وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلوچستان، تباہ ہوتی زراعت

هفته 06 جون 2020 بلوچستان، تباہ ہوتی زراعت

پچھلے سال غالباً ماہ اپریل میں ٹڈی دل بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پہنچ گئے تھے، ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی ایسی صورتحال تھی، تب بھی فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچا، ٹڈیوں کے اس حملے سے پہلے سرکار نے خدشات ظاہر کئے تھے تاہم اس کے باوجود بروقت پیش بندی نہیں کی گئی، بلوچستان میں اْس وقت بھی زمیندار پریشان اور نقصانات سے دو چار تھے۔ حکومت کی جانب سے کئی اعلیٰ سطح کے اجلاس ہوئے کہا گیا کہ ٹڈیوں کے ممکنہ حملے سے نمٹنے کیلئے تیاریاں کی جائیں گی اور بڑے پیمانے پر اسپرے کئے جائیں گے۔ وفاقی سطح پر نیشنل ایکشن پلان مرتب کرکے ایمرجنسی نافذ کی گئی مگر کئی ماہ گزرنے کے باوجود حکومت اور متعلقہ محکموں کی طرف سے سنجیدہ اقدامات کہیں نظر نہیں ا?ئے یعنی محض اجلاس ہوتے رہے، خانہ پری ہوتی رہی۔مسئلے کو سنجیدہ نہ لینے کی وجہ سے ٹڈیاں پورے ملک تک پھیل گئیں بلکہ پہلے سے زیادہ شدت سے حملہ آور ہوئیں، جس کے نتیجے میں بلوچستان کی لاکھوں ایکڑ پر مشتمل کھڑی فصلوں و باغات تباہی کے دہانے پر ہیں جبکہ ٹڈی دل بڑے پیمانے پر فصلوں کو نقصان بھی پہنچا چکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ پچھلے سال ٹڈیوں کی افزائش روکنے کیلئے مطلوبہ اقدامات نہ کئے گئے، جس کی وجہ سے یہ دل کروڑوں کی تعداد میں انڈے دے کر چلا گیا، بارشوں کے نتیجے میں نمی، گرمی اور سازگار ماحول ملنے کے بعد اب ان انڈوں سے مزید افزائش نسل ہورہی ہے اور اس وقت کروڑوں اربوں ٹڈیاں بلوچستان کے طول و عرض میں کھڑی فصلوں اور باغات پر حملہ آور ہیں، یہاں تک کہ جنگلات بھی تباہ ہورہے ہیں۔عالمی ادارہ خوراک و زرراعت (ایف اے او) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ٹڈیوں سے فصلوں اور باغات کی تباہی سے پاکستان کو چار سے 5 ارب ڈالر کا نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اور قحط سالی کا بھی خطرہ ہے، اگر ٹڈیاں فنا نہ کی گئیں تو بلوچستان کی زراعت یقیناً مکمل تباہ ہوجائے گی۔
بلوچستان حکومت کی جانب سے اب تک محض چند ہزار ایکڑ رقبے پر اسپرے ہوا ہے، جو نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ٹڈیاں لاکھوں ایکڑ اراضی پر پھیلی زراعت پر حملہ آور ہیں اور بہت تیزی سے ہر سبزے کو ہڑپ کررہی ہیں۔ صورتحال یہی رہی اور آئندہ چند دنوں میں ہی اگر بڑے پیمانے پر اسپرے نہ کرایا گیا تو ایک جانب فصلیں تو تباہ ہو ہی جائے گی، دوسری جانب ٹڈی دل کے نئے حملے سے صوبے میں زراعت نام کی کوئی شے باقی نہیں رہے گی۔تحفظ نبادات کے صوبائی ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عارف شاہ کے مطابق رواں ماہ ایران سے ٹڈیوں کا ایک بڑا لشکر بلوچستان میں داخل ہوگا، جو موجودہ حملے سے زیادہ بڑا اور خطرناک ثابت ہوگا اور یہ لشکر صرف بلوچستان میں ہی تباہی نہیں پھیلائے گا بلکہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا سمیت پورے ملک اور انڈیا سمیت دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی آسانی سے پہنچ جائے گا۔ٹڈیاں ہوا کے رخ پر ایک دن میں 150 کلومیٹر تک کا سفر کرسکتی ہیں اور اس کا ایک چھوٹا سا لشکر 30 سے 35 ہزار لوگوں کی خوراک ایک دن میں ختم کرسکتا ہے، پچھلے سال ان کی نسبتاً کم تعداد کو کنٹرول نہ کیا گیا یوں رواں سال ٹڈیوں نے تعداد میں کئی گنا اضافہ کرلیا۔ اس سال تو گندم کی کٹائی ہوگئی، اگلے سال شاید کھانے کو گندم بھی میسر نہ ہو، شدید قحط کی صورتحال پیدا ہونے کا بھی خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔بلوچستان میں تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ زیادہ تر فصلوں کی بجائے باغات پر زراعت کا انحصار ہے، سیب، آڑو، زردار آلو، چیری اور دوسرے درختوں کو پھلدار بننے میں سالوں کا وقت لگتا ہے جبکہ ان دنوں ٹڈیوں کے حملوں کے باعث 30، 40 سال پرانے درخت بھی سبز پتوں سے خالی اور خشک ہونے کے خطرے سے دو چار ہیں۔ چنانچہ حکومت محض فیصلوں اور اعلانات تک خود کو محدود نہ کرے بلکہ ایسی صورتحال میں بامعنی اور عملی قدم اٹھائے کی ضرورت ہے۔حکومت کرونا وباء کے تناظر میں بھی محض اجلاس منعقد کرتی رہی ہے، فیصلے ہوتے رہے اور بلنگ و بانگ دعوے کرتی رہی لیکن عملاً برسر زمین اس وباء کے پھیلائو کو روکنے میں کوئی کام نہ ہوا بلکہ کرونا کے اس پورے بحران میں حکومت کی رٹ کہیں دکھائی نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ صوبے میں وائرس پھیل چکا ہے، متاثرہ افراد کی تعداد اور اموات میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت اپنے کسی بھی اعلان کو عملی جامہ پہناسکی اور نہ ہی اپنے فیصلے لاگو کرسکی، نتیجتاً بلوچستان اور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اب اللہ تعالیٰ ہی کے رحم و کرم پر ہے۔ گویا بلوچستان حکومت اس تناظر میں مطلق ناکام ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر