وجود

... loading ...

وجود
وجود

سنتھیارچی کے الزامات اور اعلیٰ ذہانت کی تلاش

پیر 08 جون 2020 سنتھیارچی کے الزامات اور اعلیٰ ذہانت کی تلاش

اور اب یہ سنتھیارچی!
پاکستان میں اعلیٰ ذہانت کی کمی ہے! مگر یہا ں ایسی ذہانت ضرور پائی جاتی ہے، جو ہر چیز میں اعلیٰ ذہانت کا عمل دخل ڈھونڈ لیتی ہے۔ بسا اوقات یہ خوبی سے زیادہ خرابی بن جاتی ہے۔ یہ روش اکثر غلط نتائج کی بنیاد بنتی ہے۔ پاکستان میں مقیم امریکی خاتون سنتھیارچی آج کل خبروں کی زینت ہے۔ سنتھیارچی نہیں، ہمارا تناظر اہم ہے کہ اس مسئلے کو کیسے لیا جائے؟
ایک روز قبل کتاب چہرہ (فیس بک) پر ایک سوال دوستوں سے پوچھا:سنتھیارچی کے الزامات سے متعلق کون کیا جانتا ہے؟ جواب سارے روایتی تھے۔ ایک ذرا سی ذہنی مشق کرتے ہیں۔سب سے پہلے سنتھیارچی کا نام ذہن سے کھرچ دیں۔کیا سیاست دانوں کے نام پر جو مخلوق ہمارے سامنے ہے، وہ کوئی کردار رکھتی ہے؟ سب کا جواب تقریباً یکساں ہوگا۔ سنتھیارچی کو شک سے دیکھنے والے بھی کم ازکم یقین سے ان سیاست دانوں کے کردار کی گواہی کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔ پھر اعتراض کیا ہے؟اولاً: پاکستان میں مقیم امریکی خاتون سنتھیارچی نے یہ الزامات لگائے ہیں۔ ثانیاً: پاکستان کے مخصوص سیاسی ماحول (الیکٹڈ سلیکٹڈ کھیل)میں مخصوص تعصبات کی رکاوٹ سے جنم لینے والے گھسے پٹے دلائل ہیں۔ جس میں ایک چلتا پھر تا بیانیہ اسٹیبلشمنٹ سے متعلق ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی بس ایک تکلف ہے، سب جانتے ہیں کہ اس سے مراد کون سا ادارہ ہوتا ہے۔ یہ اعتراض دراصل اُسی ”ذہانت“ کا آئینہ دارہے جو ہر چیز میں ”اعلیٰ ذہانت“ ڈھونڈتی پھرتی ہے۔
دیانت دارانہ رویہ یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی موقف کو اختیار کرنے سے پہلے ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہوکر اس کا سیاق وسباق اچھی طرح سمجھا جائے، اس کا منطقی پیرایہ تلاش کیا جائے، ہر موقف کی تاریخی بنیادوں کو کھنگالا جائے کہ کیا یہ ممکن ہے؟سب سے پہلے جان لیں کہ سنتھیارچی کیا کہہ رہی ہے؟ سنتھیارچی نے گزشتہ کچھ ہفتوں سے پیپلز پارٹی کی قیادت کو اپنے الزامات کے نشانے پر لے رکھا ہے۔ وہ پیپلزپارٹی کے مختلف رہنماؤں پر اخلاق باختگی سے بھی زیادہ سنگین یعنی اباحیت پسندی کے الزامات لگارہی ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کی جانب سے درجہ دوم اور سوم کے رہنماؤں کی طرف سے ردِ عمل ظاہر کرنے والوں کی ایسی تفصیلات سامنے لارہی ہیں، جو اُن کی زبانوں کو گُنگ کردیتی ہیں۔ مثلا! پیپلزپارٹی کی ایک سابق سینیٹر سحرکامران نے سنتھیارچی کی سرگرمیوں کا نوٹس لینے کی اعلیٰ حکام سے استدعا کی تو سنتھیارچی نے سحرکامران کی جدہ اسکول میں بدعنوانیوں کی نقاب کشائی کی۔ سحرکامران کا سارا جوش اب معدوم ہو چکا ہے۔ سندھ میں صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے بلاول بھٹو پر لگائے گئے الزامات پر ردِ عمل دیا تو سنتھیارچی نے ان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ جواب آں غزل کے طور پر ہر وقت پریس کانفرنس سجائے رکھنے کے شوقین وزیر نے اس کے بعد اچانک چپ سادھ لی۔اس دوران میں اس خاکسار نے پیپلزپارٹی کے ایسے تین رہنماؤں سے رابطہ کیا جن کے بارے میں گمان تھا کہ وہ کبھی نہ کبھی سنتھیارچی کے ساتھ رابطے میں ضرور رہیں ہوں گے۔ اُنہوں نے اپنا دامن چھڑاتے ہوئے انتہائی لجاجت و خجالت سے درخواست کی کہ اُنہیں اس دلدل میں نہ گھسیٹیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ سنتھیارچی کا جادو کام کررہا ہے۔ سنتھیارچی کے سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی، رحمان ملک اور مخدوم شہاب الدین پر لگائے گئے دست درازی کے الزامات درست ہیں یا غلط، اس سے قطع نظر پنجاب کے کسی بھی صحافی یا باخبر آدمی سے ان کے کردار کے متعلق پوچھا جائے تو سب ہی کان پر ہاتھ لگالیتے ہیں۔ سنتھیارچی کے الزامات کو تب دیوار پر مارا جاسکتا ہے جب کسی کے کردار پر اس سے پہلے کوئی اُنگلیاں نہ اُٹھی ہو اور سنتھیارچی کی جانب سے یہ پہلی بار ہورہا ہو۔ تب سوال اُٹھے گا کہ سنتھیارچی کون ہے؟ کہاں سے آئی؟ اس کے الزامات کے مقاصد کیا ہیں؟ الزامات جانے بوجھے ہیں۔ کردار کی کوئی گواہی نہیں۔ شخصیات پہلے بھی اسی نوعیت کی سرگرمیوں پر اعتراضات کی زد میں رہی ہیں۔اس تناظر میں ان الزامات کے خلاف آمادہئ ذہن ہونے کے باوجود اس پر بات کرنے کی گنجائش بہت محدود ہوجاتی ہے۔
پیپلزپارٹی کی جانب سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ سنتھیارچی کی مشکوک سرگرمیوں کا نوٹس لیا جائے۔ یہ درست مطالبہ ہے مگر ادھورا ہے۔ درحقیقت مملکت خداداد پاکستان میں ہر قسم کی مشکوک سرگرمیوں کا نوٹس لینا چاہئے، چاہے وہ پیپلزپارٹی کے کچھ رہنما ہوں یا سنتھیارچی۔ دھیان رہے کہ سنتھیارچی اگر درست کہہ رہی ہے، تو پھر مشکو ک سرگرمیاں پیپلز پارٹی کی بھی ہو جاتی ہیں۔پیپلزپارٹی کا یہ مطالبہ اس لیے کوئی وقعت نہیں رکھتا کیونکہ سنتھیارچی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اُسے پاکستان لانے والے ہی پیپلز پارٹی کے رہنما ہیں۔ سنتھیارچی ذرا بھی مشکوک پس منظر رکھتی ہے تو پھر اس کی جوابدہ پیپلز پارٹی ہی ہوگی کہ وہ ایک مشکوک پس منظر رکھنے والی خاتون کی پاکستان میں میزبان کیوں بنی؟ پیپلزپارٹی کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ سنتھیارچی کب مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہوئیں؟ کیا سنتھیارچی پی پی رہنماؤں کی اخلاق باختہ سرگرمیوں کو منظرعام پر لانے کے بعد مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہوئیں،اس سے پہلے نہیں؟اگر وہ مشکوک پہلے سے ہی تھی تو پھر وہ ماضی میں سب سے زیادہ پی پی رہنماؤں کے ساتھ کیوں منسلک رہیں؟ اب دیکھیے یوسف رضا گیلانی کا دفاع کیا ہے، جب اُن پر الزام لگا کہ اُنہوں نے ایوانِ صدر میں سنتھیارچی پر دست درازی کی۔ یوسف رضا گیلانی کا جواب ایک سوال کی صورت میں تھا کہ سنتھیارچی ایوانِ صدر میں کیا کررہی تھی؟ارے بھائی یہ تو آپ بتائیں کہ وہ ایوانِ صدر میں کیا کررہی تھی؟ وزیراعظم آپ تھے اور صدرِ مملکت آصف علی زرداری۔ یہ سوال تو براہ راست آصف علی زرداری کے خلاف مقدمہ قائم کرتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا تمام دفاع دراصل خود اُنہیں ہی مشکوک ٹہراتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے یہ بھی ارشاد کیا کہ وزیراعظم کی سطح کا رہنما اس قسم کی سرگرمیوں میں کیسے ملوث ہو سکتا ہے۔پاکستان میں وزیراعظم کی سطح کے رہنماؤں کا ہی ریکارڈ تو سب سے زیادہ مشکوک ہے۔ اوروں کا ذکر پھرکبھی، جناب یوسف رضا گیلانی اپنی وزارتِ عظمیٰ میں ہالی وڈ ادکارہ اور اقوام متحدہ کی خیرسگالی کی سفیر انجلینا جولی کے دورہ ئپاکستان میں کیسے پیش آئے؟ اس پر انجلینا جولی نے کچھ لکھا بھی ہے، پڑھ لیجیے گا لطف دیتا ہے۔ سیلاب زدگان پر جب مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے تو ہمارے پیارے وزیراعظم ہالی ووڈ کی اُس اداکارہ پر کیسے لٹو ہورہے تھے، کبھی فحش مناظر کا حصہ رہنے والی اس اداکارہ سے وزیراعظم کا پورا خاندان خاتون اول سمیت کس طرح ”روابط“قائم کرنے میں اتاؤلا ہورہا تھا، انجیلنا جولی اُس سب کو محسوس کرتی رہی۔ ایسے لوگوں کو بس ایک آڑ چاہئے ہوتی ہے۔ چنانچہ یوسف رضا گیلانی سے لے کر رحمان ملک تک کسی بھی رہنما کا ردِ عمل دیکھ لیں، وہ ایک بات مشترکہ طور پر کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے اوپر الزامات سے زیادہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی پروا ہے۔ یہی آڑ ہوتی ہے۔ عام لوگوں کی عقیدت اور محبت کسی لیڈر سے ہو، تو اس خیالی ڈھال کے پیچھے خود کو بھی چھپانے کا یہ نسخہ آزمودہ ہے۔ مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ سنتھیارچی کے سامنے آنے کے بعد ایک ایسی کتاب کے مندرجات بھی سوشل میڈیا پر گردش کررہے ہیں جو مرحومہ بے نظیر بھٹوکے متعلق بھی سنگین سوالا ت اُٹھاتے ہیں۔اس کتاب کے مندرجات اور سوالات پر بحث آئندہ پر اٹھا رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ آزادیئ اظہار کے نام پر انبیاء اور اصحاب ِ رسول ؓکی توہین کا بھی یہاں تماشا دیکھتے ہیں، اُنہیں اپنے قائدین اورٹکے ٹکے کے ان سیاسی رہنما ؤں کی ذاتی اخلاق باختہ زندگیوں پر گفتگو کیوں گوارا نہیں۔
اور اب یہ سنتھیارچی! جس سے اعلیٰ ذہانت کی کمی کے ساتھ ایسی ذہانت سے مقابلہ کیا جارہا ہے جس میں اعلیٰ ذہانت کا کوئی عمل دخل دکھائی دے۔کہیں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی سایہ دکھائی دے تاکہ روایتی قسم کے سوالات میں شکوک کی دھند پیدا کرکے وقت اور مصیبت کو ٹال دیا جائے۔ ان رہنماؤں نے ہمیشہ وقت اور مصیبت کو ہی تو ٹالا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر