وجود

... loading ...

وجود
وجود

ویکسین کی بکواس

جمعرات 14 مئی 2020 ویکسین کی بکواس

ٹیکنالوجی عہد جدید کے انسان کا مذہب ہے۔ ”ترقی“ کے خلاف گفتگو اب جہالت کہاں گناہ بن چکی۔ روشن خیالی اس مذہب میں عقیدہ کی طرح راسخ ہے۔ مجال ہے کوئی”نجس“ ذہن اس پر سوال اُٹھاسکے۔ سوال اُٹھانا سائنس کی ریت بتائی جاتی ہے۔ مگر عہد جدید کے ”جانوروں“ کو بتادیا گیا ہے کہ سوال کہاں اُٹھانا ہے؟ سوال وہ مقدس ہے جو مذہب کے خلاف اُٹھے، یہ سائنس ہے، فلسفہ ہے، روشن خیالی ہے۔ اگر سوال خود سائنس پر اُٹھے تو یہ جہالت ہے، عہدِ تاریک کا تعفن ہے۔ماضی کا مزار ہے۔ اور ہاں سازش بھی ہے۔ سائنس کے نام پر آپ کو جو دیا جائے وہ لینا ہے۔ جو کھانا دیا جائے وہ کھانا ہے، جو پینے کو دیا جائے وہ پینا ہے۔سائنس ہی جھنجھنا ہے، سائنس ہی کھلونا ہے۔ بیماریوں کے تعین سے لے کر علاج تک جدید انسان طبی سائنس کا یرغمال بنا ہوا ہے۔ مسلسل مررہا ہے، مسلسل اپنی زندگی کو اس کے تجربات میں جھونک رکھا ہے۔ دوائیاں ایجاد کررہاہے، مگر وہ علاج کے بجائے بیماریاں جنم دے رہی ہیں۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور ترقی پرہمارے ایمان نے ہمیں اس قابل نہیں چھوڑا کہ آزاد ذہن سے سادہ اور عام سمجھ بوجھ کا معمولی سوال بھی پوچھ سکیں۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں ہیر پھیر ثابت ہوچکا۔ کورونا وائرس کا پورا ماڈل دھوکا ثابت ہوا۔ دنیا میں معمول کی اموات کوکورونا وبا کے کھاتے میں ڈال کر خوف کی ایک عالمی فضا پیدا کی گئی۔ ہندسوں کا یہ کھیل دنیا کے باضمیر معالجین نے افشاء کردیا۔ اس کے باوجود قومی ریاستیں سادہ سوالات پر توجہ دینے کے بجائے انسانی آزادیوں کو سلب کرنے والی پابندیوں پر بضد ہیں۔ پاکستان میں اس وقت کورونا وبا کے”مصدقہ“ مریض”32917“ قرار دیے جارہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جن مریضوں میں کورونا تشخیص ہورہا ہے، وہ اکثر واقعات میں درست نہیں۔ پھر بھی اس ہندسے کو درست مان لیتے ہیں۔ سرکاری طور پر کورونا مریضوں کی اموات”734“قرار دی جارہی ہے۔پاکستان میں پہلا مریض 26/ فروری کو شامل اندراج ہوا۔ اب ہم مئی کا نصف مہینہ گزار چکے۔ ڈھائی ماہ میں یہ کل اموات ہیں۔ اگر ان اموات کو شامل اندراج کرکے پاکستان میں کورونا سے پہلے ہونے والی معمول کی اموات کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جائے تو حیرت انگیز بات یہ سامنے آتی ہے کہ ملک میں معمول کی اموات میں غیر معمولی کمی ہوئی ہے۔ سادہ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ مگر یہ سوال بھی ہمارا آج کا موضوع نہیں۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ پاکستان میں کورونا کے کل”734“ کے ہندسے کے مقابلے میں کورونا سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد ”8555“ ہے۔ اگر اس تناسب کو سامنے رکھیں تو کسی بھی مرض میں ہونے والی عام ہلاکتوں کے مقابلے میں یہ انتہائی کم شرح ہے۔سادہ سوال یہ ہے کہ پھرکورونا کو ایک وبا قرار دے کر اس کی اتنی دہشت کیوں پھیلائی جارہی ہے؟ ایک سادہ سوال یہ بھی ہے کہ جب کورونا کے مریضوں کی صحت یابی کا ہندسہ غیر معمولی ہے تو پھر دنیا بھر میں ویکسین کی مہم کیوں چلائی جارہی ہے؟ بل گیٹس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سات بلین کی آبادی میں ہر شخص کو ویکسین کی دو خوراکیں لینی ہونگیں۔ وہ دنیا بھر کے لیے 14بلین ویکسین کے ایجنڈے پر کام کررہا ہے؟ سادہ سوال یہ ہے کہ اس کی ضرور ت کیوں ہے؟دنیا بھر کے باضمیر ماہرین وبائیات کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کے حوالے سے ویکسین ایک بکواس ہے۔سادہ سوال یہ ہے پھر دنیا بھر میں اس ویکسین کے لیے کیوں راہ ہموار کی جارہی ہے؟
یہ دیکھیے نائیجیریا میں کیا ہورہا ہے؟مغربی افریقا کے ملک نائیجیریا کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد (سی یو پی پی) نے تین روز قبل یہ الزام عائد کیا کہ بل گیٹس نے ایوان نما ئندگان کی قیادت کو لازمی ویکسین بل کو فوری اور زبردستی منظور کرانے کے لیے دس ملین ڈالرز رشوت کی پیشکش کی ہے۔ حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے ترجمان بیرسٹر اکینگا کی جانب سے یہ الزام باقاعدہ ایک بیان کی صورت میں تحریراً ابوجا میں ایک اخبار ڈیلی پوسٹ کو جاری کیا گیا۔ حزب اختلا ف نے نہایت جائز سوالا ت اُٹھائے۔ متعدی بیماریوں کو کنٹرول کرنے کے لیے لازمی ویکسین بل کو منظور کرانے کے لیے قانوی سازی کے متعین قواعد کو کیوں روندا جارہا ہے؟ ایک ایسی ویکسین کے لیے قانون سازی میں اتنی عجلت کیوں دکھائی جارہی ہے، جو ابھی دریافت تک نہیں ہوئی؟ نائیجیریا کی حزب اختلاف نے اس بل کو مسترد کرتے ہوئے تمام ارکان پارلیمان سے گزارش کی ہے کہ وہ بل سے متعلق تمام سوالات کا ایوان میں سامنا کریں اور اسے منظور کرانے کے مشکوک منصوبے کی مزاحمت کریں۔ حزب اختلا ف نے یہ جائز سوال بھی اُٹھایا کہ اگرکورونا وائرس کاعلاج ویکسین کی صورت میں نہ مل سکا جیسے ایچ آئی وی ایڈز کا علاج نہیں مل پایاتو پھر قیاس آرائیوں پر مبنی اس بل کی منظوری کے پیچھے راز کیا ہے؟ اشرف المخلوقات کو جدید عہد کے درندوں سے بچانے کی پہلی کوشش کرنے والی نائیجیر ین اپوزیشن کو سلام!!پاکستان کے ارکانِ پارلیمان کواپنی انا کے بدبو دار گنبدوں سے نکل کر دیکھنا چاہئے کہ ایک افریقی ملک میں ویکسین کے معاملے پر کتنی حساسیت دکھائی جارہی ہے۔ کیا اُنہیں اس معاملے میں کسی حقیقی بحث یا ریاضت کی ضرورت نہیں۔ دنیا کی ایک عالمی گاؤں کی حیثیت میں فضیلتیں سنانے والے اب گلوبل خطرات کے عفریتوں کو بھی گلے سے لگائیں۔یہ نہ سمجھیں کہ جو خطرات افریقی ممالک میں کھڑے ہورہے ہیں، اُس سے پاکستان محفوظ رہے گا۔ عالمی گاؤں کے خطرات مشترک ہیں۔ کورونا وبا اس کا ثبوت ہے اور ویکسین اس خطرے کی دھماکا خیز گھنٹی ہے۔ پاکستان میں ویکسین کے متعلق باتیں سنائی دے رہی ہیں۔وزیر اعظم کے مشکوک مشیر صحت ڈاکٹر ظفرمرزا تو مسلسل اس کی جُگالی کررہے ہیں۔ مگر وزیر اعظم عمران خان بھی اس موضوع پر بول چکے ہیں جبکہ گزشتہ روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسمبلی کے فلور پر کورونا وبا کا علاج ویکسین کو قرار دیا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ پورے ایوان میں کسی ایک نے بھی یہ بات نہیں پوچھی کہ ویکسین کی ضرورت کیوں ہے؟ اور ایک طریقہ علاج کے طور پر ویکسین کا صور اُن کے کانوں میں کس نے پھونکا؟پورا ایوان من وتو کی بحث میں اُلجھا رہا۔ وفاق اور سندھ کے تعصبات کی باسی کڑھی اُبالتا رہا۔
ظاہر ہے کہ ویکسین پاکستان میں ایک خطرے کے طور پر اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ اس لیے یہ کھیل اچھی طرح سمجھنا چاہئے۔ ویکسین کی کسی بھی بحث کے آغاز میں ہمارا سامنا سب سے پہلے اس سوال سے پڑتا ہے کہ آخر دنیا بھر میں ویکسین کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاونڈیشن نے جنوری 2010 میں اگلے عہد کی سرخی ویکسین سے سجاتے ہوئے ”ویکسین کی دہائی“ منصوبے کو آگے بڑھانا شروع کیا اور اس کے لیے دس ارب ڈالرز کی خطیر رقم مختص کی۔ یہ کوئی عالمی صحت عامہ کا طبی یا بے روزگاری کے خطرے سے نمٹنے کا کوئی معاشی منصوبہ نہیں تھا۔ یہ ایک طویل ایجنڈا تھا۔ جس کے ایک سرے پر وائرس اور دوسرے سرے پر ویکسین تھی۔ مائیکرو سوفٹ کے بانی بل گیٹس نے انسانوں کو کمپیوٹروں پر قیاس کرلیا تھا جہاں وہ وائرس اور اینٹی وائرس کے پروگرام دے کر منافع کماتا تھا۔ اس نئے پروگرام کا اینٹی وائرس، ویکسین ہے۔یہ کسی کورونا وائرس سے جڑے مسائل کا حل نہیں بلکہ انتہائی بڑی فارما کمپنیوں کی ناقابل قیاس بھاری حجم پر مبنی منافع بخش دھندے بازی ہے، یہ گیٹس فاونڈیشن کی عالمی صحت عامہ پر مکمل کنٹرول پانے کی گہری چال ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ زمین نامی سیارے پر موجود تمام انسانوں کے مستقبل پر گرفت پانے کا مکروہ منصوبہ ہے۔ تحریر کا ورق تمام ہوا سو اس منصوے کی پرتیں آئندہ کھولیں گے۔ یاد رکھیں، انتہائی فعال ذہن کے ساتھ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا یہی لمحہ ہے۔ بل گیٹس کے ویکسین سے جڑے اس تیرہ تر، دراز تر اور محیط تر منصوبے کی تمام جہتوں، سمتوں اور سروں کو پکڑنے کا یہی وقت ہے۔ مگر ہماری پارلیمنٹ اس وقت کن بحثوں میں اُلجھی ہوئی ہے، اس پر بھی ساتھ ہی نظر ڈال لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر