وجود

... loading ...

وجود
وجود

ڈوبتے کراچی کو کس کا سہارا؟

جمعرات 27 اگست 2020 ڈوبتے کراچی کو کس کا سہارا؟

ایک انجینئرنگ یونیورسٹی،کے تمام اساتذہ کوسیر پر لے جانے کیلئے ایک ہوائی جہاز میں بٹھایا گیا۔۔۔جب تمام اساتذہ جہاز میں اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے تو پائلٹ نے خوشی اور جوش بھرے لہجے میں اعلان کیا کہ ’’آپ تمام اساتذہ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ جس جہاز میں آپ بیٹھے ہیں اسے آپ ہی کی یونیورسٹی کے ہونہار اور قابل طالبعلموں نے بنایا ہے‘‘۔بس پھر کیا تھا اتنا سنتے ہی تمام اساتذہ اس خوف سے نیچے اُتر گئے کہ کہیں جہاز کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائے….!!!لیکن یونیورسٹی کے وائس چانسلر بدستور اطمینان کے ساتھ اپنی سیٹ پر جم کر بیٹھے رہے۔یہ دیکھ کر پائلٹ ان کے پاس آیا اور دریافت کیاکہ’’ سر آپ کو ڈر نہیں لگتا!!! ‘‘وائس چانسلر نے دل کو چھو لینے والا تاریخی جواب دیاکہ ’’مجھے اپنی یونیورسٹی کے اساتذہ سے بھی زیادہ اپنے طالبعلموں پر اعتماد ہے،لہذا ۔۔۔ تم کتنی بھی کوشش کرلو ،دیکھ لینا یہ جہاز اسٹارٹ ہی نہیں ہو گا!!!‘‘ ۔کوئی مانے یا نہ مانے مگر سچ یہ ہی ہے کہ جتنا وائس چانسلر کو اپنے طالب علموں پر اعتماد تھا، اُس سے کہیں زیادہ اعتماد سندھ کے باسیوں کو سندھ حکومت کی انتظامی قابلیت اور سیاسی بد نیتی پر ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ چند جہاں دیدہ لوگوں نے تو گزشتہ بارشوں میں ہی کراچی کے شہریوں کو بڑے پیار سے سمجھادیا تھا کہ چاہے اپنے گھر میں آئے ہوئے بارش کے گدلے پانی میں ڈوب کر مرجانا لیکن سندھ حکومت سے اپنے مسائل کا حل ،کبھی غلطی سے بھی مت مانگ لینا، ورنہ بہت پچھتاؤ گے ۔
کراچی کے باسیوں نے اہل الرائے کی ایک نہ سنی اور اپنے مسائل کے حل کے لیے سندھ حکومت کے دروازے پر ہلکی سی دستک دے ڈالی ۔ بس پھر کیا تھا کہ سندھ حکومت نے’’سماجی آؤ‘‘ دیکھا نہ’’اخلاقی تاؤ‘‘ اور شہر کے مسائل کے حل کے لیے ایک وسیع البنیاد ’’کراچی کمیٹی‘‘ بناڈالی۔ انتظامی کمیٹی کے قیام کا سن کر اہلیانِ کراچی کو موہوم سی اُمید ہو چلی تھی کہ شاید تین بڑی سیاسی جماعتیں ایک کمیٹی میں مل جل کر کراچی کے دیرینہ مسائل کا کوئی نہ کوئی قابل عمل حل ضرور تلاش کرہی لیں گی۔ مگر کسے خبر تھی کہ کراچی کے حوالے سے سندھ حکومت کی نیت ہمیشہ ہی سے بُری رہی ہے اور اپنے سابقہ ماضی کے عین مطابق اِس بار بھی پاکستان پیپلزپارٹی نے ’’کراچی کمیٹی‘‘ کی آڑ میں کراچی کے اتحاد و یگانگت پر اچانک سے شب خون ماردیا اور شہر کراچی میں ایک نیا ضلع کیماڑی کے نام سے بناتے ہوئے فرمان ِ شاہی جاری کردیا کہ ’’چونکہ ہم صوبہ سندھ کی تقسیم کے سخت خلاف ہیںلہذا ہماری ’’جمہوری حکومت ‘‘نے کراچی کے قلب میں ’’انتظامی خنجر ‘‘ کی تیز دھار سے ایک نئی لکیر کھینچ کر صوبہ سندھ کو مزیدتقسیم ہونے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بچالیا ہے ‘‘۔یقینا سندھ حکومت کا یہ’’انتظامی کارنامہ‘‘ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں نمایاں طور پر سفید لفظوں سے لکھا جائے گا،تاکہ جن سیاست دانوں کا خون سفید ہے ،اُنہیں بھی نوشتہ دیوار پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہو۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر پاکستان پیپلزپارٹی ڈوبتے ہوئے کراچی میں ہنگامی بنیادوں پر نیا ضلع بنا کر اور ’’انتظامی تعصب‘‘ کے نئے بیج بو کر کون سے سیاسی اہداف فور ی طور پر حاصل کرنا چاہتی ہے ؟۔ یہ وہ سوال ہے جس کا ایک نہیں بلکہ کئی جوابات ہوسکتے ہیں ۔پہلا جواب تو یہ ہے کہ کیماڑی ضلع بنانے کا اعلان کرکے پاکستان پیپلزپارٹی نے کراچی کی تعمیرو ترقی کے بارے میں فکر مند رہنے والے مقتدر حلقوں کو بالکل واضح پیغام پہنچا دیا ہے کہ کراچی کے حوالے سے لیئے گئے ہر ایسے’’انتظامی فیصلہ‘‘ کو بھرپور انداز میں سبوتاژ کردیا جائے گا، جس میں سندھ حکومت کی سیاسی مفادات کا خیال نہیں رکھا جائے گا۔ نیز اپنے اس جارحانہ سیاسی اقدام سے سندھ حکومت نے اہلیانِ کراچی کے دل و دماغ سے یہ ’’سیاسی خناس ‘‘ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے نکالنے کی کوشش کی ہے کہ وفاقی حکومت ہو یا کوئی دوسرا مقتدر ادارہ ، یہ سب مل کر بھی اہلیانِ کراچی کی کسی بھی’’سیاسی اُمید ‘‘کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔دوسری جانب نیا ضلع بنا کر پاکستان پیپلزپارٹی نے حلیفوں اور حریفوں کو بیک وقت اپنی سیاسی اور انتظامی طاقت کی جھلک بھی دکھانے کی کوشش کی ہے ۔اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی جو لاڑکانہ اور نواب شاہ میں بھی بلدیاتی اداروں کو انتظامی اختیارات دینے کی روادار نہیں ہے ،اُس سیاسی جماعت کی صوبائی حکومت سے یہ اُمید رکھنا کے وہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیئے انتظامی اختیارات کی تقسیم پر خوشی خوشی راضی ہوجائے گی ۔ ہمارے خیال میں یہ گمان بھی رکھنا بہت بڑی سیاسی بے وقوفی ہوگی ۔ کیونکہ سندھ حکومت ایک ایسا سیاسی برگد کا درخت ہے جس کے سائے تلے کسی بھی ’’کراچی کمیٹی ‘‘کی بیل چاہے وہ کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو ہمیشہ بانجھ ہی رہی گی اور کبھی بھی اپنے ثمرات عوام تک نہیںپہنچا سکے گی۔اس لیئے مقتدر اداروں کو بہر صورت یہ سمجھنا ہوگا کہ کراچی کودرپیش سیاسی ،سماجی ،اقتصادی اور ثقافتی مسائل چونکہ عام نوعیت کے نہیں ،لہٰذا انہیں حل کرنے کے لیئے بھی خصوصی انتظامی یا سیاسی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ خاص طورپر ڈوبتے ہوئے کراچی کے سیاسی ڈھانچہ کی جراحی کا عمل انجام دینے کے لیے اُن نام نہاد سیاسی طبیبوں کی خدمات حاصل کرنے سے گریز کیا جائے جنہوں نے گزشتہ چالیس برسوں کی دن ،رات سیاسی کوششوں سے کراچی کو اِس حالتِ نزاعی تک پہنچایا ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی ہو یا ایم کیوایم اِن سیاسی جماعتوں کے دستِ اجل کے ہاتھوں میں ڈوبتے ہوئے کراچی کی زندگی کی ڈور تھمانا ایسے ہی ہے جیسے دو خون خوار شیروں کے آگے کسی ناتواں بکری کو پھینک دینا۔اس لیئے ڈوبتے کراچی کو بچانے کے لیے اُنہیں مقتدر قوتوں کو آگے آنا ہوگا،جن کی کاوشوں سے یہ شہر دہشت گردی سے محفوظ ہوا ہے۔بصورت دیگر بقول معروف شاعر خرم آفاق

دوا سے حل نہ ہوا تو دُعا پر چھوڑ دیا
ترا معاملہ ہم نے خدا پر چھوڑ دیا
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر