وجود

... loading ...

وجود
وجود

عوام دشمن سیاسی فیصلوں کی قانونی موت۔۔۔!

جمعرات 21 مئی 2020 عوام دشمن سیاسی فیصلوں کی قانونی موت۔۔۔!

اگر کورونا وائرس کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے بجائے ،سیاسی حکومتوں کی جانب سے ہوتا تو یقینا اہلِ سیاست کی ’’سیاسی ساکھ‘‘ پاکستانی عوام کے نزدیک کچھ تو بہتر ہو ہی جاتی ۔مگر افسوس برسوں سے عوامی حقوق کے پرچم تلے اپنی اپنی سیاست چمکانے والی سیاسی جماعتیں اِس آسان سے امتحان میں بھی انتہائی بُرے طریقے سے ناکام و نامراد قرار پائیں اور عوام کی دلجوئی کرنے کا سہرا ایک بار پھر سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج صاحبان کر سرسج گیا۔حالانکہ سیاسی قائدین کے لیے یہ سمجھنا ذرہ برابر بھی دشوار نہیں ہونا چاہیے تھا کہ کورونا وائر س کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دو ماہ سے جاری رہنے والے لاک ڈاؤن نے غریب عوام کی حالت کتنی زیادہ دگرگوں کردی ہے ۔جب کہ ہر طبقہ ہائے فکر کی جانب سے بار بار سیاسی حکومتوں کے نمائندوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے بتانے اور سمجھانے کی بھی کوشش کی جارہی تھی کہ لاک ڈاؤن نے عوام کے لیے جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنا ازحد مشکل بنادیا ہے ۔لیکن مجال ہے جو حکومتی زعماء کے کانوں پر کسی عوامی نمائندے کی درخواست پر ایک جوں بھی رینگی ہو۔ حکومتی ایوانوں میں بیٹھنے والے انتظامی طاقت کے نشے میں چُور حکمرانوں کی تو بس ایک ہی گردان تھی کہ چاہے عوام بھوک سے مریں یا کسی اور طریقہ سے بہرحال ہم نے لوگوں کو صرف کورونا سے بچاناہے ۔عوم الناس نے جب دیکھا کہ ہمارے حکمرانوں کو کورونا وائرس کے علاوہ کوئی اور جان لیوا وائرس دکھائی ہی نہیں دے رہا تو پھر انتہائی مجبوری و بے کسی کے عالم میں انہوں نے عدل کی زنجیر کی طرف’’ ٹک ٹک دیدم‘‘ تکنا شروع کردیاتھا۔
اچھی با ت یہ ہوئی کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بھی عوام کی حالت ِ زار کا خیال کرتے ہوئے اور وقت کے ناگزیر تقاضے کو پورے کرتے ہوئے عوامی اُمنگوں کے مطابق اور سیاسی حکمرانوں کے سینوں میں چھپی ہوئی مذموم خواہشوںکے عین برخلاف لاک ڈاؤن پر زیر سماعت ازخود نوٹس کیس میںچاروں صوبوں میں کاروباری مراکز کی بندش بلاتاخیر ختم کرنے کا حکم جاری کردیا۔چیف جسٹس جناب گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ملک بھر میں کاروبار کھولنے کے لیے جاری کیے گئے تحریری حکم نامے میں کاروبار کی بندش کو آئین کے صریح منافی قرار دے کر مستقبل میں بھی ایسے کسی اقدام کے امکان کا دروازہ یکسر بند کر دیا ہے۔ عدالتی حکم میں اس حقیقت کی نشان دہی بھی فرامئی گئی ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس ایسی وبا کی صورت میں ظاہر نہیں ہوا کہ پورا ملک ہی غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنا ضروری ہو جائے۔ عدالتی حکم میں سیکرٹری قومی صحت کی رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ملک میں ہر سال ہزاروں افراد دل، جگر اور گردوں کے امرض، برین ہیمرج حتیٰ کہ پولن الرجی سے مر جاتے ہیں،اِس لیے وفاقی و صوبائی حکومتیں کورونا وائرس کے علاوہ دیگر جان لیوا بیماریوں اور مسائل پر بھی توجہ دیتے ہوئے ،ملک کے تمام وسائل صرف کورونا وائرس پر خرچ کرنے سے بہر صورت باز رہیں۔ نیز کاروبار اور صنعتوں کی مسلسل بندش کو بجا طور پر ملک کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن جانے کے اندیشے کا اظہار کرتے ہوئے عدالتی حکم میں صراحت کی گئی ہے کہ اس کے نتیجے میں ان کی دوبارہ بحالی مشکل ہو جائے گی جبکہ لاکھوں محنت کش اور ملازمین سڑکوں پر ہوں گے اور ایسا بحران پیدا ہو جائے گا جس سے نمٹنا کسی بھی حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ عدالتی حکم میں قرار دیا گیا ہے کہ اس سے قبل بھی حکومتوں کی جانب سے کاروباری معاملات میں مداخلت کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوا ہے اور متعدد سرمایہ کار اپنے سرمائے سمیت بیرونِ ملک منتقل ہوگئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ اقدام پوری دنیا میں ابھرنے والے اس احساس اور اس کے مطابق عملی کارروائیوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہے کہ کورونا کے خوف سے تمام معاشی اور سماجی سرگرمیاں لامتناہی مدت تک کسی بھی صورت بند نہیں رکھی جا سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے عدالتی حکم کا بھرپور خیر مقدم کیا ہے،جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ ملک بھر میں ٹرین سروس بھی بحال کی جا رہی ہے جبکہ روڈ ٹرانسپورٹ کی بحالی کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔جب کہ علمائے کرام نے سپریم کورٹ کے حکم نامے کے جاری ہونے کے بعد مساجد میں باجماعت نمازوں کے بھرپور اہتمام کا بھی اعلان کر دیا ہے اور یوں ملک بھر میں معمول کے حالات تیزی سے بحال ہوتے دکھائی دے رہے ہیں تاہم ابھی بھی بعض سیاسی رہنما ڈھکے چھپے لفظوں میں سپریم کورٹ کے جاری کردہ حکم نامہ پر تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے ایک بار پھر سے پاکستانی قوم پر لاک ڈاؤن نافذ کرنے کی خواہشات کا اظہار کرنے میں ذرہ برابر بھی تامل کا مظاہرہ نہیں کررہے ہیں۔ بلکہ اِن کی کوشش ہے کہ ملک کے کسی حصہ میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو جواز بنا کر سخت لاک ڈاؤن کا فرمانِ جمہوری ازسرنو جاری کیا جاسکے ۔ اِس لیے عوام سے درخواست ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے ملنے والے عوامی ریلیف کو غنیمت سمجھتے ہوئے کورونا وائرس کے انسداد کے لیے بنائے گئے ماہرین کے تمام ایس او پیز کی من و عن پیروی کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے ۔وگرنہ دوسری صورت میں کسی بھی صوبے کی حکومت ایس او پیز پر عمل نہ ہونے کا’’سیاسی بہانہ ‘‘بناتے ہوئے ایک بار پھر سے غریب عوام کوطویل اور سخت لاک ڈاؤن کے ہلاکت خیز عفریت کے منہ میں دھکیل سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر