وجود

... loading ...

وجود
وجود

کمبل چرانے کا کھیل

جمعرات 30 جنوری 2020 کمبل چرانے کا کھیل

پاکستان کی سیاست ہمیشہ چوراہے پر پڑی رہتی ہے۔ اس میں کسبی کی حیا اور بے بسی کی وفا ہے۔اس منڈی کا مال منال جس کمتر اور کہتر سطح سے اُبھرتا ہے، اس کی ہر حیثیت کو مشکوک بنادیتا ہے۔چنانچہ سیاست دانوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ ساکھ کا رہتاہے۔ پاکستان میں اجتماعی سطح پر بندوبست کے لیے اُبھرنے والے تمام سیاسی وغیر سیاسی انتظامات دراصل اپنے بے ڈھنگے پن کے باعث بے وقار اور ناقابلِ اعتبار ہوگئے ہیں۔

 

وزیراعظم عمران خان اپنی ڈیڑھ سالہ حکمران سیاست کے بعد اب ایک نئی دنیا میں قدم رکھنے والے ہیں، یہ بھاؤتاؤ کے ساتھ سیاسی انجینئرنگ کا جہاں ہے۔ یہ کھیل سے زیادہ کھلواڑ اور جوڑ توڑ سے زیادہ توڑ پھوڑ کا عمل ہے۔اس میں ساکھ سے زیادہ بساط کی حفاظت اور کردار سے زیادہ اہداف پر نگاہ رکھی جاتی ہے۔ ہرگزرتے دن عمران خان اتحادی سیاست سے بیزار ہوتے جارہے ہیں۔ اُنہیں سندھ سے ایم کیوایم اور پنجاب سے چودھری برادران کی شکل میں پریشانیاں لاحق ہیں۔ وہ بلوچستان کے بحران پر قابو پانے کے باوجود اتنا تو جان ہی گئے ہوں گے کہ بلوچستان میں بدگمانیاں جلدی ختم نہیں ہوتیںاوردیوارِ اقتدار کی اینٹیں وہاں جلدی اُدھرتی ہیں۔ دسمبر کے اواخر میں جہاں کہیں پر بھی ایک فیصلہ ضرور ہوگیا تھا کہ اب ’’ضمیر‘‘ کی آواز سننے والوں کا ایک گروہ تشکیل دیا جائے، جو اقتدار کی گاتی گنگناتی شاہراہ کو غیر ہموار نہ ہونے دے۔ چنانچہ پنجاب میں نون لیگ کے خلاف ایک مورچہ لگ گیا ہے ،اگرچہ یہ بھیگے پروں کی پرواز اور دھیمے سروں کی آواز ہے ، پھر بھی انجام جانے بغیر اس کا آغاز ہوچکا۔

 

اقتدار کی سیاست کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کا انحصار جس اتحادی سیاست کے رحم وکرم پر ہے، وہ کبھی محبت میں توحید کے قائل نہیں رہے۔کراچی کے گلے پر انگوٹھا رکھ کر سیاست کرنے والی ایم کیوایم اب اپنے گلے کی حفاظت میں مصروف ہے۔ ایم کیوایم ’’بے قائد‘‘ ہو کر بے قاعدہ بھی ہوگئی ۔ مینڈکوں کو تولنے کا ناممکن کام کرنے والا اپنے ظلم کا حساب چکا رہا ہے۔ اس کے گلے کا نرخرہ اب ٹوٹ ٹاٹ چکا۔سننے والا کوئی نہیں۔ اِدھر ایم کیوایم بھی ایک ہنڈولے کی طرح اوپر نیچے ہورہی ہے۔ اُسے عندلیب کی طرح آہ وزاریاں کرنے کی’’ عیاشی‘‘ بھی میسر نہیں۔ یادش بخیر! ایک زمانہ تھا کہ نائن زیرو پر ہر مرکزی اقتدار کی بلائیں اتاری جاتیں۔ بے نظیر بھٹو کو اپنے اقتدار کا صدقہ یہیں آکر اُتارنا پڑا۔ نوازشریف کے اقتدار کو جب بھی بُری نظر لگتی، کالے بکرے یہیں پر کاٹے جاتے۔ نوے کی دہائی کی سیاست’’ چھانگامانگا‘‘ کے ساتھ’’ بوکاٹا ‘‘کی آوازوں سے جاری رہی۔ مگر اب وقت بدل چکا ہے۔ یہ تو پتہ نہیںکہ بدلا وقت پاکستان کے لیے کوئی اچھی خبر لائے گا یا نہیں، مگر یہ ہنڈولے کے اوپر نیچے ہونے کا سفاک لمحہ ہے۔ وزیر عمران خان کراچی آمد سے پہلے لاہور تشریف لے گئے تو ’’چودھری برادران‘‘ سے نہیں ملے۔ چودھری برادران طاقتوروں کا کھیل کھیلتے کھیلتے خود کو بھی طاقت ور سمجھنے لگے ہیں۔ بڑے بوڑھے کہتے ہیں ، آدمی کو سانپ پال لینے چاہئے ،

 

غلط فہمی نہیں پالنی چاہئے۔ چودھری پرویز الٰہی کے متعلق خبر عام ہے کہ وہ خود بھی ’’ضمیر‘‘ کی آواز سننے والوں کی تلاش میںہیں۔ وہ چند ووٹوں پر کھڑی پنجاب حکومت کو اپنی ٹھوکر پر رکھنا چاہتے ہیں۔اسپیکر پنجاب اسمبلی کا دفتر ان سرگرمیوں میںصرف ہورہا ہے۔ اس خبر نے عمران خان کے کانوں سے دُھواں نکال دیا ہے۔ عمران خان پہلے سے ناراض بیٹھے تھے، وہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میںچودھری برادران کے کردار پر شکوک رکھتے تھے۔ اب ستم بالائے ستم ہو چکا۔ متبادل کی تلاش جاری ہے۔ چنانچہ پنجاب اسمبلی میں ’’حریم زادہ‘‘ کی پھبتی سننے والا وزیرا طلاعات کسی پھنکی میں نہیں کہہ رہا کہ نون لیگ کے پچاس ارکان رابطے میں ہیں۔ وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود نے بھی مشفقانہ اندازاپناتے ہوئے’’ افواہوں ‘‘کی حقیقت کھولی ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے 36ارکان اسمبلی حکومت سے رابطے میں ہیں جن میں ایم پی ایز اور ایم این ایز شامل ہیں ۔ یہ ہندسہ اور ایم این ایز کا تڑکا ملک بھر کے اتحادیوں کو یہ نکتہ ’’تعلیم‘‘کرتا ہے کہ

لکد کوب حوادث کا تحمل کر نہیں سکتی
مری طاقت کہ ضامن تھی بتوں کی ناز اُٹھانے کی

عمران خان اب التفات ناز پر مرنے کی سادگی چھوڑنے پر تُلے ہیں۔ اُنہوں نے اتحادی جماعتوں کویہ پیغام خیبر پختونخوا میں خود اپنی ہی جماعت کے عاطف خان ، شہرام ترکئی اور محمد شکیل سے جان چھڑا کردیا ۔ پرویز خٹک نے اپنے مرغے سے بانگ دلا کر صبح کردی ہے۔ اب یہ شام غریباں میں مرثیہ خوانی کرتے ہیںاور عمران خان صبح وحشت کے مسافر ہیں۔عمران خان کے فیصلے کا پیغام واضح تھا۔ پھر وہ پنجاب کے دارالحکومت تشریف لے گئے تو چودھری برادران سے ملاقات نہ کرکے ناز نخرے نہ اُٹھانے کا فیصلہ بھی عریاںکردیا۔ اب کراچی کا رختِ سفر باندھا تو ایم کیوایم کہیں دور دور تک دکھائی نہ دی۔ایم کیوایم شکیل بدایونی کو یاد کرتی رہ گئی کہ

جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی

عمران خان کے اس رویے سے یہ سوال تو جنم لیتا ہے کہ محض چند ووٹوں پر ٹکی حکومت اتحادیوں سے اتنی لاپروا کیونکر ہو سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ حکومت اپنی طاقت کا راز جانتی ہے اور اپنا سکہ بٹھائے رکھنے کے لیے سیاسی منڈی میں رائج سکوں کو بھی پہچانتی ہے۔ پھر کیا مول تول ، بھاؤ تاؤ کا زمانہ آگیا۔ سیاسی انڈیکس اسی کا اشارہ کررہا ہے۔ سیاست دان ایک ایسی مخلوق ہے جنہیںبرائے فروخت کہنا اُن کی عزت افزائی محسوس ہوتا ہے۔ کسی نے کہا تھا: کچھ لوگ پارٹی کے لیے اصول چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ اصول کے لیے پارٹی چھوڑ جاتے ہیں‘‘۔ مگر پاکستان میں پارٹی چھوڑنے یا اُصول توڑنے کی وجوہات یہ دونوں نہیں ہوتیں،یہاں اس کی نسبت بے حیائی و بے وفائی کے جراثیم اور حرص وہوس کے مادی زہر سے ہوتی ہے۔دیکھیے داغ دہلوی کہاں یاد آیا

:

تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی

کہنے والے کہتے ہیں کہ ایم کیوایم اور چودھری برادران کے رویے نے کھینچا تانی کا عمل تیز کردیا ہے۔ مگر یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی گھونٹ گھونٹ پینے والی نون لیگ اپنا حساب کتاب لے کر بیٹھی ہے۔ اور تلف پزیر(disposable )بوتل کی طرح سیاسی کردار رکھنے والے چودھری اس دفعہ کچھ زیادہ کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ سیاست کے سینے میں دل کہاں ہوتا ہے۔ اتحادی تبدیل کرنے سے اقتدار کی شاہراہ کشادہ ہو تو چُوکتا کون ہے؟ چنانچہ بازی پلٹنے کی امید میں جتن دوسری طرف بھی خوب ہورہے ہیں۔ یہ چھانگا مانگا سیاست ہی ہے، مگر اس کی توجیہات انتہائی محترم الفاظ میں ملفوف کرکے پیش کی جانے والی ہیں۔ بس انتظار کیجیے!!سیاست کے جبر میں منڈی کی نفسیات پیدا ہوتی ہے۔ اقتدا ر کی للک بھی اس طرح کی اچھل کود کراتی ہے۔ اگر دوسری طرف کی قوتیں ناکام رہیںاور عمران خان اپنے حساب کتاب کو پورا کرپائے تو پھر چودھری برادران مرکزی اقتدار سے بھی بے دخل ہو جائیں گے، ایم کیوایم کی بالک ہٹ، تریاہت میں بدل جائے گی جس میں نہیں، ہاںجیسی ہی ہوتی ہے۔ دُم پہلے ہی چلی گئی تھی شاید چونچ بھی نہ رہے۔ کھیل کھیلنے والے ہر طرف نظریں دوڑا رہے ہیں دیکھتے ہیں کہاں کہاں اُٹھتی ہیں۔ اتحادی سیاست میں کمبل چُرانے کی مشق جاری رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر