وجود

... loading ...

وجود
وجود

جارج فلائیڈ کا امریکا

پیر 08 جون 2020 جارج فلائیڈ کا امریکا

کم و بیش ایک دہائی قبل ’’جارج کا پاکستان ‘‘ہمارے ملک کے ایک نجی ٹی وی چینل پر چلنے والا ایک مقبول ترین پروگرام ہوا کرتاتھا ۔اِس پروگرام نے برطانوی صحافی جارج فلٹن کو دنیا بھر میں مشہور بنانے میں اہم ترین کردار کیا۔ اِس پروگرام کے توسط سے پاکستانیوں کی جانب سے جارج کو فقید المثال محبت ملی ۔جارج فلٹن نے اِس پروگرام کے ذریعے پاکستان بھر میں سفر کیا۔ انہوں نے پنجاب کے میدانوں میں کسانوں کے ساتھ ہل چلائے، ہوٹلوں اور ڈھابوں پرلذیذ پاکستانی کھانے کھائے، کھیتوں اور کھلیانوں میں رقص کیا اور شمال کے کوہستانی علاقوں میں پشتونوں کے ساتھ کلاشنکوف اور رائفلوں سے ہوائی فائرنگ بھی کی۔ حد تو یہ ہے کہ جارج فلٹن کی پاکستان سے محبت کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں پاکستانی پاسپورٹ بھی دے دیا گیا تھا۔بعد ازاں انہوں نے ایک پاکستانی صحافی کرن سے شادی کر لی ۔ کرن سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد جارج اور کرن نے مل کرنجی نیوز چینل پر ایک مارننگ شو شروع کیا اور جارج پاکستانی اخبارات کے لیے باقاعدہ کالم بھی لکھنے لگے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آج بھی جارج فلٹن سماجی رابطہ کی ویب سائیٹ پر مختلف سماجی اور سیاسی مسائل پر اپنی تنقیدی ویڈیوز وغیرہ تسلسل کے ساتھ پوسٹ کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن اِس کے باوجود انہیں پاکستان بھر میں عوام کی جانب سے زبردست پذیرائی اور محبت ملتی ہے۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جارج کو ایک چھالے کی طرح سنبھال کر رکھنے کے باوجود بھی لبرل حلقوں کی جانب سے پاکستان کو ایک ناکام اوردقیانوسی ریاست ہونے کے باربار طعنے دیئے جاتے ہیں ۔اس کے مقابلے میں امریکا میں ایک سفید فام سابق پولیس افسر ڈیرک چاؤن کے ہاتھوں ایک 46 سالہ سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد اِس لبرل مافیا کی زبان سے امریکا کی مذمت میں ایک حرف تنقید بھی جاری نہ ہوسکا۔
ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں بعض حلقوں کی جانب سے امریکا میں جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد ہونے والے مظاہروں پر بھی نام نہاد امریکی روشن خیالی کا لیبل چسپاں کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے ۔حالانکہ امریکا میںہونے والے مظاہرے مغربی نظام ِ جمہوریت اور اُس کے بطن سے جنم لینے والے دوہرے بلکہ تہرے نظام ِ انصاف کے خلاف ایک کھلی بغاوت ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اِن مظاہروں میں امریکا کے عالمی طاقت بننے کے بعد پہلی بار جگہ جگہ نہ صرف توڑ پھوڑ ہورہی ہے،گاڑیاں نذرِ آتش کی جارہی ہیں بلکہ امریکی پرچموں کو بھی مظاہرین اپنے جوتوں تلے روند کر جلا رہے ہیں ۔ جبکہ بعض مظاہرین کے ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈ ز بھی بھی دیکھے گئے ہیں جن پر درج تھا کہ ’’ہم عرب نہیںہیں کہ تم ہمیں مارو اور ہم چپ رہیں ‘‘ یا ’’سوال یہ ہے کہ کتنے اور ،مزید کتنے اور؟‘‘ یا یہ کہ ’’ہم ایسے مستقبل میں جینا چاہتے ہیں جہاں ہم آہنگی صرف آئین میں درج نہ ہو‘‘۔یہ ایسے ناقابلِ یقین مناظر ہیں جو کبھی ہم نے امریکی سرزمین سے براہ راست نہیں دیکھے تھے ۔امریکا میں حالات کی شدت کا اندازہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اِس ٹوئٹ سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے ،جس میں انہوں نے لکھا کہ ’’ ’فلاڈیلفیا میں لا اینڈ آڈر، ابھی وہ سٹورز کو لوٹ رہے ہیں۔ ہمارے نیشنل گارڈز کو بلائیں‘‘۔اِس ٹوئٹ میں خوف ، پریشانی اور سراسیمگی کی کیفیت صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔ یعنی امریکی صدر ٹوئٹ کے ذریعے حالات کو سنبھالنے کے لیے امریکی حکام کو دہائیاں دے رہے ہیں۔ ایسی بے چارگی تو آج تک کسی افریقی ملک کے سربراہ مملکت کے ٹوئٹ سے بھی مترشح نہیں ہوئی تھی۔
دوسری جانب مظاہروں سے پیدا شدہ غیر معمولی بحرانی صورت حال نے صدر ٹرمپ کو اتنا زیادہ حواس باختہ اور ذہنی خلجان میں مبتلا کردیا ہے کہ ٹرمپ اپنے احکامات اور مرضی کو تسلیم نہ کرنے و الے ریاستی گورنروں کو میڈیا پر سرعام ’’کمزور‘‘ اور ’’احمق‘‘ قرار دے رہے ہیں جبکہ احتجاجی مظاہرے کرنے والوں اور لوٹ مار کرنے وا لے عناصر کو ’’داخلی دہشت گرد‘‘ کا نام دیکرانہیں سختی سے کچلنے کے لیے فوج، نیشنل گارڈز، پولیس اور دیگر اداروں کے استعمال پر زور دے رہے ہیں۔جس کے جواب میں متعدد امریکی شہروں کی پولیس کے سربراہ امریکی صدر کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے مظاہرین کے ساتھ کھلے عام یک جہتی کا اظہار کر تے ہوئے مظاہرین کو پرامن اور تعاون کے طریقوں پرآمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے حامیوںکو متحد کرنے کے لیے مذہب اور سیاست کو باہم ملاتے ہوئے وہائٹ ہائوس کے نزدیک موجود تاریخی چرچ تک پیدل چل کر گئے اور اس دوران ٹرمپ کے راستے میں آنے والے مظاہرین پر فورسز نے شیلنگ کی اور ربڑ کی گولیاں بھی فائر کیں گئیں۔جب کہ ٹرمپ بند چرچ کے باہر ہاتھ میں بائبل لیکر تصویر کھنچواکر واپس آگئے اور اسی طرح صدر ٹرمپ اپنی اہلیہ کو ساتھ لیکر کیتھولک پوپ جان پال کی یادگار پر بھی گئے ،جس کی تصویر بھی میڈیا کو جاری کردی گئی۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے پر نہ صرف ان کے سیاسی مخالف صدارتی امیدوار جوزف بائیڈن کے علاوہ متعلقہ چرچ بشپ خاتون نے بھی سخت تنقید کی ہے۔ اس بارے میں سابق نائب صدر جوزف بائیڈن نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ’’ محض بائبل ہاتھ میں اٹھانے کی بجائے صدر ٹرمپ کبھی بائبل کھول کر بھی پڑھ لیتے تو شاید ہمارا ملک اس بحران کا شکار نہ ہوتا‘‘۔
جارج فلوئیڈ کے قتل کے بعد امریکا بھر میں نسلی امتیاز اور تشدد سے متعلق بحث و مباحثہ کا آغاز ہوگیا ہے اور امریکی پولیس کے طرزِ عمل اور وفاقی حکومت کے کردار بالخصوص ریاستی اداروں سی آئی اے اور پینٹاگون کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے ۔ عام رائے یہ ہے کہ امریکا میں نسلی امتیاز اور تشدد کے ہر سانحہ کے پیچھے منظم طور پر امریکا کے ریاستی اداروں کا ہاتھ ہے ۔ اِس رائے کو تقویت پولیس کے ذریعہ ہونے والے تشدد کے واقعات کی نگرانی کرنے والی ایک ویب سائٹ ’’میپنگ پولیس وائلنس‘‘سے بھی ملتی ہے جس کے مطابق سیاہ فام افراد امریکا کی کل آبادی کا صرف 13 فیصد ہیں لیکن اگر ہم پولیس کی گولی سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد پر نظر ڈالیں تو وہ کل اموات کا ایک چوتھائی حصہ ہیںاور غیر مسلح افراد کی ہلاکت کی صورت میں یہ امتیازی سلوک اور بھی کھل کر سامنے آتا ہے کیونکہ سیاہ فام کل اموات کا ایک تہائی حصہ ہوتے ہیں۔ایک غیر مسلح سیاہ فام شخص کا پولیس کے ہاتھوں غیر مسلح سفید فام شخص کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہلاکت کا امکان ہے۔ میپنگ پولیس وائلنس نامی سائٹ کے اعداو شمار ظاہر کرتے ہیں امریکی پولیس نے صرف 2019 میں ایک ہزار 99 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خوف ناک بات یہ ہے کہ ملک کی کل آبادی کا 13 فیصد ہونے کے باوجود مرنے والے 24 فیصد لوگ سیاہ فام لوگ تھے۔ صرف یہ ہی نہیں امریکی ریاست بالٹیمور کا پولیس ڈیپارٹمنٹ افریقی امریکیوں کو سڑک کے کنارے چلنے سے بھی روکتا ہے۔ادارہ کی اپنی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ایک درمیانی عمر کے افریقی نژاد امریکی شخص کو چار سالوں میں تقریبا 30 بار روکا گیا تھا۔ بار بار روکے جانے کے باوجود کبھی بھی ان 30 بار روکے جانے کا ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس پر مجرمانہ مقدمات درج کیے گئے۔
اِن اعدادو شمار میں چھپے ہوئے حقائق سے آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں امریکا کا سب بڑا مسئلہ نسلی تعصب ہے لیکن لطیفہ ملاحظہ ہو کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نسل پرستانہ رویوں کو امریکا میں پنپنے سے روکنے کے بجائے ،اُلٹا جو تنظیم امریکی معاشر ہ میں نسل پرستانہ رویوں کے خلاف جدوجہد کی علامت ہے اُس پر ہی پابندی لگانے کا عندیہ دے رہے ہیں ۔ جی ہاں ! اُس تنظیم کا نام ہے ’’اینٹی فا‘‘۔ یہ تنظیم امریکا میں فسطائیت کے خلاف قابلِ ذکر اقدامات اُٹھانے والی ایک احتجاجی تحریک ہے جو نازی خیالات، سفید فام نسل پرستی کی بالا دستی کے پیرو کار اور نسل پرستانہ رویے کے خلاف مظاہرے کرتی ہے۔اس تنظیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی مرکزی رہنما نہیں ہے اور وہ آزادانہ طور پر کام کرتی ہے۔اس تحریک سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہ ہر قسم کے نسل پرستانہ رویے اور جنس پر مبنی تعصب کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تحریک تارکین وطن اور مسلمان مخالف پالیسیوں کے خلاف بھی احتجاج کرنے میں پیش پیش رہی ہے جو صدر ٹرمپ کے دور میں نافذ کی گئی ہیں۔’’اینٹی فا ‘‘اُصولی طور پر جارج فلائیڈ جیسے مظلوم امریکی شہریوں کے لیے حقوق کی آواز بلند کرنے والی ایک پرامن عوامی تحریک ہے ۔ جس نے کبھی بھی پرتشدد مظاہرے کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن زبردست عوامی مقبولیت رکھنے اِس تحریک پر پابندی کرنے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں مزید نسلی تفریق اُبھارنے کا باعث بننا چاہتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ امریکا بھر میں صرف عام امریکی شہری ہی نہیں بلکہ امریکی ریاستوں کے گورنرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مختلف سربراہان بھی امریکی صدر ٹرمپ کے ’’اینٹی فا ‘‘ پر پابندی عائد کرنے کی دھمکی پر کڑی تنقید کررہے ہیں ۔
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکا کے اکثر شہروں میں پھوٹ پڑنے والی پرتشددانارکی نے دنیا بھر میں امریکا کی سیاسی قد کاٹھ بالکل بوزنا بنا دیاہے جبکہ اس کے مقابلہ میں چین جس طرح سے اپنے داخلی معاملات سے ایک ایک کر کے نمٹ رہا ہے ۔اُس نے چین کا بہروپ خطہ کی علاقائی طاقت سے ایک نئی عالمی طاقت کے روپ میں بڑی تیزی کے ساتھ بدلنا شروع کردیاہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ جس برق رفتار ی اور سرعت کے ساتھ چین عالمی سپر پاور کے منصب سے قریب سے قریب تر ہوتا جائے گا ویسے ویسے ہی آپ دیکھیں گے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک بڑی تیزی کے ساتھ داخلی شورش اور انارکی میں مبتلاء ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ عالمی سیاست کا یہ نرالا دستور ہے نئی عالمی قوت اُس وقت تک اپنے چہرے سے نقاب نہیں جب تک پچھلی عالمی طاقت کے حصہ بخرے نہ ہوجائیں۔ اِس لیے اگر کوئی تجزیہ کار ابھی بھی یہ خیال کیے بیٹھا ہے کہ جارج فلائیڈ کے سانحہ کے چند ہفتوں بعد امریکا ایک بار سے معمول کی پرامن سیاسی و انتظامی صورت حال کی جانب لوٹ جائے گا تو ہمارے نزدیک یہ سوچ قطعی طور پر احمقانہ ہے کیونکہ امریکی معاشرہ میں نسلی امتیاز کے فروغ کے بعد ترقی معکوس کا جو سفر اَب شروع ہوچکا ہے اِس کا اختتام جارج واشنگٹن کی ریاستہائے متحدہ امریکا کے بطن سے بے شمار چھوٹے چھوٹے جارج فلائیڈ کے امریکی جزیرے جنم لینے پر ہی ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر