وجود

... loading ...

وجود
وجود

مودی پراجیکٹ وشواگرو ناکام

جمعرات 25 جون 2020 مودی پراجیکٹ وشواگرو ناکام

وہ دن گزر گئے جب بھارت کو دنیا میں سیکیولرازم کے سب سے بڑے علمبردار کے طور پر جانا جاتا تھا جو حقیقتاً محض ایک پروپیگنڈہ تھا جو مودی سرکار کی کھلی مسلم دشمنی و اقلیت دشمنی پالیسیوں نے ازخود بے نقاب کردیا اور آج بھارت کا اصل چہرہ شدّت پسند ہندو ریاست کے طور پر عیاں ہورہا ہے، بھارت خود کو منی سپرپاور اور ایشین ٹائیگر کے طور پر باور کرواتا پھر رہا تھا لیکن چین نے چھترول کرکے خواب توڑتے ہوے حقیقت دکھادی، مودی پراجیکٹ خواہ داخلی ہو یا خارجی، معاشی ہو یا معاشرتی ہر سطح پر ناکامیوں سے دوچار ہے بلکہ بھارت کے لیے تباہ کن ثابت ہورہا ہے، نتیجتاً اقلیتوں میں شدید احساس محرومی بڑھ رہا ہے اور مختلف ریاستوں بالخصوص کشمیر و سیون سسٹرز میں آزادی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں، میزورام، میگھلایا اور ناگالینڈ میں اکثریت عیسائیت کے پیروکاروں کی ہے جو ہندوتوا آئیڈیولوجی کے مطابق بھارت کی نیشنل سیکیورٹی کے لیے اسلام کے بعد خطرہ نمبر دو ہے، اس کے علاوہ منی پور، تری پورہ، آسام میں مختلف قبائل آباد ہیں جو مختلف عقائد کے ماننے والے ہیں جنہیں بھارت سرکار مردم شماری میں زبردستی ہندو مذہب کے طور پر ظاہر کرتی ہے اس کے علاوہ ارونچل پردیش میں اکثریت تبت بدھ مت و بدھ مت کے ماننے والوں کی ہے اور چین شروع سے ہی لداخ و ارونچل پردیش کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے جس کی وجہ سے بھارت و چین کے تعلقات سرد ہی چلے آرہے ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ارونچل پردیش تبت کا ہی علاقہ تھا جسے برطانیا نے قبضہ کرکے بھارت میں شامل کرلیا تھا، چین کی آزادی کے بعد چین نے ارونچل پردیش کی واپسی کا مطالبہ کیا تو بھارت نے مکاری سے کام لیا، ایک طرف تو نہرو نے چین کو رام کرنے کے لیے 1954 میں تبت کو چین کا علاقہ تسلیم کرلیا جبکہ دوسری طرف امریکی گٹھ جوڑ سے تبت میں بغاوت کو اکساتا رہا جس کی وجہ سے 1962 میں چین نے بھارت کی جم کر چھترول کی اور اکسائی چن کا علاقہ واپس لینے میں کامیاب ہوا، اس کے بعد بھی 1967، 1975، 2008, 2013 اور 2017 میں بھارت چین تصادم ہوچکے ہیں جبکہ ہلکی پھلکی تھپا تھپی تو کئی ہزار بار ہوچکی ہے۔
1954 کے بعد 2003 اور 2005 میں بھارت تبت کو چین کا علاقہ تسلیم کرچکا ہے اور بدلے میں ارونچل پردیش کو بھارتی علاقہ تسلیم کروانے کے لیے ہر قسم کے ہربے آزما چکا ہے لیکن چین کسی صورت ارونچل پردیش کے دعوے سے دستبردار ہونے پہ متفق نہیں ہوا اور 2006 میں ہوجن تاو کے وزٹ سے ایک ہفتہ قبل چینی سفیر سُن یوزی نے انڈین ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوے کہا کہ ارونچل پردیش چین کا علاقہ ہے اور وہ کسی صورت اس سے دستبردار نہیں ہونگے، اس کے علاوہ جب ارونچل پردیش کے رکن پارلیمنٹ نے چینی ویزے کے لیے ایپلائی کیا تو چین نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اسے اپنے ہی ملک میں آنے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں اور اب ایک بار پھر چین نے سخت ترین موقف دیتے ہوے کہا ہے کہ ارونچل پردیش چین کا حصہ ہے اور چین میکموہن لائن کو نہ پہلے تسلیم کرتا تھا نہ اب کرتا ہے کیونکہ یہ برطانیہ کا یکطرفہ منصوبہ تھا جسے 1913 میں اس وقت کی چینی حکومت نے منظور کرنے سے انکار کردیا تھا۔ چین بھارت تعلقات میں خرابی کی اصل وجہ بھارتی مکارانہ پالیسی ہے جس طرح نہرو ایک طرف دوستانہ تعلقات کی بات کرتے رہے دوسری طرف بھارت عالمی قوتوں کی آماجگاہ بنا رہا جن کی وجہ سے تبت میں بغاوت اٹھائی گئی، اس کے بعد بھی بھارت نے 2008 سے 2010 تک تبت کو انٹرنیشنلائز کرنے کے لیے خوب زور لگائے اور اب امریکا کے ساتھ مل کر چین کے خلاف پروپیگنڈہ کررہا ہے اور دوسری طرف تبت میں بغاوت اکسانے کی راہ ہموار کرکے تبت کے مسئلے کو سازش کے تحت انٹرنیشنلائز کرنے کے منصوبے پہ قائم کررہا ہے جس کے جواب میں چینی قیادت نے سخت ردعمل دیا ہے اور بھارت خاک چاٹنے پہ مجبور ہے جیسا کہ Ian Hall نے مودی کی خارجہ پالیسی کے بارے میں لکھا کہ وہ ہندوتوا آئیڈیولوجی سے ماخوذ ہے اور سنگھی گروہ بھارت کو بطور وشوا گرو (عالمی لیڈر) بنانے پہ عمل پیرا ہیں جس کی راہ میں وہ سب سے بڑی رکاوٹ چین کو سمجھتے ہیں جیسا کہ سبرامینیم سوامی نے 2012 میں ٹویٹ کیا تھا کہ اگلی دیوالی تک سنگھیوں کو خوشخبری ملے گی اور 2020 تک وہ چین پر سبقت لے جائینگے اور معاشی طور پر امریکا کے مدمقابل آجائینگے۔
اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مودی توا گروہ تبتی بدھوں کو مذہبی یا روحانی بھائی قرار دینے لگے اور ان کے ذریعے امریکا سے مل کر چین میں بغاوت کھڑی کرنے پہ کام کرنے لگے لیکن ہندوتوا گروہ کی ساری تدابیر الٹی پڑ گئی ہیں داخلی سطح پر بھی بھارت تقسیم در تقسیم کا شکار ہے اور خارجی سطح پر بھارت کو مذہبی جنونی کے طور پر دیکھا جارہا ہے جیسا کہ Ian Hall نے مودی کی خارجہ پالیسی کے بارے میں لکھا کہ وہ ہندوتوا آئیڈیولوجی سے ماخوذ ہے اور سنگھی گروہ بھارت کو بطور وشوا گرو (عالمی لیڈر) بنانے پہ عمل پیرا ہیں جس کی راہ میں وہ سب سے بڑی رکاوٹ چین کو سمجھتے ہیں جیسا کہ سبرامینیم سوامی نے 2012 میں ٹویٹ کیا تھا کہ اگلی دیوالی تک سنگھیوں کو خوشخبری ملے گی اور 2020 تک وہ چین پر سبقت لے جائیں گے اور معاشی طور پر امریکا کے مدمقابل آجائینگے، اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مودتوا گروہ نے ایک طرف تو چین کے ون روڈ ون بیلٹ پروگرام کے جواب میں ون گرڈ ون سن پروگرام ترتیب دیا جس میں یورپ و افریقہ کہیں بھی اسے خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی اور دوسری طرف تبتی بدھوں کو مذہبی یا روحانی بھائی قرار دینے لگے اور ان کے زریعے امریکا سے مل کر چین میں بغاوت کھڑی کرنے پہ کام کرنے لگے لیکن ہندوتوا گروہ کی ساری تدابیر الٹی پڑ گئی ہیں داخلی سطح پر بھی بھارت تقسیم در تقسیم کا شکار ہے اور خارجی سطح پر بھارت کو مذہبی جنونی کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور خوابی وشوا گرو مدد کے لیے کبھی کواڈ کی طرف دیکھتا ہے تو کبھی انڈو پیسفک الائنس کی طرف لیکن امریکا کی ڈگمگاتی پوزیشن کی وجہ سے کواڈ سے لیکر انڈو پیسفک الائنس منجمد ہوکر رہ گیا ہے کیونکہ ایک جانب تو امریکا کو چین و روس کا سامنا ہے جبکہ دوسری طرف اب جرمنی سے بھی امریکا کی کولڈ وار کا آغاز ہوچلا ہے اور داخلی سطح پر بھی امریکا شدید عدم استحکام کا شکار ہے جس کا اثر خوابی وشواگرو مودتوائی بھارت پر براہ راست پڑ رہا ہے اور اب بھارت تیزی سے عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر