی بابت پوچھا گیا، ان میں والدین کی طلاق یا موت، ذہنی یا جسمانی زیادتی اور مارپیٹ، گھریلو ناچاقیاں، آتشزدگی، شراب اور منشیات کی لت، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کو بھی شامل کیاگیا، یہ تمام کیفیات وقتی طور پر شدید نفسیاتی کوفت کی وجہ بنتی ہیں۔۔اس ضمن میں شرکا سے تفصیلی سوال نامے بھی بھروائے گئے اور اس کا دو دماغی کیفیات پر اثر دیکھاگیا، ان میں دماغ کی ایگزیکٹیو فنکشننگ (ای ایف) یا ایپی سوڈک میموری (ای ایم) شامل ہے، ای ایف کا عمل توجہ، منصوبہ بندی، مسائل کے حل اور ملٹی ٹاسکنگ کو ممکن بناتا ہے، جب کہ ای ایم میں ہم حال ہی میں یاد کی ہوئی یا دیکھی ہوئی معلومات کو دہراتے ہیں۔مسلسل نو برس تک تمام شرکاکودیکھاگیا،جو لوگ حادثات کے شکار ہوئے یا صدموں سے گزرے ان میں ای ایف اور ای ایم شدید متاثر دیکھی گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ سیکھنے اور سمجھنے والی ان دودماغی کیفیات میں تبدیلی ہوتی رہی اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہاگیا کہ صدمہ،ڈپریشن اور دباو کو جنم دیتا ہے جس سے ذہنی صلاحیت کو دھچکا لگتا ہے، اس کے ساستھ صدمات جسم میں اندرونی سوزش اور امنیاتی نظام کو بھی متاثر کرتے ہیں جس سے دماغ مزید کمزور ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا کیوں کہ اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ اس نے کہا کیا تھا۔۔باباجی فرماتے ہیں ایک نارمل انسان کا حافظہ کمزور ہونا چاہیئے، اسے چھوٹی چھوٹی باتیں لازمی بھول جانی چاہئیں، مثال کے طور پر کل صبح ناشتے میں کیا کھایا تھا۔اے ٹی ایم سے دوہزار روپے نکالے تو خرچ کہاں اور کدھر کردیئے؟ ایک ہفتے پہلے پیر کے روز آفس کس لباس میں گئے تھے؟ اس طرح کی چھوٹی باتیں اگر ذہن میں نقش ہونے لگ جائیں تو زندگی اجیرن بن جائے۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ بھولنے کی عادت بھی خدا کی طرف سے انسانوں کے لیے ایک بڑی نعمت ہے، جب باباجی سے اس کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگے، خود سوچو، انسان کو سب سے زیادہ پیار اور انسیت اپنے والدین سے ہوتی ہے، والدین اگر انتقال کرجائیں تو کتنا شدید صدمہ ہوتا ہے؟ یہ اللہ کی بڑی نعمت ہے کہ زیادہ سے زیادہ تین دن میں صبر آجاتا ہے اور انسان اپنے والدین کی موت کو بھول کر دنیاداری میں لگ جاتا ہے۔۔اسی طرح اگر کسی کی اولاد مرجائے تو یہ ایسا غم ہے کہ قبر تک ساتھ نہ چھوڑے لیکن اللہ اسے بھی دماغ سے آہستہ آہستہ مٹا دیتا ہے۔۔باباجی کی ’’حافظے‘‘ سے متعلق باتیں ’’ہاضمے دار‘‘تھیں اس لیے ہم نے مزید سوالات سے گریز کیا۔۔
بھولنا، بھول جانا، یاد نہ آنا۔۔یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن جب کہیں جائیں یا کسی سے ملاقات کریں تو دماغ حاضر رکھیں، ورنہ بڑا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔۔ ایک صاحب کے گھر ان کی بیٹی کا رشتہ آیا، پھر ایک روزلڑکے والوں نے کہا کہ لڑکی دیکھنے آرہے ہیں۔۔ان صاحب نے اپنی لڑکی کے حوالے سے بتایا تھا کہ لڑکی کی عمر اکیس سال ہے اور ڈاکٹری کا آخری سال ہے۔۔لڑکے والے گھر آگئے، ان کی تواضح کے لیے خاصا اہتمام کیاگیا،بات چیت کا مرحلہ شروع ہوا، لڑکی کے باپ نے اپنی صاحبزادی کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کی قلابیں ملا ڈالیں۔۔کہنے لگے۔۔ ہماری بیٹی امور خانہ داری میں طاق، پکوان میں ماہر، پڑھائی میں شروع سے آج تک ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کرتی رہی، اسپورٹس میں بھی کئی ٹرافیاں جیت کر لائی، بس کیا کیا بتائوں آپ کو اپنی لڑکی کے بارے میں، یہ تو ہیرا ہے ہیرا، اور آپ جیسا جوہری ہی اس ہیرے کو شناخت کرسکتا ہے۔۔لڑکے والدین نے خاموشی سے لڑکی کے والد کی ساری باتیں سنیں،لڑکے کی ماں نے اچانک بے تکی سی بات کردی، کہنے لگی۔۔لڑکی سے متعلق اور کچھ بتانا چاہیں توہمیں اچھا لگے گا۔۔لڑکی کے والد ترنگ میں آگئے(شاید چائے کا اثر ہوگیا تھا)کہنے لگا۔۔ یہ لڑکی بہت لکی ہے، ایسی خوش قسمت بچی ہے کہ کیا بتائوں آپ کو، بس یوں سمجھ لیں کہ جب یہ لڑکی پیدا تو مجھے سرکاری ملازمت ملی تھی اور کل ہی پینتیس برس ہونے پر باعزت ریٹائرڈ ہوگیا۔۔اور آج ہماری بچی کا رشتہ ہوگیا۔۔بس یہ سننا تھا لڑکے کے گھر والوں نے بھاگنے میں منٹ نہیں لگایا۔۔ اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ بولنے سے پہلے تول لیا کرو۔۔ لیکن کچھ لوگوں کے ترازو یا پیمانے میں گڑبڑ ہوتی ہے،اس لیے وہ بولنے کے بعد جب تولتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں کچھ زیادہ ہی بول گئے۔۔
باباجی ایک بار فرمانے لگے۔۔ میاں حافظے کے حوالے سے غالب نے کیا خوب کہا تھا۔۔ کبھی میں سوچتا ہوں، کچھ نہ کچھ کہوں،پھر یہ سوچتا ہوں کیوں نہ چپ رہوں۔۔ہم نے انہیں ٹوکا، باباجی پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ غالب کی کوئی غزل یا شعر نہیں بلکہ ایک فلمی گانا ہے، جسے مہدی حسن نے گایا، دوسری بات یہ کہ۔۔کبھی میں سوچتا ہوں، کچھ نہ کچھ کہوں،پھر یہ سوچتاہوں کیوں نہ چپ رہوں۔۔ اس میں ’’حافظہ‘‘ کا ذکر کہاں ہے؟؟ باباجی نے ہماری بات کا رتی برابر بھی برانہ منایا، حسب عادت تھوڑا سا مسکرائے اور کہنے لگے۔۔بیٹا جی، جب شاعر یہ شعر کہہ رہا تھا تو سمجھ لو کہ اس کا حافظہ کتنی تیزی سے کام کررہا تھا۔۔ یعنی کہ پہلے اس نے سوچا کہ کچھ نہ کچھ بولے، پھر اچانک یہ سوچنے پر مجبور پر ہوگیا کہ کیوں نہ چپ رہے۔۔ممکن ہے،شاعر اس وقت اپنی زوجہ ماجدہ سے بات چیت میں مصروف رہا ہو۔۔یا اباجی یا اماں جی سے کسی بات پر شدید اختلاف ہو لیکن والدین کی بے ادبی یا ان کا تقدس پامال ہونے کے ڈر سے اس نے مزید کوئی بحث کرنے سے گریز کیا ہو۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔زمین کے اوپر عاجزی سے رہنا سیکھ لو، زمین کے نیچے سکون سے رہ پائوگے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر