وجود

... loading ...

وجود
وجود

سینٹ کا چیئرمین تبدیل ہوگا یا نہیں؟

اتوار 28 جولائی 2019 سینٹ کا چیئرمین تبدیل ہوگا یا نہیں؟

پاکستانی سیاست بھی کسی لطیفہ سے کم نہیں ہے اور پاکستانی سیاست کا تازہ ترین لطیفہ یہ ہے کہ آج سے کچھ عرصہ قبل اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن پر شب خون مارتے ہوئے سینیٹ کے چیئرمین کی کرسی پر اپنے سب سے پسندیدہ آدمی جناب صادق سنجرانی کو کروڑوں روپے خرچ کر کے بٹھادیا تھا۔آج اپوزیشن کی وہی دونوں بڑی جماعتیں جو آپس میں ہمیشہ برسرِ پیکار رہتی تھیں۔اَب باہم مل کر اُسی صادق سنجرانی کو ہر قیمت پر سینیٹ کے چیئرمین کی کرسی سے ہٹا نا چاہتی ہیں اور اُس پر دعویٰ یہ کر رہی ہیں کہ اُن کے اِس منفرد سیاسی طرزِ عمل سے تحریک انصاف کی حکومت کو سخت تکلیف اور صدمہ پہنچے گا۔ ہے نا زبردست سیاسی لطیفہ۔ بالکل اُسی پرانے لطیفہ کی طرح کہ جس میں ایک بچہ کلینک پر کسی بھی صورت انجکشن لگوانے پر راضی نہ ہورہا تھا لیکن جب عقلمند ڈاکٹر نے اُس بچہ کو کان میں یہ بتایا کہ جو انجکشن تمہیں لگایا جائے گا اُس کی ساری تکلیف تمہیں نہیں بلکہ تمہارے چھوٹے بھائی کو ہوگی تو وہی بچہ جس نے تھوڑی دیر پہلے تک انجکشن نہ لگوانے کی ضد میں سارا ہسپتال سر پر اُٹھایا ہوا تھا، ہنسی خوشی انجکشن لگوانے پر راضی ہوگیا۔ شاید پاکستان کی اپوزیشن کو بھی کسی چالاک سیاسی ڈاکٹر نے چپکے سے کان میں یہ کہہ دیا ہے کہ وہ ایک بار سینیٹ میں تبدیلی کا انجکشن اپنے لائے ہوئے چیئرمین سینیٹ کو لگوائے گی تو اُس کی تکلیف تحریک انصاف کی حکومت کو پہنچے گی۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ کی کرسی پر براجمان رہنے یا نہ رہنے سے تحریک انصاف کی حکومت کو ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وزیراعظم پاکستان عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ سینیٹ میں اُن کی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہے ایسے میں اُن کی جماعت تحریک انصاف کے لیے یہ ہی زیادہ مناسب ہے کہ وہ سینیٹ میں اپوزیشن کو کسی نہ کسی سیاسی مسئلہ میں اُلجھائے رکھے تا آنکہ سینیٹ کے پرانے سینیٹرز کی جگہ نئے سینیٹرز کے منتخب ہونے کی تاریخ آجائے اور تحریک انصاف سینیٹ میں واضح اکثریت حاصل کر کے اپنا من پسند چیئرمین سینیٹ کو لا کر اپوزیشن کو سینٹ سے بے دخل کردے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت سینیٹ میں اقلیت میں ہونے کے باوجود بڑی کامیابی کے ساتھ اپنی ترتیب دی گئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن،سینیٹ میں تحریک انصاف کی حکومت کے مقابل ایک بہت بڑی اکثریت رکھتے ہوئے بھی روز بروز تحریک انصاف کے بچھائے گئے سیاسی جال میں پھنستی جارہی ہے۔دوسری طرف تحریک انصاف کے سینیٹر اور لیڈر آف دی ہاؤس شبلی فراز کی کمال ہوشیاری ملاحظہ ہو کہ وہ ہر وقت اپوزیشن کے 67 سینیٹرز کو اپنے 36 سے بھی کم سینیٹر ز کی عددی قوت سے سیاسی عدم تحفظ کے خوف میں مبتلاء کیے رکھتے ہیں۔اپوزیشن کے 67 سینیٹرز کا ایک دوسرے پر بے یقینی اور عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ وہ جب بھی سینیٹ اجلاس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے اپوزیشن کے نامزد کردہ مشترکہ اُمیدوار برائے چیئرمین سینیٹ حاص بزنجو کو ووٹ دینے کا تجدید عہد لینا نہیں بھولتے۔
یکم اگست کو صدر ِ پاکستان جناب عارف علوی نے سینیٹ کا اجلاس طلب کیا ہو ا ہے۔غالب امکان یہی ہے کہ اِسی اجلاس میں اپوزیشن کی طرف سے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر کے اُنہیں ایوانِ بالا سے اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور کیا جائے گا۔صادق سنجرانی کو اپنے عہدے پر برقرار رہنے کے لیے 54 عدد سینیٹرز کے ووٹ درکار ہوں گے،جو فی الحال تحریک انصاف کی حکومت کی صفوں میں تو موجود نہیں ہیں مگر اس کے باوجود واضح امکانات ہیں کہ صادق سنجرانی ایوانِ بالا سے مقررہ تعداد میں ووٹ حاصل کرلیں گے۔ اُس کی دوبنیادی وجوہات ہیں، پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایوانِ بالا میں زبردست اکثریت رکھنے والی اپوزیشن بُری طرح سے تقسیم دکھائی دیتی ہے، جس کا ادراک خود اپوزیشن کے رہنماؤں کو بھی ہے۔ جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے چیئرمین سینیٹ کے لیے نامزد شخصیت حاصل بزنجو پر مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بے شمار سینیٹرز کو شدید ترین تحفظات ہیں۔ دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کئی سینیٹرز کا موقف ہے کہ اِس عہدے کے لیے اُن کی اپنی جماعت میں سے کسی شخصیت کو نامزد کیا جانا چاہئے تھا۔ اَب دیکھنایہ ہوگا کہ ایوانِ بالا میں انتخابات والے دن اپوزیشن کے سرکردہ رہنما شہباز شریف اور بلاول بھٹو اپنے اپنے سینیٹرز کے یہ تحفظات دُور بھی کرپاتے ہیں یا نہیں۔کیونکہ سب جانتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات میں ووٹنگ کے لیے خفیہ رائے شماری کا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔ اِس رائج طریقہ کار میں کس نے کس کو ووٹ ڈالا کچھ معلوم نہیں ہوسکتا، اِس لیے اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں یقینی جیت کے اُمیدواروں کو غیر متوقع شکست کا سامنا بھی کرنا پڑجاتاہے اور ایسی ہی متذبذب قسم کی سیاسی صورت حال کا سامنا اِس وقت اپوزیشن کو بھی درپیش ہے۔
یوں پاکستان کے تازہ سیاسی منظر نامہ میں سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عد اعتماد کی کامیابی اپوزیشن کے لیے سیاسی حیات و ممات کا مسئلہ بن چکی ہے۔ یعنی اگر اپوزیشن صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ کے عہدے سے ہٹانے میں کامیاب ہو بھی گئی تو تحریک انصاف کی حکومت اِس کا جواز یہ پیش کردے گی کہ اُن کے پاس تو پہلے ہی سینیٹ میں اکثریت نہیں تھی جبکہ صادق سنجرانی بھی ہمارا چیئرمین نہیں تھا۔لہذا پرانے چیئرمین کے جانے اور نئے چیئرمین کے آجانے سے اُن کی حکومت کی سیاسی صحت پر کو ئی فرق نہیں پڑتا۔اگر خدانخواستہ اپوزیشن کی یہ تحریک ناکامی سے ہمکنار ہوجاتی ہے تو اپوزیشن کے پاس سوائے اپنا منہ چھپانے کے کوئی دوسرا راستہ نہ ہوگا۔یعنی جیت صادق سنجرانی کو حاصل ہو یا پھر حاصل بزنجو کو بہر صورت پلڑا تحریک انصاف کی حکومت کا ہی بھاری رہے گا۔شایداِس موقع کی درست تفہیم کے لیے کچھ تغیر اور تبدیلی کے ساتھ یہ محاورہ بھی کہا جاسکتاہے کہ ”اپوزیشن چلی حکومت کی چال اور اپنی بھی بھول گئی“۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر