وجود

... loading ...

وجود
وجود

جام کمال پھر نشانے پر

جمعرات 16 اپریل 2020 جام کمال پھر نشانے پر

ان سطور میں بہت پہلے لکھا جا چکا ہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان عالیانی متحدہ حزب اختلاف،حکومتی اتحادیوں سے زیادہ اپنی جماعت کے پارلیمنٹرینز سے پریشان ہیں۔ ان کے لیے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔کبھی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو تحریک عدم اعتماد کا شوشا چھوڑتے ہیں، تو کبھی کوئی وزیر اور رکن اسمبلی ناراض ہو جاتا ہے۔ جام کمال با صلاحیت اور محنتی انسان ہیں۔ وہ جتنی بھی صلاحیتوں اور اہلیت کے حامل ہوں جب تک اچھی ٹیم اور اچھے ساتھی دستیاب نہ ہوں گے کام نہ کر سکیں گے۔ گویا سیاست کی مروجہ برائیاں جام کمال خان کے آڑے ہیں۔ اور پھر سچی بات یہ بھی ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) بادشاہ گروں کی جماعت ہے،جو بنوائی گئی ہے۔ یقینا اس جماعت سے رابسطہ پارلیمنٹرینز اپنی اپنی ترجیحات اور اسٹیک کے تحت شامل ہوئے ہیں۔گویا انہیں صوبے اور عوام سے زیادہ ذاتی، خاندانی اور علاقائی سیاسی مفادات زیادہ عزیز ہیں۔چناں چہ حکومت گر ناکام ہوتی ہے تو بدیہی طور سمجھا جائے گا کہ نظام اور حکومتوں کی اصلاح کا بیٹرہ اٹھانے والے ہی ناکام ہوگئے۔غرض جام کمال ایک مرتبہ پھر بلوچستان عوامی پارٹی کی صفوں سے مخالفت اور اختلافی نقطہ نظر کا سامنا ہے۔13اپریل کو اس جماعت کے تین ارکین اسمبلی صوبائی وزیرواسا اینڈ پی ایچ ای نور محمد دمڑ، صوبائی وزیر لائیو اسٹاک مٹھا خان کاکڑ، صوبائی وزیر صنعت و تجارت محمد خان طور اتمانخیل، صوبائی مشیر سردار مسعود لونی اور رکن اسمبلی لیلیٰ ترین نے باہم موقف اختیار کیا کہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے ان کے حلقے نظر انداز کیے گئے ہیں۔ ان پارلیمنٹرینز نے مطالبا ت کا مسودہ وزیر اعلیٰ جام کمال خان کو ارسال کیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ حکومتی سطح پر کرونا وائرس سے متعلق ہونے والے اقدامات اور ترقیاتی منصوبوں میں ان کے حلقوں کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔کہتے ہیں کہ وہ پارٹی کے اندر گروپ یا علیحدگی نہیں چاہتے۔ بلکہ اپنے خدشات،تحفظات اور مسائل سے پارٹی سربراہ اور وزیر اعلیٰ جام کمال خان عالیانی کو آگاہ کیا گیا ہے۔
یہ مسئلہ ابھی حل نہ ہو سکا تھا کہ 13اپریل کو سریاب روڈ کے مگسی ہاؤس میں بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے دیگر اراکین اسمبلی کے درمیان بھی ایک نشست ہوئی۔صوبائی وزیر ایریگیشن نوابزادہ طارق مگسی نے صدارت کی۔ پارلیمانی سیکرٹری میر سکندر عمرانی اور وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے لیبر اینڈ مین پاور،محمد خان لہڑی شریک ہوئے۔ یہا ں نصیر آباد ڈویژن سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کو ایک پیج پر لانے کی پالیسی پر غور ہوا۔ حکومت یعنی وزیر اعلیٰ کی جانب سے نظر انداز کیے جانے اور گلے شکوے دہرائے گئے۔ اس اجلا س میں مربوط حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہاں یہ بھی بتایا گیا کہ سینئر سیاستدان سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان، رکن اسمبلی جان محمد جمالی، تحریک انصاف کے رکن اسمبلی میر نصیب اللہ مری اور باپ پارٹی ہی کی ربابہ بلیدی کو ساتھ دینے کیلیے بات کی جائے گی۔ محمد خان لہڑی کے پاس تعلیم کا قلمدان تھا جووزیر اعلیٰ نے لے کر تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کو دے دیا۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے میر نصیب اللہ مری کے پاس صحت کا قلمدان تھا۔جن سے وزارت لے کر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے قلمدان اپنے پاس رکھ لیا۔ بقول میر سکند ر عمرانی کے وہ صوبائی وزراء نور محمد دمڑ، مٹھا خان کاکڑ، سردار مسعود لونی اور طور اوتمانخیل کو بھی ساتھ شریک کریں گے۔ گویا اس مشکل اور پریشانی کے عالم میں کہ جب پاکستان سمیت پوری دنیا کرونا وائرس کا سامنا کیے ہوئی ہے۔اور بلوچستان پہلے ہی کٹھن اور مساعد حالات سے دوچار ہے۔ایسے میں سیاسی بحران کے منفی اثرات صوبے اور عوام پر مرتب ہونا یقینی ہے۔
ہونا یہ چاہئے کہ ان وقتوں میں سب یکسو ہو کر درپیش آزمائش سے نمٹنے کی جدوجہد کی جائے۔سیاست کے لیے سازگار ماحول دیکھنا چاہئے۔وزیر اعلیٰ جام کمال کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہمہ وقت پارٹی کے اندر اور حکومت میں شریک اراکین کے مسائل اور تحفظات پر توجہ دیں، اعتراض و اختلاف کا ماحول بننے نہ دے۔ضروری ہے کہ دسترس کے حامل حلقے بھی کسی کو انتشار و افتراق پیدا کرنے کی اجازت نہ دیں۔بہ فرض محال وزیر اعلیٰ تبدیل ہو بھی جاتا ہے،تو سوال یہ ہے کہ آنے ولاکیا تیر ماریں گے۔بلاشبہ اسٹیس کو ہی رہے گی۔یا یہ ہو گا کہ سب ٹھیک ٹھیک حصہ پانے پر قادر بن جائیں گے۔ یقینا کئی پہلوؤں سے جام کمال خان کے ہاتھ پیر بندے ہوئے ہیں۔ مصلحتیں نہ ہوں تو وہ دھونس اور دباؤ کی سیاست کرنے والوں سے نمٹ سکتے ہیں۔دریں اثناء 13اپریل 2020ء بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عبداللہ بلوچ پر مشتمل بینچ نے معاونین خصوصی ایکٹ 2018کو کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق وزیر اعلیٰ کے معاونین خصوصی کی تعیناتی آرٹیکل 130کے سب سیکشن 11کے تحت غیر آئینی ہے۔وزیر اعلیٰ صرف پانچ مشیر مقرر کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ عدالت نے وزیر اعلیٰ کے معاونین خصوصی کو تنخواہوں کے علاوہ دیگر تمام مراعات واپس کرنے کا حکم دیا۔یاد رہے کہ بلوچستان حکومت نے آغاشکیل درانی، نوابزادہ عمر فاروق کاسی، اعجاز سنجرانی، کیپٹین (ر) عبدالخالق اچکزئی،رامین محمد حسنی اور حسنین ہاشمی کی بطور معاون خصوصی برائے وزیر اعلیٰ بلوچستان تقرری کی تھی۔عدالت عالیہ بلوچستان کا یہ فیصلہ درست ہے۔معاون خصوصی کا تقرر حکومت میں شامل جماعتوں کو نوازکر سرکاری خزانے پر غیر ضروری بوجھ ڈالا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر