وجود

... loading ...

وجود
وجود

ربط محکم اِسی بے ربط تقریر میں ہے

پیر 29 جون 2020 ربط محکم اِسی بے ربط تقریر میں ہے

ربط محکم اسی بے ربطیٔ تقریر میں ہے” کے مصداق وزیراعظم عمران خان نے بروز جمعرات قومی اسمبلی میں مقصد و معنوی تسلسل سے بھرپور تقریر کی جس کا مخاطب ”بزم میں اہل نظر بھی ہیں تماشائی بھی” کے مصداق مختلف ذہنی سطح کے لوگ تھے جس میں حاضرین اسمبلی بھی تھے تو خصوصی طور پر ملک کا ہر خاص و عام شہری تھا اس تقریر میں خان صاحب نے اپنی سوچ و فکر کی عکاسی بھی کی اور اس کے مدمقابل قوتوں کا ذکر بھی اور ساتھ ساتھ تنقید برائے تنقید و مخالفت برائے مخالفت کرنے والوں سے شکوہ بھی کیا، اس تقریر میں بھیانک سے بھیانک انکشاف بھی تھے اور ملکی دولت کے استحصال کا نوحہ بھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پہلی بار کسی ملک کے وزیراعظم نے اسمبلی کے فلور پر کھلم کھلا مافیا راج اور اس کے منظم طریق و نیٹ ورک کا انکشاف بھی کیا تو لگے ہاتھ اہل درد ملک و ملّت سے ہم آواز و ہم خیال اور برائی کے خلاف اچھائی کا ساتھ دینے کی اپیل بھی کی، اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقریر اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور بدلے میں ملنے والی ذلت و ناانصافی پہ رنجیدگی کا اظہار کیا کہ ہمارے ستّر ہزار سے زائد افراد شہید ہوے، لاکھوں زخمی و معذور ہوے، لاکھوں خاندان اجڑ گئے اور کھربوں روپے کا نقصان ہوا لیکن بدلے میں ہمیں ہی دہشتگرد کا لقب ملا اور اس دوران ان کی زبان سے اسامہ بن لادن کے لیے شہید کا لفظ ادا ہوگیا، وہ دانستہ تھا یا غیر دانستہ یا پھر ہوسکتا ہے کہ اللہ نے نکلوادیا ہو، خیر جیسے بھی ہوا لیکن باقی تمام تقریر کو چھوڑ کر اپوزیشن و میڈیا کے مخصوص چہروں نے شہید کے لفظ کا خوب ٹرائیل کیا اور جان بوجھ کر انٹرنیشنلائز کیا جس پر معروف تجزیہ نگار ارشاد بھٹی نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ ”اسامہ کو شہید کہنے پر مسلمانوں کی اکثریت کو خوشی ہوئی جبکہ اسلام دشمنوں کو تکلیف ہوئی” اس کے علاوہ معروف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ شفقت چودھری المعروف محبت مافیا نے سوال اٹھایا کہ شہید خالصتاً شرعی اصطلاح ہے اور اب ہم اس قدر گر گئے ہیں کہ کون شہید ہے کون مردار اس کے پیمانے امریکا و بھارت طے کریگا؟ اندازہ کریں کہ ہم کہاں آگئے ہیں اور نام نہاد میڈیائی دانشور ہمیں کہاں لے آئے ہیں کہ اب اسلامی معاملات کے پیمانے بھی امریکا و مغرب کے بیانیے کے مطابق سیٹ ہونے لگے ہیں۔
کل یہی امریکا تھا جس کے مطابق اسّی کی دہائی میں اسامہ نہ صرف عظیم مجاہد بلکہ پورے عالم کا ہیرو تھا اور ریگن انتظامیہ افغان مجاہدین کو مظلوم، فریڈم فائٹر اور مجاہد کے نام سے موسوم کرتی تھی، مغرب کے بڑے بڑے اخبارات و چینلز پہ ان کو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا تھا تب یہ حامد میر سے عاصمہ شیرازی، پیپلزپارٹی سے ن لیگ تک سب کے ہیرو تھے پھر نائن الیون کے واقعے کی آڑ میں اسلام کے خلاف جنگ شروع کی گئی اور ہر سچے مسلمان کو دہشتگرد کہا جانے لگا تو پیمانے بھی بدل گئے اور حامد میر سے عاصمہ شیرازی تک اور ن لیگ سے پیپلزپارٹی تک کے نزدیک ہر سچا پکا مسلمان دہشتگرد ہوگیا، زرا سوچئے کہ حافظ سعید ہو یا افغان طالبان، اسامہ بن لادن ہو یا مسعود اظہر کسی ایک سے بھی انسانیت کے خلاف جارحیت کا ایک واقعہ بھی منسوب نہیں لیکن امریکا نے ان کی حق گوئی کی وجہ سے دہشتگرد کہا تو ہمارے ابن سلولوں کے نزدیک یہ دہشتگرد ہوگئے اور اس کے برخلاف نریندر مودی جس کی زیرسرپرستی ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، ہزاروں مسلمان باپردہ خواتین کا ریپ کیا گیا لیکن امریکا نے مودی کو ہیرو کہا تو ان کے لیے بھی شریعت نافذ ہوگئی۔ حکومتی موقف آنے کے باوجود کہ زبان پھسل گئی تھی عمران خان کے اسامہ کو شہید کہنے پر شور مچا مچا کر انٹرنیشنلائز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ نائن الیون کے بعد صدر بش صاحب نے بھی اعلان کیا تھا کہ ”ہم نے صلیبی جنگ کا آغاز کردیا ہے” اور بعد میں کہدیا تھا کہ زبان پھسل گئی تو اس وقت ان نام نہاد دانشوروں کے منہ میں آبلے پڑگئے تھے، آج یہی وہ طالبان ہیں جن کو گُڈ طالبان کہنے پر غیر سے زیادہ ہمارے اپنے شور مچاتے تھے وہ دیکھ لیں کہ امریکا بہادر انہی کے ساتھ مذاکرات کرچکا بلکہ اب تو امریکی و نیٹو عسکری قیادت نے بھی معلومات شیئرنگ کا معاہدہ کیا ہے۔ شہید کے لفظ کو بنیاد بناکر تنقید و غل غپاڑہ کرنا ایک تیر سے دو نشانے لگائے جارہے ہیں بظاہر عمران خان جبکہ اصل میں انٹرنیشنلائز کرنے کا مطلب پاکستان کے خلاف جواز بہم پیدا کرنا ہے، خیر عمران خان کے خلاف یہ کوئی پہلی کوشش نہیں بلکہ متواتر کے ساتھ منظم انداز سے ایک کھیل کھیلا جارہا ہے جیسا کہ عمران خان برسوں سے قائم فرسودہ نظام کے خلاف داعء انقلاب ہیں تو ایسے میں مخالف قوت دفاعی طور پر خان صاحب کی انقلابی فکر کو چٹکیوں میں اڑا رہی ہے تاکہ عوام میں اس کا اثر زیادہ نہ پہنچ سکے۔ استہزاء و تمسخر اڑا کر، فقرے چست کرکے، مذاق اڑا کر کہ نااہل ہیں، سلیکٹڈ ہیں، دماغ خراب ہے، کنٹرول نہیں ہورہا، اہل نہیں وغیرہ وغیرہ کے ذریعے ذہنی اذیت پہنچا کر مرعوب و گھبراہٹ کا شکار کرنا مقصد ہے زرا سوچئے کہ چینی اسکینڈل ہوا رپورٹ آئی اور جب ایکشن کا وقت آیا تو پہلے اسلام آباد پھر سندھ ہائیکورٹ نے کاروائی سے روک دیا لیکن مخصوص طبقہ بجائے کورٹ کے اس مشکوک حکم پر سوال اٹھانے کے حکومت سے سوال کررہے ہیں کہ امپلیمنٹ یعنی عمل کرکے دکھاو ورنہ نااہل ہو، ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن کو کورٹ سے تحفظ ملا ہوا ہے۔ اندازہ کریں کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں سب سے زیادہ زور میرٹ اور رول آف لا پر دیا لیکن روایت کے مطابق طبقہ مخصوصہ نے اس بار بھی ان پہلووں کو ڈسکس ہونے سے روک دیا اور شہید کے لفظ کو بنیاد بناکر واویلہ مچادیا اندازہ کریں کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں سب سے زیادہ زور میرٹ اور رول آف لا پر دیا لیکن روایت کے مطابق طبقہ مخصوصہ نے اس بار بھی ان پہلووں کو ڈسکس ہونے سے روک دیا اور شہید کے لفظ کو بنیاد بناکر واویلہ مچادیا اور دلچسپ ترین یہ ہے کہ کل تک جہاں تھر میں سینکڑوں بچے صحت و خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے مرجاتے تھے اچانک سے راتوں رات ہیرو بنادیے گئے۔
اندازا کریں کہ حامد میر اپنے پروگرام میں ایک ممبر اسمبلی کی بات کہ ایک موضع کے نمبردار نے احساس پروگرام کے پیسے لیے جس پر حامد میر عجیب ایکٹنگ کے ساتھ چونکتے ہیں ”بارہ ہزار آپ کہہ رہے ہیں موضع کے نمبردار نے بارہ ہزار لیے” جبکہ مسلسل کئی دن سے قناصرو سسٹم کا شور ہے اربوں کی ثابت شدہ کرپشن ہے لیکن موصوف کے نزدیک اس پر کوئی حیرانگی نہیں کہ کس طرح ایک شخص گریڈ ون سے گریڈ بیس میں پہنچ گیا اور اربوں روپوں کو چونا لگارہا ہے۔ اگر موجودہ صورتحال پر غور کریں تو حقیقت یہی ہے کہ ایک مخصوص طبقہ ایک طرف حکومت کے لیے مختلف طریقوں سے مشکلات کھڑی کررہا ہے اور دوسری طرف حکومت کا جائز ناجائز ٹرائل کررہا ہے، اس کے جواب میں حکومت گھبرائی ہوئی نظر آرہی ہے اور اسی گھبراہٹ کا فائدہ مختلف طاقتور سرمایہ دار بھی اٹھا رہے ہیں ایسے میں خان صاحب کو جارحانہ حکمت عملی اپنانا ہوگی جس طرح انگریز سرکار نے کہا تھا کہ
”Would You Be Governed By Pen Or By Sword”
اور اپنی پالیسیوں اپنے پراجیکٹس و ریفارمز کو ڈسکس کے لیے عوام کے سپرد کرنا ہوگا بجائے اس کے کہ دو تہائی اکثریت کا انتظار کریں، اصلاحات کے صدارتی آرڈیننس یا اسمبلی میں بل پیش کیے جائیں جو بیشک پاس نہ ہوں لیکن عوام کے زبردستی کے ہمدردوں کو بینقاب ضرور کردیں گے، اس کے علاوہ موجودہ نظام کے تحت طاقتور کے احتساب میں رکاوٹ پیش آرہی ہے جس کا تاریخی حل یہی ہے کہ نچلی سطح سے احتساب کیا جائے جس طرح ماضی میں سب سے پہلے کُمک کو توڑا جاتا تھا موجودہ حکومت کو بھی مخالفین کی کُمک توڑنا ہوگی اور جب نچلی سطح پر بیوروکریسی، اداروں، ٹھیکیداروں، ٹیکس چوروں وغیرہ کو سزا ملتے دیکھا جائیگا تو عوام میں حکومت پر اعتماد بھی بڑھیگا اور ریاستی رٹ قائم ہونے کا ماحول بنتے نظر آئیگا یعنی کہ خوف کا ماحول پیدا ہوگا تو کُمک دینے والے ٹولے ختم ہوجائینگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر