وجود

... loading ...

وجود
وجود

حدِ ادب ۔۔۔۔۔۔(انوار حُسین حقی)

بدھ 02 اکتوبر 2019 حدِ ادب ۔۔۔۔۔۔(انوار حُسین حقی)

خان کی حُریت پسندی کا پس منظر

ستائیس ستمبر کے بعد پاکستان کا ایک نیا چہرہ سامنے آیا ہے ۔ اس سے پہلے نائن الیون کے واقعات کے بعد سے دنیا صرف ایک ایسے پاکستان کو جانتی تھی جس کے حُکمرانوں کو سابق امریکی جنرل کولن پاول کے فون کی ریکارڈنگ سُنا کریاپتھر کے دور میں واپس بھیجنے کی دھمکی کے بعد ’’ ڈومور ‘‘ کے مطالبے پر اُن سے ہر قسم کی تعمیل کروا لی جاتی تھی ۔ماضی میں پاکستانی حُکمرانوں کے اس طرزعمل کا ’’ناقد ‘‘ بر سرِ اقتدار آیا تو امریکی اشرافیہ کا خیا ل تھا کہ اقتدار کی چمک دمک کو دوام دینے کی خواہش اُسے ِاس معاملے پر ’’ یو ٹرن ‘‘ لینے پر مجبور کر دیگی ۔ لیکن پہلے ہی سال ’’ پینٹاگون ‘‘ کی تمام اُمیدیں اُس وقت خاک میں مل گئیں جب امرکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بیان ( ٹویٹ) کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان اپنے جارحانہ انداز میں بروئے کار آئے ۔ حالانکہ ماضی میں ایسے مواقع پر ہماری سیاسی قیادت کی بزدلی کے ازالے کے لیے پاک فوج کو آگے آنا پڑتا تھا ۔

پہلی بار جب کپتان امریکا گئے تو امریکی اسٹیبلشمنٹ نے ٹرمپ کو یہ بار بار سمجھایا تھا کہ ہماری سُپر پاور آپ کی کسی ایسی حرکت کا بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں جس کا فوری جواب عمران خان کی طرف سے آئے۔ افغانستان میں فتح کی حسرت نے پھر بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو مجبور کیا اور وہ آٹھ سے دس دنوں میں طاقت کے زور پر افغانستان کو فتح کرنے کا خواب خان کو سُنا بیٹھے ۔ جواب میں کپتان نے امریکیوں کو ان کے خواب کی جو تعبیر بتائی اُس سے اکلوتی سُپر پاور ہونے کے دعویداروں کے ہوش اُڑ گئے ۔

پاکستانی وزیر اعظم کے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا وقت جیسے جیسے قریب ہوتا گیا ۔ امریکا اور بھارت کی بے چینی بڑھتی چلی گئی ۔سب جانتے تھے کہ کس شیر کی آمد ہے اور رن کیوں کانپ رہا ہے؟مکارانہ بوکھلاہٹ کے عالم میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسے بھارتی جلسے میں چلے گئے جو عمران خان کے جلسے کے مقابلے میں اسٹیج کیا گیا تھا ۔ دونوں نے اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح کا خوب ڈھنڈورا پیٹا ۔ نائن الیون کے بعد اسلامی دُنیا کو اسی متعصبانہ اصطلاح کا سامنا رہا ہے۔اور اسلامی دُنیا کے حُکمرانوں کے جُرمِ ضعیفی کی سزا پورا عالم اسلام بھُگتتا رہا ۔ ٍٍٍ امریکا میں موجود کپتان نے معاملے کو اس انداز سے آڑے ہاتھوں لیا کہ پوری دنیا پر ’’ اسلامی فوبیا ‘‘ اور ناموسِ رسالت ﷺ کے معاملات اس رنگ و آہنگ کے ساتھ واضح ہوئے کہ عالمِ اسلام عش عش کر اُٹھا ۔ عمران خان کے خطاب کے بعد اسلامی دُنیا میں بیداری کی ایک لہر بیدار ہو گئی ہے۔ اور تُرکی کے صدر پاکستانی وزیر اعظم کی کشادہ پیشانی پر بوسہ دیتے نظر آئے ۔ ہر تقریر سے پہلے اللہ کی عبادت کا اقرار اور اُسی سے مدد مانگنے والے کو قدرت نے اپنی عنایات سے نوازا۔دنیا بھر میں عمران خان کی جرأت کے چرچے ہیں ۔ اس حوالے سے بہت کُچھ لکھا جا رہا ہے ۔ کالم نگاراُن کی اس حُریت پسندی کے پس منظر کا جائزہ لینے لگا تو حیرتوں کا ایک جہاں آباد نظر آیا ۔ عمران خان خود کہتے ہیں کہ ’’ ہوش کی آنکھ کھولنے پر میں دو قسم کے شدید احساسات میں مُبتلا ہوا۔سب سے زیادہ استعمار کے خلاف ۔ بچپن ہی سے مُجھے سکھایا گیا کہ غلامی وہ بدترین چیز ہے ، بنی نوعِ انسان جس کا شکار ہو سکتا ہے۔ آدمی کی اس سے زیادہ توہین ممکن نہیں ۔ اماں جان مُجھے شیرِ میسور ٹیپو سُلطان کی داستان سُنایا کرتیں ۔ 1799 ء میں ، جس پر تین افواج نے حملہ کیا ۔ انگریز، نظام حیدر آباد اور مرہٹوں نے ۔ پھر وہ آخری مُغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی کہانی سُناتیں جو 1862 ء میں بے بسی کی موت مارا گیا ۔ آخر میں وہ ٹیپو سُلطان کا قول دہراتیں ۔’’ شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے ۔ ‘‘
جرأت ومردانگی کی یہ لوریاں سنانے والی شوکت خانم مرحومہ مرحومہ وزیر ستان کے سب سے بڑے قصبہ کانی گرام کے برکی قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ پاک افغان تورخم بارڈر کے قریب اس زرخیز وادی کے لوگوں کا سر ہمیشہ اِس فخر سے بلند رہا ہے کہ انہوں نے کبھی فرنگی کی غلامی کو قبول نہیں کیا ۔اس قبیلے کی حریت اور بہادری میں ان افغانوں کی جرأتوں کا عکس نظر آتا ہے جنہوں نے بیرونی جارح افواج کو کبھی اپنے خطے میں قدم نہیں جمانے دیے۔ عمران خان کے والد کے نیازی قبیلے کا تعلق بھی افغان قبائلی علاقے سے ہے، یہ قبیلہ پندرھویں صدی میں افغان فاتحین کے ساتھ اس خطے میں داخل ہوا تھا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نیازیوں کی اکثریت اوائل میں غزنی کے جنوبی علاقے میں آباد تھی ۔

خان کے ’’ شیر مان خیل ‘‘ قبیلہ کا شجرہ بلو خان ( Baloo Khan ) سے ہوتا ہوا نیازی قبائل کے سردار ’’سرہنگ نیازی‘‘ سے جا ملتا ہے۔ یہ سب جنگجو تھے ۔ احمد شاہ ابدالی کے دو امراء کو1748 ء میں گکھڑوں کے مضبوط قلعے پر یلغار کے وقت بلو خیل قبیلہ کی مدد حاصل تھی۔ ماضی میں اس جنگجو قبیلے کے دلیرانہ معرکوں کی شہادت مقامی لوک گیتوں میں آج بھی ملتی ہے۔تاریخ میں ایک معرکہ بلو خیل قبیلہ کے ایک سردار سہراب خان کے نام سے منسوب ہے۔ روایات کے مطابق ’’ سہراب خان کی زیر قیادت اس قبیلے کے افراد نے غالباً1845 ء میں موجودہ بلو خیل سے چھ کلو میٹر مغربی جانب ایک تاریخی لڑائی لڑی۔ اس لڑائی میں بلو خیل قبیلہ کا سردار سہراب خان تو شہید ہو گیا ۔ مگر جنگ کے نتیجے میں لا تعداد سکھ سپاہیوں کی کٹی ہوئی گردنیں(گلو) اور کھوپڑیاں گھوڑوں کے سموں تلے کچلتے کچلتے گارا ( کیچڑ) بن گئیں۔ یوں اس جائے حرب کا نام ’’ گلو گارہ ‘‘ پڑ گیا۔اب یہ علاقہ چشمہ بیراج کی تعمیر کی وجہ سے زیر آب آ چکا ہے ۔ ‘‘
خاندانی پس منظر اور والدہ کی تربیت اور تاریخ کا طالب علم ہونے کی وجہ سے جدید دنیا کے چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت اُن میں فطری طور پر موجود ہے۔ اس علاقے کی نفسیات کو ایک انگریز منصف ولیم ڈیل رمپل (Wiliam Deal Rumal ) خوب سمجھے ہیں ۔ وہ برِ صغیر میں مغلوں کی تاریخ پر اتھارٹی تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ اپنی کتاب ’’ The Last Mughal ‘‘ میں افغان اور ان سے ملحقہ قبائل کے علاقوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ ’’1843 ء میں اٹھارہ ہزار فوجیوں کی مدد سے برطانیہ نے افغانستان پر چڑھائی کی ۔ افغانون نے یہ جنگ جیت لی ۔ اٹھارہ ہزار فوجیوں میں سے صرف ایک فوجی کو زندہ چھوڑا ، تاکہ وہ واپس جا کر اپنی حکومت کو بتا سکے کہ اُس کی بھیجی ہوئی فوج کا کیا حشر ہوا ہے ۔ چار سال بعد انگریز وں نے دوبارہ افغانستان پر حملہ کیا اس کے ایک حصے پر قابض بھی ہو گئے لیکن چھ ماہ بعد افغانوں نے گوریلا وار چھیڑ دی جو ان کے نزدیک جہاد کا درجہ رکھتی تھی۔

اس جہاد میں بھی انگریزوں کا وہی حشر ہوا جو پہلے ہوا تھا یعنی انگریزوں کو شکست ۔ بدترین شکست ‘‘

اس کے بعد کے معرکوں میں بھی پٹھانوں نے کسی کی اجارہ داری قبول نہیں کی ۔روس کو ہار ماننا پڑی اور اب امریکا کی قیادت میں نیٹو افواج بھی واپسی کے لیے پاکستان کی جانب دیکھ رہی ہیں کہ انہیں واپسی کا محفوظ راستہ فراہم کرنے میں مدد فراہم کی جائے ۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ امریکی صدر بُش اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو اگر کوئی دس منٹ پہلے افغانستان پر حملہ آوروں کے عبرتناک انجام سے آگاہ کر دیتا تو شاید یہ دونوں افغانستان پر حملہ آور ہونے کی غلطی کبھی نہ کرتے ۔‘‘لیکن اب وقت اور حالات بدل گئے ہیں دُنیا میں کسی نے ’’ The Last Mughal ‘‘ کا مطالعہ کیا یا نہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا سب نے27 ستمبر 2019 ء کو عمران خان کی تقریر سُن لی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر