وجود

... loading ...

وجود
وجود

خوف کا کاروبار، ڈبلیو ایچ او شراکت دار

منگل 21 اپریل 2020 خوف کا کاروبار، ڈبلیو ایچ او شراکت دار

دنیا کو کچھ لوگ اپنی مرضی سے جہاں چاہتے ہیں،ہانک رہے ہیں۔ تیسری دنیا کے بے شعور ممالک کے بدعنوان حکمرانوں کی بات چھوڑیں، جدید دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اُسی لاٹھی سے ہانکے جاتے ہیں۔ کورنا وائرس خوف پیدا کرنے کا ایک نہایت مکروہ حربہ تھا، جس کے ذریعے دنیا کی سب سے بڑی اشرافیہ ایک مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ جس کی کچھ جہتوں کو اس سلسلہئ تحریر میں بے نقاب کیا جاچکا ہے۔ جن میں آبادی کو کنٹرول کیے جانے کے قابل بناکر سب کے اندر جانوروں کی طرح ایک چِپ (آئی ڈی۔2020) کو داخل کرنا شامل ہے۔ اسی ایجنڈے کے تحت کاغذی کرنسی کو ختم کرکے دنیا کی دولت کو چند ہاتھوں تک محدود کیا جانا بھی ایک ہدف ہے۔ انسان کو ٹیکنالوجی کے رحم وکرم پر چھوڑ کر اسی کی موت پر ایک بٹن کے ذریعے کامل کنٹرول کے پیچھے بہت سے ذیلی مقاصد بھی ہیں۔پھر ویکسین کا ایک پورا منصوبہ ہے جو ان کے مخصوص تصورات کی تکمیل کا ایک حربہ بن کر مسلط کیا جارہاہے۔ ان سارے معاملات کو یہاں پہلو بہ پہلو بے نقاب کیا جارہا ہے۔ اہداف کی یہ پوری گٹھری کورونا وائرس کے خوف میں درجہ بہ درجہ آگے دھکیلی جارہی ہے۔ دنیا کی یہ بد قسمتی ہے کہ تمام قومی ریاستیں اور حکومتیں اس کھیل میں مخصوص عالمی اشرافیہ کی نادانستہ آلہئ کار بن کر سامنے آئیں۔ وہ خوف کے بڑھاوے میں اس پورے سودے کو خریدتی رہیں جو خود ان کے اور دنیا بھر کے لیے ایک خسارے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
کورونا وائرس کے مریضوں میں مبالغہ آمیز اضافہ خوف کو بڑھاوا دیتا ہے۔ اس کے لیے بل گیٹس کے سب سے زیادہ زیرِ اثر کام کرنے والے عالمی ادارہئ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے گمراہ کن طریقہئ کار اختیار کرتے ہوئے طبی دنیا کے معمول کے قواعد کو بھی نظر انداز کردیا۔ یہ ڈبلیو ایچ او ہی تھا جس نے دنیا کے تمام ممالک کو کچھ ”رہنما خطوط“ پر مرنے والوں کی موت کا تعین کرنے کو کہا۔یہ بل گیٹس کے زیرِ اثر کام کرنے والے ڈ بلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم ہی تھے، جو خوف کو بڑھا وا دینے کے لیے عام اموات کو کورنا کی اموات میں شامل کرنے کے منصوبے کی سرپرستی کررہے تھے۔ ڈبلیو ایچ او نے اپنی”گائیڈ لائن“ میں کہا کہ وہ ایسی تمام اموات کو بھی کووڈ۔19 کے ہی کھاتے میں لیں، جن کی وجوہات کے تعین کے لیے کوئی ٹیسٹ بھی نہ ہوئے ہو۔اس گائیڈ لائن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کورونا کے مشتبہ مریض بھی ہو جن کو متعین طور پر کوووڈ۔19 کی تشخیص نہ ہونے کے باوجود بطور مریض فرض کر لیا گیا ہو تو اُن کی موت کو بھی اِسی میں شمار کیا جائے۔ یہ جدید دنیا اور اس کے ادارے ہیں۔ آدمی کی ریڑھ کی ہڈی بھی سنسنا اُٹھتی ہے کہ ڈبلیو ایچ او کورونا مریضوں میں اضافے کے لیے کس طرح غیر اخلاقی اور غیر طبی چلن کو اختیار کررہا ہے۔
اس کھیل کا سب سے خوف ناک پہلو یہ ہے کہ کورونامریضوں یا کووڈ۔19 کی اپنی کوئی مستند، منفرد اور مخصوص علامات نہیں۔ یہ مرض دیگر عام امراض کی نشانیوں میں رہتا ہے۔ مثلاً بخار اور کھانسی کو بھی کورونا کی علامتوں کے طور پر لیا جاتا ہے جبکہ یہ الگ اور عام امراض کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کی عام زندگی میں کوئی پروا بھی نہیں کرتا۔ ڈبلیو ایچ او کی انتہائی گمراہ کن اور خطرناک گائیڈ لائن کے تحت ان عام امراض کے شکار لوگ بھی کورونا کے مشتبہ مریض سمجھے جانے لگے اور عام اموات کو یقینی طور پر کورونا یا کووڈ۔19 کے کھاتے میں لیا جانے لگا۔ یہ معاملہ زیادہ مشکوک ہواجب یورپ کے کچھ ممالک میں ”کچھ“باضمیر ڈاکٹرز کسی مریض کی موت کا تعین کرنے کی کوشش میں رہے یا پھر کووڈ۔ 19 کی وجہئ موت کے مستند تعین کی علامتوں کی کھوج لگانے لگے۔ ان ڈاکٹرز کو اپنی نوکریوں میں اچانک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سب ایک پراسرار کھیل کی طرح تھا۔ بالکل ایسے جیسے کوئی آپ کی، خود آپ کے ہی موبائل یا پھر لیپ ٹاپ سے نگرانی کررہا ہو۔گویا دنیا کے تمام ممالک میں دیگر اموات کو بھی کووڈ۔19 کے کھاتے میں ڈال کر اعداد وشمار بڑھانے کی ایک دانستہ حکمت ِ عملی اختیار کی گئی۔ جس کی سرپرستی بل گیٹس کے زیرِاثر ڈبلیو ایچ او کررہا تھا۔ یہ اعداد وشمار کس طرح بڑھائے گئے۔ اس کی مثالیں سامنے رکھیں تاکہ یہ پورا تناظر سورج کی طرح روشن رہے۔امریکا کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر نیویارک کی مثال لیتے ہیں، جہاں گزشتہ دنوں کووڈ۔19 کی ہلاکتوں کے اعداد وشمار میں ایسی3800اموات کو شامل کرلیا گیا جو غیر مصدقہ تھیں۔یہ ایسے لوگ تھے، جن میں کورونا کی نہ تو تشخیص ہوئی تھی اور نہ ہی ان کی وجہ موت کے تعین کے لیے کوئی لیبارٹری ٹیسٹ کیا گیا۔اس حوالے سے بلومبرگ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا:ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر، نیو یارک میں وائرس زدہ قرار دے کر شمار کی جانے والی 10367 اموات میں سے 36فیصد اموات غیر تصدیق شدہ ہیں“۔نیویارک کے میئر بل ڈی بلیسیؤ(Bill de Blasio) نے بھی ایک حالیہ بیان میں یہ اعتراف کیا کہ ”گھروں میں ہونے والی غیر مصدقہ اموات کو بھی کووڈ۔19 میں شمار کیا جارہا ہے۔اس تصویر میں بہت کچھ غلط ہے“۔ اگر ان اعداوشمار کا دیگر ذرائع سے ملنے والے اعداد وشمار سے موازنہ کیا جائے تو غیر تصدیق شدہ اموات کی شرح میں اس سے بھی کہیں زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو زیادہ سنگین طور پر صورتحال کو بھیانک بناتا ہے۔ جب ہمیں دنیا کے کچھ ماہرین وبائی امراض یہ بتاتے ہیں کہ جن مریضوں کی کووڈ۔ 19کے طور پر تصدیق بھی کی جاتی ہے، وہ طریقہ کار بھی طبی طور پر مستند قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ تاحال یہ واضح نہیں ہوسکا کہ کسی ہلاک ہونے والے میں ایسی کون سی علامتیں ہونگیں جب اُسے کووڈ۔19 کی واضح وجہئ موت قرار دیا جائے۔ گویا یہ بھی ابھی ایک تحقیق طلب کام ہے۔ مگر کووڈ۔19کے باعث موت بانٹنے کا کام جاری ہے۔
انتہائی سنگین طور پر اب ہم اس حقیقت کا بھی سامناکررہے ہیں کہ ڈبلیو ایچ او کی گمراہ کن گائیڈ لائن کے مطابق چین بھی اپنے ہاں ہونے والی مشتبہ اموات کو اب کووڈ۔19کے کھاتے میں ڈال کر اپنے اعداوشمار کو بڑھا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر دنیا بھر کے مرکزی ذرائع ابلاغ کو بھی ان خبروں کو جگہ دینی پڑی کہ چین اور نیویارک اپنے ہاں غیر مصدقہ اموات کو کووڈ۔19 کے کھاتے میں ڈال کر اپنے اعدادوشمار کو مبالغہ آمیز بنا رہے ہیں۔اس طرح غیر مصدقہ اموات کو کووڈ۔19 کے کھاتے میں ڈالنے سے ووہان میں کورونا امراض میں شمار ہلاکتوں میں 50فیصداور نیویارک میں 17فیصد اضافہ ہوگیا۔چین اور امریکا باہم صف آرا ممالک ہیں جن کی سیاسی قیادتیں ایک دوسرے کے خلاف اپنے اپنے مفادات کے تحت دنیا بھر میں پنجہ آزمائی کررہی ہیں۔ مگر دونوں ممالک اُسی دائرے میں گھوم رہے ہیں جسے دنیا کی امیر ترین ایک محدود اشرافیہ نے اپنے مقاصد کے تحت اُن کے گرد کھینچ دیا ہے۔یہی روش برطانیا اور آئرلینڈ پہلے ہی اختیار کر چکے تھے۔اس تناظر میں اُن ممالک کے اعدادوشمار کو بھی ذہن میں رکھیں جہاں کورونا کے باعث ہونے والی نام نہاد ہلاکتوں کو بطور حوالہ دے کر پاکستان کے مختلف شہروں کو ایک ہانکا دیا جاتا ہے۔ اٹلی، امریکا اور برطانیا میں کورونا ہلاکتوں پر انتہائی غوغا آرائی کی جارہی ہے۔ مگر اٹلی میں 88 فیصد، برطانیا میں 91 فیصد اور امریکا میں مجموعی طور پر 99.1 فیصد ہلاکتیں ایسی تھیں جنہیں غیر مصدقہ طور پر کورونا ہلاکتوں میں شمار کیا گیا ہے۔ جدید تاریخ میں خوف کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے موت کو ایک حکمت عملی کے طور پر استعمال کرنے کی اس سے بھیانک کوئی مثال موجود نہیں۔افسوس ناک طور پر موت اور خوف کے اس کاروبار میں ڈبلیو ایچ او ایک شراکت دار رہاجس کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم بل گیٹس کے مختلف مکروہ منصوبوں کی حمایت میں سرگرم رہنے کا ماضی رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر