وجود

... loading ...

وجود
وجود

معافی سے تاریخ نہیں بدلی جا سکتی

پیر 02 مارچ 2020 معافی سے تاریخ نہیں بدلی جا سکتی

مائیکل ملکن 1980ء کی دہائی میں امریکا کی مالیاتی مارکیٹ میں ’’لالچ اچھی بات ہے۔‘‘کا معروف استعارہ بن کر ابھرا تھا‘ جو اپنے عہد میں وائٹ کالر کرائم کا اہم ترین مجرم سمجھا جاتا تھا۔ صدرٹرمپ نے اسے معافی دیکر دو طرح کا پیغام دیا ہے‘ اول جب بات انصاف کی ہو تو دولت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔دوم‘ یہ کہ وائٹ کالر کرائم کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی‘جہاں تک قانون کی حکمرانی اور اس دعوے کا تعلق ہے کہ کوئی خواہ کتنا ہی طاقتور یا دولت مند کیوں نہ ہو قانون سے بالا تر نہیں ہوتا‘ٹرمپ حکومت میں دونوں پہلے ہی زبوں حالی کے شکار نظر آتے ہیں۔اب ‘کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں پوری تاریخ ہی ازسر نو لکھنی پڑے‘ اس لیے ہمیں اس بات پرضرور سوچنا چاہیے‘ جو 21نومبر 1990ء کو جج کمبا ووڈ نے ملکن کو سازش اور فراڈ کے الزام میں سزا سناتے ہوئے کہی تھی ’’ جب مالیاتی مارکیٹ میں آپ جیسے اختیارات رکھنے والا انسان ‘جو ملک کے اہم ترین انوسٹمنٹ بینکنگ ہائوسز کے سربراہ کی حیثیت سے بار بارسکیورٹیز اور ٹیکس کے قانون کی خلاف ورزی کرنے کی سازش میں ملوث ہوگا ‘تاکہ وہ اپنے لیے اور اپنے امیر ترین موکلین کی خاطر مزید اختیارات اور دولت حاصل کرنے کے لیے سازشیں کرسکے اور ایسے مالیاتی جرائم کا مرتکب ہوگا ‘جن کا سراغ لگا نا بہت مشکل کام ہے تواسے خصوصی قید کی سزا سنانے کی ضرورت ہے‘ تاکہ دوسروں پر بھی اس سزا کا خوف پیدا ہو ‘‘۔جج نے مزید لکھا کہ مسٹر ملکن جو Drexel Burnham Lambertمیں سینئر ایگزیکٹو تھا ’’ایسے جرائم میں ملوث رہا ہے ‘جو سخت سزا کے متقاضی ہیں۔ ‘‘ مسٹرملکن‘ جسے انتہائی ماہر اور مہنگے وکلاء کی معاونت حاصل تھی‘ نے زیادہ سنگین الزامات والے کیسز کا سامنا کرنے کی بجائے اعترافِ جرم میں ہی عافیت جانی۔بعد میں سنائی جانیوالی کئی کہانیوں کے برعکس اس کیخلاف کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی ‘کیونکہ وہ کئی بڑے بڑے معاہدوں کا حصہ رہ چکا تھا۔اس پر ا س لیے فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی‘ کیونکہ سیونگزاور لون انڈسٹری بری طرح تباہ ہو چکی تھی(اگرچہ ملکن کی جنک بانڈز کی ڈیلنگ نے بعض اداروں کی بربادی میں براہِ راست اپنا کر دار ادا کیا تھا)اس پر ا س لیے بھی الزام نہیں لگایا گیا تھا‘ کیونکہ اس کے کیے گئے معاہدوں کے نتیجے میں ہونے والی کساد بازاری نے لاکھوں لوگوں کو بیروزگار کر دیا تھا۔جج نے اسے سزا سناتے ہوئے لکھا تھا ’’شاید اس پر یہ فرد جرم اس لیے عائدکی گئی تھی‘ تا کہ ہماری مالیاتی مارکیٹس جہاں وہ لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں‘ جو زیادہ امیر نہیں ہوتے‘ انہیں ان خفیہ حربوں اور چالوں سے آزاد کرایا جا سکے۔‘‘ جب ملکن کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی تو وہ کمرہ عدالت کے باہر ہی بے ہوش ہو گیا۔
ملکن کی قانون شکنی کا سلسلہ اعتراف جرم اور قید کی سزا کے ساتھ ہی ختم نہیں ہوا۔اس کی سزا پوری ہونے میں ابھی دو سال باقی تھے کہ پراسٹیٹ کینسر کی تشخیص ہونے پر اسے رہا کر دیا گیا‘ مگر اس پر عمر بھر کے لیے کسی قسم کی ڈیل کرنے کی پابندی عائد کر دی گئی۔یہ پابندی بھی اسے 1996ء میں اپنے دوست اور پرانے موکل ٹیڈ ٹرنر کی طرف سے CNNکی 7.5ارب ڈالرز میں ٹائم وارنر کو فروخت کرنے کے لیے مذاکرات سے نہ روک سکی ‘جس کے لیے ملکن نے پچاس ملین ڈالرز فیس وصول کی تھی۔اس نے اپنے ایک اور ارب پتی دوست Ronald O Perelmanکے لیے بھی کام کیا تھا۔ 1998ء میں ملکن سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی شکایت ختم کرانے کے لیے 47ملین ڈالر ادا کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا ‘کیونکہ اس نے پابندی کی خلاف ورزی کی تھی۔اس نے خو دپر لگنے والے اس الزام کا کبھی اعتراف کیا نہ اس کی تردید کی۔اس کی رہائی کے بعد حکومت نے اس کی سرگرمیوں کے حوالے سے فوجداری تحقیقات کا سلسلہ ختم کر دیا تھا۔ملکن کے دولت مند اور مقتدر دوست سال ہا سال سے اس کی طرف سے معافی کا مطالبہ کر رہے تھے ‘مگر ڈونلڈٹرمپ کے الیکشن تک اس معافی کے دور دور تک بھی آثار نظر نہ آئے؛حتیٰ کہ صدربل کلنٹن جنہیں بطور صدر ٹیکس ادائیگی کی خلاف ورزی کرنے والے مارک رچ کی بدنام زمانہ سرگرمیوں کو معاف کرنے کا جواز مل گیا تھا‘انہوں نے بھی ملکن کو معافی دینے سے انکار کر دیا تھا۔جب تک منگل کے دن ڈونلد ٹرمپ کی طرف سے اسے معافی نہیں دی گئی‘ مجھے ا س با ت کی امید تھی کہ میں ملکن کے بارے میں آخری بار لکھوں گا۔ وہ میری کتاب Den of Thievesکا ایک اہم کردار تھا‘ جس میں ملکن اور اس کے شریک جرم دوست Ivan Boeskyکے عروج و زوال کی کہانی بیان کی گئی ہے۔(بوئیسکی ہی وہ شخص تھا‘جس نے ملکن کو ان جرائم میں ملوث کیا اور پھر حکومت کے ساتھ بھی اس نے پورا تعاون کیا تھا۔اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ ڈونلد ٹرمپ اسے بھی معاف کر دیں گے)۔
1991ء میں میری کتاب شائع ہونے کے بعد ملکن کے ایک سابق وکیل مائیکل آرم سٹرانگ نے میرے ‘میرے ریسرچ اسسٹنٹ اور میرے پبلشر کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا تھا ‘جس میں اس نے ہتک عزت پر 35ملین ڈالر ز ہرجانے کا دعویٰ کر دیا تھا اور اس مقدمے کے سارے اخراجات ملکن اور اس کے بھائی نے برداشت کیے تھے۔(دس سال کی طویل مقدمے بازی کے بعد آخر کار ہم یہ مقدمہ جیت گئے تھے)۔میں نے ایک مرتبہ پھر جب ہمارا یہ کیس زیر التوا تھا‘ مسٹر ملکن کے بارے میں ’’نیو یارکر‘‘ میں ایک آرٹیکل لکھا‘ جس میں اس کے جیل میں جانے کے بعد ڈیل کرنے کو موضوع بنایا گیا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ ا س کے بعد سے ملکن اپنی اربوں ڈالر کی دولت سمیٹنے میں مصروف ہے؛ حالانکہ اس نے اس میں سے 600ملین ڈالرز جرمانہ بھی ادا کیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ خیراتی سرگرمیوں کی مدد سے اپنی شہرت کی بحالی میں بھی مصروف ہے ‘جس میں اسے دیگر کئی رپورٹرز کا تعاون بھی حاصل ہے۔1998ء کی سکیورٹی ایکسچینج کمیشن کی شکایت اوراسے دوبارہ جیل بھیجنے کی دھمکی کار گر ثابت ہوئی ہے اور جہاں تک میرا علم ہے۔ اب ‘ملکن دوسروں کے لیے ڈیل میکنگ سے گریز کرتا ہے۔اچھے کاموں کی وجہ سے ایک متاثر کن ریکارڈ رکھنے پر وہ کریڈٹ کا مستحق ہے۔ڈونلڈٹرمپ کی طرح ملکن نے بھی یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے وہارٹن اسکول سے بزنس سٹڈیز میں ڈگری لی تھی ‘مگر نیو یارک کی اشرافیہ نے اسے بری طرح مسترد کر دیا تھا۔ملکن کے ابتدائی کلائنٹس ایسے کارپوریٹ ریڈرز Corporate Raidersتھے ‘جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی فرموں Goldman Sachs یاMorgan Stanleyکے زیر عتاب تھے۔مسٹر ملکن اور ا س کی جنک بانڈز کرنے کی دھاک اور مہارت کو تخریبی فورسز کے طور پر دیکھا جاتا تھا‘ جو کہ وال ا سٹریٹ والوں اور کارپوریٹ امریکا کے لیے ایک خطرہ تھیں‘ بالکل جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں آکر سب کچھ الٹ پلٹ ڈالا ہے؛بلا شبہ ملکن کو سال ہا سال تک تحقیقات اور بری پبلسٹی کے دلدل میں گھسیٹا گیاتھا۔ایک وقت ایسا بھی تھا جب اسے ڈونلڈٹرمپ کے مشہور و معروف وکیل ایلن ڈرشو وٹز کے طور پر پیش کیا گیا‘ ( جس نے ایک مرتبہ نیو یارک ٹائمز کے ایک اشتہار میں مجھے بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا) ڈونلڈ ٹرمپ کے وکیل روڈلف جولیانی نے ملکن کے حوالے سے حیران کن پینترے بدلے ہیں۔ایک موقع پر وہ ملکن کے خلاف سب سے بڑے مدعی تھے اور دوسرے موقع پر وہ ملکن کے سب سے بڑے حامی اوراسے معافی دلوانے کی وکالت کر رہے تھے۔ایک متمول اور بارسوخ شخص ہونے کے باوجود ایک مغلوب اور ہارے ہوئے ملکن نے اپنے بارے میں بڑی کامیابی سے یہ تاثر پیدا کیا کہ وہ در حقیقت میڈیا اور وال سٹریٹ کی ایسٹیبلشمنٹ کے زیر عتاب ہیں ‘جو ان کی دولت اور کامیابیوں سے حسد کرتے ہیں۔گو کہ ا ن کا یہ موقف کسی ٹھوس بنیاد پر استوار نہیں ہے‘ مگر اس کے درست ہونے پر اب صدارتی مہر ثبت ہو چکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر