وجود

... loading ...

وجود
وجود

وزیراعلیٰ سندھ کی گرفتاری کے امکانات ختم ہوگئے۔۔۔؟
(سیاسی زائچہ..راؤ محمد شاہد اقبال)

پیر 14 اکتوبر 2019 وزیراعلیٰ سندھ کی گرفتاری کے امکانات ختم ہوگئے۔۔۔؟<br>(سیاسی زائچہ..راؤ محمد شاہد اقبال)

کیا ستم ہے کہ یہاں ذرا سی دیر کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی گرفتاری کی خبریں میڈیا کے اُفق سے غائب ہونا شروع ہوتی ہی ہیں کہ وہیں اچانک کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجاتاہے کہ سندھ کے سیاسی منظرنامے پر وزیراعلیٰ سندھ کے گرفتار ی کی خبریں پھر سے اخبارات میں نمایاں سرخیوں میں شائع ہونا شروع جاتی ہیں ۔ اِس باربھی کچھ ایسا ہی ہو ا ہے۔ بظاہر میڈیا پر راوی گزشتہ چند دنوں سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے لیے عیش ہی عیش لکھ رہا تھا اور اِن کی گرفتاری کے خبروں کی جگہ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے اور اُن کی متوقع گرفتاری کی خبروں نے لے لی تھی ۔جس کے بعد عام لوگ یہ ہی سمجھ رہے تھے جب تک مولانا فضل الرحمن کا دھرنا مکمل طور پر کامیاب یا پھر ناکام نہیں ہوجاتا اُس وقت تک نیب کی طرف سے سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کے ساتھ ضروری یا غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے حتی الوسع اجتناب برتا جائے گا۔یہ رائے اِس لیے بھی قرین قیاس لگتی تھی کہ ایک خفیہ خبر کے مطابق مولانا فضل الرحمن اپنے دھرنے کا آغاز کراچی سے ٹرین مارچ کی صورت میں کرنا چاہتے ہیں اور اِسے روکنے کے لیے وفاقی حکومت کو وزیراعلیٰ سندھ کی ڈھکی چھپی مدد بہر صورت درکار ہے ۔اِس لیے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وفاقی حکومت وزیراعلیٰ سندھ کو گرفتار کر کے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے اہم ترین جز یعنی ٹرین مارچ کو پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالوں کا ایندھن بھی مہیا کردے۔مگر نیب کی طرف سے وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر جیل خانہ جات سندھ اعجاز جاکھرانی کے گھر پر اچانک چھاپے نے سارے تجزیوں کو اُلٹ پلٹ کر کے رکھ دیا ہے اور سندھ میں ایک بار پھر سے چہ مگوئیوں کا آغاز ہوگیا ہے کہ کہیں یہ چھاپہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی کی گرفتاری کے لیے راہ ہموار کرنے کا نقطۂ آغاز تو نہیں ہے ۔

ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ فی الحال نیب کے ہاتھوں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی فوری گرفتاری نیب کے لیے بھی کوئی اتنا سہل کام نہیںہوگا ۔ خاص طور پر اُس وقت جبکہ وزیراعلیٰ سندھ تفتیشی کارروائیوں میں نیب سے بھرپور تعاون کررہے ہوں اور نیب کے بلانے پر اُس کے رو برو پیش ہونے میں غیر ضروری حیلے بہانوں سے کام بھی نہ لے رہے ہوں ۔اِس لیے مجھ ناچیز کی رائے تو یہ ہی ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کو گرفتار کرنے سے پہلے نیب کو اپنے تفتیشی ہوم ورک کا بھی ازسرِ نو جائزہ ضرور لینا چاہئے کیونکہ اَب تک دیکھنے میں یہ ہی آیا ہے کمزور الزامات اور نامکمل تفتیشی رپورٹ کی بنیاد پر کی جانے والی بڑی گرفتاری ،ہمیشہ نیب کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔جبکہ احتساب عدالت میں میں ملزم کا ریمانڈ لینے میں بھی نیب کے پراسیکیوٹرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اُس پر طرفہ تماشہ یہ ہوتا ہے کہ احتساب عدالت کی کارروائی کی خبریں جب میڈیا تک پہنچتی ہیں تو پھر سیاسی جماعتیں اِن خبروںپر خوب مرچ ،مصالحے لگا کر نیب کی کردار کشی کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیتی ہیں ۔یہ صورت حال اُس وقت مزید بھیانک رُخ اختیار کرلیتی ہے جب ٹاک شوز میں نیب کے لتے لینے والے تو موجود ہوتے ہیں لیکن نیب کے جائز دفاع کے لیے کوئی بھی موجود نہیں ہوتا۔ اِس کا سب سے زیادہ نقصان اُس عام ناظر کے ذہن پر مرتب ہوتا ہے جو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کرسیاست دانوں کی زبان سے نیب کی یک طرفہ برائیاں سُن رہا ہوتاہے ۔ نیب کے چیئرمین جناب جسٹس ریٹائر جاوید اقبال کو اِس پہلو پر بھی فوری توجہ دیتے ہوئے کوئی نہ کوئی ایسی راہ ضرور نکالنی چاہئے جس سے الیکٹرانک میڈیا پر رات آٹھ بجے کے بعد نیب کی کردار کشی کرنے جیسے مذموم عمل کی کوئی روک تھام کی جاسکے۔

دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سندھ میں نیب کو مسلسل متحرک رکھنے کا تمام تر سہرا بھی سندھ حکومت کے سر ہی بندھتا ہے ۔یعنی سندھ میں آئے روز کوئی نہ کوئی کرپشن یا مالی بے ضابطگی کا اسکینڈل کسی خود رو پودے کی طرح اپنا سر نکال کر سب کے سامنے آجاتا ہے کہ آخر اِس پر کارروائی کے لیے نیب کو متحرک ہونا ہی پڑتا ہے ۔ حال ہی میں میڈیا پر جاری کی گئی ایک سرکاری دستاویز میں سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں کے بعد انتظامی خامیوں اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔سرکاری دستاویز کے مطابق سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ کی110گاڑیاں محکمہ ایکسائز میں رجسٹرڈ جبکہ 10گاڑیاں پرائیوٹ نمبرز پر رجسٹرڈ کرائی گئی ہیں جو قانون کے برخلاف ہے، اسمبلی سیکریٹریٹ کی34سرکاری گاڑیاں موجودہ و سابق ارکان سندھ اسمبلی کے زیر استعمال ہیں جو من پسند ارکان کو نوازی گئیں ہیں، سندھ اسمبلی میں تاحال صرف 16 قائمہ کمیٹیاں موجود ہیں اور قواعد کے تحت قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینز کو ہی سرکاری گاڑی کے استعمال کا استحقاق ہے، کئی سابق وموجود ہ ارکان سندھ اسمبلی نے تاحال سرکاری گاڑیاں سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ کو واپس نہیں کیں۔دستاویز میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ25گاڑیاں سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ کے افسران کے زیر استعمال ہیں جبکہ 5گاڑیاں اسپیکر،ڈپٹی اسپیکراور اپوزیشن لیڈر کو الاٹ کی گئی ہیں۔جبکہ سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ کی 46گاڑیاں گمشدہ ہیں جو غیر قانونی طور پر استعمال کی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ کی دس سے پندرہ گمشدہ گاڑیاں ایسی ہیں جن کی ایف آئی آر مبہم اور غلط ہیں، سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ کے اسٹاف کو الاٹ کی گئی گاڑیوں میں بھی کئی افسران وملازمین کو خلاف ضابطہ گاڑیاں دی گئی ہیں جبکہ استحقاق رکھنے والے بعض افسران کے پاس سرکاری گاڑیاں موجود ہی نہیں ہیں۔دستاویز میں دل دہلادینے والا یہ انکشاف بھی موجود ہے کہ سندھ اسمبلی کے ٹرانسپورٹ افسر کے بقول ان کے پاس الاٹ کی گئی سرکاری گاڑیوں کی تفصیلی فہرست دستیاب نہیں ہے۔جیسا کہ میں نے مضمون کے شروع میں لکھا تھا کہ جب بھی ہم وزیراعلی سندھ کی گرفتاری کو فراموش کرنا چاہتے ہیں ، اچانک کوئی نہ کوئی ایسی دستاویز منہ کھول کر ہمارے سامنے آ جاتی ہے ۔ جس کے بعد ہمیں ایک بار پھر سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی گرفتاری کا تذکرہ کرنا پڑ ہی جاتاہے۔لیکن خاطر جمع رکھیں کہ میں اپنے مضمون کا اختتام کسی بھی صورت وزیراعلیٰ سندھ کی گرفتاری کی خبر پر کرنے والا نہیں ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر