وجود

... loading ...

وجود
وجود

انصاف پر اعتماد کیسے؟

هفته 29 اگست 2020 انصاف پر اعتماد کیسے؟

وہ نوجوان چلا رہا تھا اور انصاف کے لیے دہائی دے رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ وہ یتیم ہے اور گھر کا واحد کفیل ہے ۔ گھر میں رہنے والی بوڑھی ماں اور بہنوں کا سہارا ہے ۔ اسے اس کا حق چاہیے ورنہ وہ اور اس کے گھر والے خودکشی پر مجبور ہوں گے ۔ بڑی سی صوفہ نما آرام دہ کرسی پر تمکنت سے براجمان شخص اس کی بات کو غور سے سن رہا تھا۔اس کمرے میں عدالت لگی ہوئی تھی اور مدعی و ملزم دونوں موجود تھے ۔ دونوں جانب سے چند لوگ گواہوں کے طور پر جمع تھے ۔ اس نوجوان کی بات ختم نہ ہوئی تھی کہ دوسری جانب موجود شخص نے چلانا شروع کر دیا کہ یہ نوجوان جھوٹا ہے ۔ میں اسے اس کے حصے کی ساری رقم ادا کر چکا ہوں اور اب یہ محض مجھے بدنام کرنا چاہتا ہے ۔ کرسی پر بیٹھے شخص نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ اسے اپنی بات کہنے کا مکمل حق دیا جائے گا پہلے نوجوان کی بات مکمل ہو جائے ۔ ان کا مسئلہ سننے والے شخص کا انداز ایسا ہی تھا جیسے عدالت میں جج بیجا مداخلت اور شور بڑھنے پر آرڈر،آرڈر کا حکم دیتا ہے ۔ ان کے درمیان جاری مکالمے سے اندازا ہو چکا تھا کہ یہ نوجوان جس شخص پر الزام عائد کر رہا ہے وہ اس کا سگا چچا ہے ۔ نوجوان کی بات مکمل ہونے کے بعد اس کی مخالفت میں چچا نے بات شروع کی اور نوجوان کو غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے لگا۔
ضلع سانگھڑ کے ایک گائوں میں جاری اس عدالت میں کہیں بھی کالے کوٹ پہنے وکیل دکھائی نہ دیتے تھے ۔دونوں جانب سے ملزم و الزام کنندہ روبرو موجود تھے اور اپنا مسئلہ خود بیان کر رہے تھے ۔جج کے فرائض انجام دیتا وہ شخص بہت غور سے ان کی باتوں کو سن رہا تھا۔ دریں اثناء اس کے حکم پر دونوں جانب سے مختلف کاغذات پیش کیے گئے ۔ آخرکار گواہوں کے بیانات اور تمام ثبوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ سنا دیا گیا۔فیصلے کے مطابق اس نوجوان کے چچا کو حکم دیا گیا کہ وہ کل ہی اس نوجوان کا حق ادا کردے ۔ ایک ذاتی لیٹر ہیڈ پر فیصلہ لکھ دیا گیا اور دونوں جانب سے اس پر دستخط کیے گئے ۔ دونوں جانب سے ضامن کے طور پر گواہوں نے بھی دستخط کیے اور عدالت برخاست ہو گئی۔یہ فیصلہ سنانے والے سابق ایم این اے محمد خان جونیجو خود تھے اور لیٹر ہیڈ پر ان کا ہی نام لکھا تھا۔دلچسپ بات یہ تھی کہ فیصلہ ہونے کے بعد دونوں جانب سے کوئی شکایت نہ کی گئی اور فیصلے کو تسلیم کر لیا گیا۔ میں اس نجی کمرۂ عدالت میں بیٹھا یہ سارا منظردیکھ رہا تھا۔ اس کیس کا فیصلہ ہونے کے بعد باری کے انتظار میں بیٹھے دوسرے لوگ کمرہ عدالت میں آچکے تھے اور وہ شخص اب ان کا کیس سن رہا تھا۔ میں وہاں سے باہر نکلا اور اس نوجوان کی جانب لپکا۔ میں نے اسے روکا اور اس کا نام معلوم کرنے کے ساتھ کیس کی مزید تفصیلات جاننا چاہیں۔ اسداللہ نامی اس نوجوان نے بتایا کہ اس کے والد کا انتقال ہو چکا ہے اور اس کے چچا نے والد کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ آپ کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا، آپ یہاں کیوں آئے ہیں میں نے سوال کیا؟ اس لیے کہ یہاں ہمیں انصاف مل جائے گا۔ میں مٹیاری کورٹ میں گیا، حیدرآباد کورٹ میں گیا اور میرے حق میں فیصلہ ہوا پر میرے چچا نے مجھے میرا حق نہیں دیا۔ اب ہم محمد خان جونیجو سائیں کے پاس آئے ہیں اور اب میرا چچا میرے ساتھ زیادتی نہیں کر سکتا۔ جب آپ کے چچا نے عدالتوں کے فیصلوں کے باوجود رقم ادا نہیں کی تو پھر آپ کو کیسے یقین ہے کہ اب وہ ادا کر دیں گے ۔ یہ فیصلہ محمد خان صاحب نے کیا ہے اور اس سے پہلے آدھا حصہ بھی انہوں نے ہی دلایا تھا۔ باقی آدھی زمین کے لیے چچا نے وقت مانگا تھا پر سی پیک روٹ کے باعث زمین کی قیمت بڑھنے کے ساتھ چچا کی نیت بدل گئی۔ میرا جائزحق مجھے مل کر رہے گا کیونکہ فیصلہ محمد خان صاحب نے کیا ہے ،اس نے پر یقین انداز میں جواب دیا۔ اس نوجوان سے گفتگو کے بعد میں نے گھوم پھر کر اس اوطاق کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اوطاق خاصی بڑی تھی اور جہاں یہ فیصلے کیے جارہے تھے اس کمرے کے علاوہ دو ہال نما کمرے تھے جو لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے اور صحن میں بھی لوگ جمع تھے ۔ بھیڑ کو دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ لوگ محمد خان جونیجو پر اعتماد کرتے ہیں۔ مزید کچھ آگے ایک بڑے بر آمدے میں چارپائیاں لگی تھیں جن پر آرام کرتے لوگ چائے کی چسکیاں لیتے محو گفتگو تھے ۔ برآمدے کے سامنے کی جانب دیگوں میں کھانا بن رہا تھا۔مجھے کہیں بھی مسلح افراد یا سیکیورٹی گارڈ نظر نہیں آئے ۔ میں نے واپس اس کمرے کا رخ کیا جہاں ایک اور مقدمہ جاری تھا۔
جرگہ کا جو تاثر مجھ پر قائم تھا وہ یہاں آکر یکسر بدل گیا تھا۔ اب میں محمد خان جونیجو کی جانب متوجہ تھا اور ان کا انداز دیکھ رہا تھا۔ وہ دونوں جانب کے دلائل کو سنجیدگی سے سنتے ، کاغذات اور ثبوتوں کا جائزہ لیتے ، گواہوں کے دلائل سنتے اور پھر فیصلہ سنا دیتے ۔ لوگ اپنا موقف بلا خوف و خطر پیش کر رہے تھے ۔ایک لڑکی کے والدین اسے گھر لے جانا چاہتے تھے ۔ وہ لڑکی کسی ایسے نوجوان کی محبت میں گرفتار ہوکر گھر سے فرار ہوئی تھی جو پہلے سے دو بیویوں کا شوہر تھا۔ لڑکی کی عمر محض چودہ سال تھی اور وہ گھر واپس جانے کے لیے بالکل تیار نہ تھی۔ محمد خان جونیجو اسے شفقت سے سمجھا رہے تھے کہ وہ اٹھارہ سال سے کم عمر ہے اس لیے اپنے گھر واپس چلی جائے ۔ لڑکی کے والدین اور رشتہ دار بھی اسے سمجھا رہے تھے پر وہ ماننے کے لیے تیار نہ تھی۔اس کا کہنا تھا کہ وہ سڑک پر رہ لے گی پر گھر واپس نہیں جائے گی۔ اس کے ساتھ کوئی زبردستی نہ کی گئی بلکہ اسے محمد خان صاحب نے اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دیدی۔ لڑکی کے ساتھ رہنے کے لیے اس کی ماں کو روک لیا گیا۔ محمد خان جونیجو نے قریب ہی واقع اپنے گھر میں ان کی رہائش کا انتظام کیا جہاں ان کے اپنے بیوی اور بچے رہتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد میں نے سوال کیا کہ آخر یہ لڑکی اپنے گھر نہیں جائے گی تو کہاں جائے گی۔ جونیجو صاحب نے مسکرا کر جواب دیا کہ چار دن جب یہ اپنی ماں کے ساتھ وقت گزارے گی تو ممتا کا خود احساس ہوگا اور یہ اپنی مرضی سے اپنے گھر چلی جائے گی۔ مجھے اندازا ہوا کہ خواتین کے لیے ان کا گھر دارالامان کی سی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کے بعد ایک اور مقدمے کا فیصلہ ہوا اور ایک فریق نے دوسرے کو اس کی رقم کیش کی صورت ادا کر دی۔ شام ہو چلی تھی اور صبح سے اب تک تقریباً پندرہ سے بیس کیسز نمٹائے جا چکے تھے ۔ گفتگو کے دوران میں نے محمد خان جونیجو سے سوال کیا کہ جب سکھر بنچ کا فیصلہ موجود ہے، اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ بھی موجود ہے کہ جرگوں پر پابندی ہے تو آپ کیسے یہ سب کر رہے ہیں۔ انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ جرگہ نہیں ہے بلکہ فیصلہ ہے اور لوگ خود اپنی مرضی سے میرے پاس آتے ہیں۔ کسی کے ساتھ کوئی زور زبردستی نہیں کی جاتی۔میری کوئی پرائیویٹ فورس نہیں۔ پورے سندھ سے لوگ آتے ہیں جن میں یہاں بسنے والے ہر زبان، ذات
برادری ، قوم اور مذہب سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔ دونوں جانب سے گواہ موجود ہوتے ہیں۔ یہاں آنے والا فیصلے کو تسلیم بھی کرتا ہے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ عدالتوں کے بجائے لوگ آپ کے پاس آتے ہیں میں نے سوال کیا۔ اکثر لوگ ہاری،کسان، مزدور اور دیہاڑی پر کام کرنے والے ہیں جو غربت کے باعث زیادہ دن کام چھوڑ نہیں سکتے ۔عدالتوں میں مقدمات لمبا عرصہ چلتے ہیں اور پھر وکیلوں کی فیس بھی زیادہ ہے ۔ یہاں فوری فیصلہ ہو جاتا ہے ۔ کسی طرح کی کوئی فیس نہیں لی جاتی اوردور دراز سے آنے والوں کے لیے رہائش، قیام و طعام کا مفت انتظام بھی ہوتا ہے ۔ لوگ اسی پر اعتماد کرتے ہیں جو انصاف کرے اگرمیں انصاف سے فیصلے نہیں کروں گا تو یہاں کوئی بھی نہیں آئے گا۔ ان کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ ریت روایات کے علاوہ فوری انصاف کا یقین اور شخصیت پر بھروسا اصل وجہ ہے کہ لوگ ان کے پاس انصاف کی غرض سے آتے ہیں اور جو بھی فیصلہ ہو اسے تسلیم کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر