وجود

... loading ...

وجود
وجود

میرے شہر کے سب معمار سو گئے۔۔۔!

جمعرات 12 مارچ 2020 میرے شہر کے سب معمار سو گئے۔۔۔!

سندھ میں کہیں بھی اور کیسی بھی عمارت تعمیر کرنا تو بہت آسان کام ہے لیکن سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے کسی عمارت کا نقشہ پاس کروانا بہت ہی مشکل بلکہ اپنی جان اور اپنے مال کو شدیدجوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ اہم ترین بات سندھ میں بسنے والا کم و بیش ہر شخص ہمیشہ سے ہی جانتا ہے ۔ مگر شومئی قسمت کہ اَب اِس بات کی خبر پورے پاکستان یا یوں سمجھ لیجئے کہ تمام دنیا کو بھی بہت اچھی طرح سے ہوگئی ہے ۔کیونکہ گزشتہ دنوں رضویہ سوسائٹی، گولیمار کراچی میں ایک5 منزلہ رہائشی عمارت کے اچانک منہدم ہونے کے نتیجے میں اَب تک جاں بحق ہونے والے27 افراد نے جہاں ہردردِ دل رکھنے والے شخص کی روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے وہیں اِس ہول ناک واقعہ نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے انتظامی وجود پر انتہائی سنگین قسم کے سوالات بھی اُٹھا دیئے ہیں۔ میڈیا پر نشر ہونے والی ابتدائی معلومات کے مطابق اچانک سے زمین بوس ہونے والی یہ کثیر المنزلہ عمارت جمال فاطمہ نامی ایک خاتون کی ملکیت ہے جنہوں نے 74 گز کے مختصر سے رقبے پر خستہ حال پرانے ستونوں پر یہ 5 منزلہ عمارت تعمیر کرائی تھی ۔اِس ہول ناک حادثے پر پاکستان بھر میں لوگ ایک دوسرے سوال کررہے ہیں کہ کیا کراچی جیسے بڑے اور جدید شہر میں ایک 5 منزلہ عمارت کے نقشہ کو سندھ بلڈنگ کنڑول اتھارٹی سے پاس کروائے بغیر تعمیر کرنا اتنا ہی آسان کام ہے ؟۔یقینا عوام کی اکثریت اِس اندوہناک حادثہ کا قصور وار عمارت کی اصل مالکہ جمال فاطمہ نامی خاتون کو ہی ٹہرائیں گے کہ جنہوں نے اپنی عمارت کے نقشہ کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے پاس کروائے بغیر ہی تعمیر کروایا تھا۔

واضح رہے کہ سندھ بھر میں 80 فیصد سے زائدنئی تعمیر شدہ عمارتوں کے نقشے سندھ بلڈنگ کنڑول اتھارٹی سے پاس ہی نہیں کروائے جاتے کیونکہ سندھ میں رہائش پذیر لوگ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر کی دہلیز میں قدم رکھنے کو بھی ایک گناہ کبیرہ کے مصداق خیال کرتے ہیں ۔ اِس کا مطلب یہ نا سمجھ لیا جائے کہ سندھ میں رہنے والے افراد اپنے گھروں اور دُکانوں کو خوبصورت نقشہ کے عین مطابق تعمیر نہیں کروانے چاہتے ۔اگر ایسا ہوتا تو سندھ بھر میں جگہ جگہ قابل ، سندیافتہ نقشہ نویسوں کے دفاتر نہیں موجود ہوتے ۔سندھ کے ہر شہر میں بڑے بڑے نقشہ نویسوں کے یہ دفاتر اس جانب اشارہ کرتے ہیںکہ سندھ کے باسی اپنی نئی رہائشی عمارتوں کو تعمیر کرنے سے قبل اِن کے خوب صورت اور قیمتی نقشے تو ضرور بنواتے ہیں لیکن اِن نقشوں کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے پاس کروانے سے بہت ڈرتے ہیں ۔ کیونکہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں بیٹھے ہوئے سندھ حکومت کے چہیتے افسران ایک نقشہ کو پاس کرنے کے لیے جتنی زیادہ رشوت طلب کرلیتے ہیں ، وہ اِن بے چاروں کی دستیاب استطاعت سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہوتی ہے اور نقشہ پاس کروانے والا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر میں کھڑا ہوکر ہونقوں کی طرح سوچتا رہ جاتا ہے کہ وہ اگر اپنی ساری جمع پونجی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قابل افسر کو رشوت میں دے دے گا تو پھر اپنا گھر ،یا دُکان تعمیر کرنے کے لیے رقم کس سے اُدھار لے گا۔ یعنی نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی ۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران کو منہ مانگی یکمشت رشوت دینے کا خوف ہی واحد وجہ ہے کہ سندھ بھر میں رہائشی اور تجارتی عمارتیںبغیر نقشہ پاس کروائے بنائے جانے کا چلن عام ہے ۔

اَب ہمارے سادہ لوح قارئین اپنی دانست میں یہ سمجھ رہے ہوں گے بغیر نقشہ پاس کروائے مکان تعمیر کرنے سے لوگ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے چنگل سے بچ جاتے ہیں یہ بھی ہمارے قارئین کی ایک بہت بڑی بھول ہی ہے کیونکہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے چاک و چوبند اور مستعد اہلکار وں کا طریقہ واردات کچھ اس طرح ہے کہ وہ پہلے تو اپنی آنکھوں کے سامنے ایک بلند وبالا عمارت تعمیر ہونے دیتے ہیں اور جب عمارت کا رہائشی یا تجارتی استعمال شروع ہوجاتا ہے تو پھر یہ اپنی فائلیں اُٹھاکر جگہ کے اصل مالکان کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور اُنہیں بڑے پیار سے ڈراتے ،دھمکاتے اور بتاتے ہیں کہ چونکہ آپ نے یہ عمارت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے نقشہ منظور کروائے بغیر تعمیر کروائی ہے۔ لہذا آپ پر فلاں فلاں دو درجن سے زائد لاکھوںکے روپے کے جرمانے لگ سکتے ہیں اور اگر آپ اپنی تعمیر کردہ غیر قانونی بلڈنگ بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں اور جرمانے کی ادائیگی سے بھی خود کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ماہانہ ،شش ماہی یا سالانہ بنیادوں پر خرچہ پانی خاموشی سے دیتے ر ہیں اورامن و سکون کے ساتھ اپنی عمارت میں آباد بھی رہیں اور اپنے کاروبار میں شاد بھی رہیں۔سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا یہ ہی منفی رویہ اکثر وبیشتر سندھ بھر میں رہائشی و تجارتی عمارتوں کے اچانک گرنے کا بنیادی سبب ہے ۔

کراچی میں گولیمار کے علاقے میں زمین بوس ہونے والی یہ پہلی عمارت نہیں ہے جس میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے ،لیکن اگر سندھ حکومت اور اِس کے ماتحت دیگر ادارے خاص طور پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی خواب غفلت سے خود کو بیدار کرلیں تو یہ اچانک سے گرجانے والی آخری عمارت ضرور بن سکتی ہے ۔بہت افسوس ناک بات ہے کہ ہم اُن 27 معصوم افراد کو تو نہیں بچاسکے جو ایک آن کی آن میں عمارت کے ملبے میں پیوند خاک ہوگئے ۔لیکن اگر سندھ کے اربابِ اختیار ااپنے زیر انتظام سرکاری اداروں کا قبلہ درست کرنے کی ٹھان لیں تو نہ جانے مستقبل میں ہم کتنے ہی ناگہانی اور اندوہناک حادثات سے صوبہ سندھ اور اِس کے باسیوں کو بچا سکتے ہیں۔بس !ساری بات اگر ہے تو اُس احساسِ ذمہ داری کی، جو ہمارے سیاسی معماروں میں ہمیشہ سے ہی عنقا رہا ہے ۔ بقول اقبال اشہر قریشی
دیوار و در بھی اپنی مرمت سے تنگ تھے
گر جائے اَب مکان کہ معمار سو گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار وجود منگل 19 مارچ 2024
سی اے اے :ایک تیر سے کئی شکار

نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر وجود منگل 19 مارچ 2024
نیم مردہ جمہوریت کے خاتمے کے آثا ر

اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل وجود منگل 19 مارچ 2024
اسرائیل سے فلسطینیوں پر حملے روکنے کی اپیل

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر وجود پیر 18 مارچ 2024
اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

نازک موڑ پر خط وجود پیر 18 مارچ 2024
نازک موڑ پر خط

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر