وجود

... loading ...

وجود
وجود

کے(کہاں)الیکٹرک؟؟

بدھ 29 مئی 2019 کے(کہاں)الیکٹرک؟؟

دوستو، بجلی یا بتی کی ضرورت عام دنوں سے زیادہ رمضان المبارک میں ہوتی ہے۔۔ ہر شہرمیں بجلی کا ترسیلی نظام حکومت کے ہاتھ میں ہے لیکن ملک کا واحد شہر کراچی ہے جہاں بجلی نجی شعبے کے حوالے کردی گئی ہے اور نجی شعبے کی مرضی ہے کہ وہ اپنی مرضی میں جب چاہے عوام پر بجلی گرادے۔۔ گرمیوں میں شارٹ فال بڑھ جاتا ہے جس کے باعث پورے پاکستان میں 12 سے 16 گھنٹے تک کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہوتی تھی اور اس موسم میں لوگ ایک دوسرے کا حال چال نہیں بلکہ ان کے علاقے اور شہر میں بجلی کا شیڈول پوچھنا شروع کر دیتے تھے۔
مالک نے جب نوکر سے کہا کہ۔۔ جب بھی تمہیں کسی کام سے بھیجتا ہوں،تم دو تین گھنٹے سے پہلے واپس نہیں آتے۔نوکر نے بڑے ادب سے جواب دیا۔۔ صاحب جی! آپ ہی تو کہتے ہیں بجلی کی طرح آیا کرو۔۔ایک صاحب کے گھر ان کے پیر صاحب تشریف لائے،اس وقت صاحب خانہ کے ایک رشتہ دار بھی ان سے ملنے آئے ہوئے تھے جو پیری مریدی کے سخت مخالف تھے اْن کے اور پیر صاحب کے درمیان کچھ سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا اور اچانک ہی سارا گھر اندھیرے میں ڈوب گیا، ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی اور صاحب خانہ سمجھے کہ پیر صاحب جلال میں آ گئے ہیں اور تمام گھر والوں کو اندھا کر دیا ہے، گرتے پڑتے پیر صاحب کے قدموں میں لیٹے اور گڑگڑانے لگے۔۔”موتیاں والیو معاف کردیو ساڈی نظر واپس کر دیو“۔۔۔پیر صاحب نے ٹھوکر لگائی اور غصہ سے بولے۔۔ ”انی دیو میں کجھ نہیں کیتا، بجلی چلی گئی اے تے تہاڈا یو پی ایس کم نہیں کردا؟؟“۔۔اپنے شاگردوں کو بجلی کے بارے میں بتاتے ہوئے پرائمری اسکول کے ٹیچر نے مناسب سمجھا کر روز مرہ زندگی میں سے مثالیں دی جائیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک شاگرد کو کھڑے ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔ ”فرض کرو میں پنکھے کا بٹن دباتا ہوں لیکن پنکھا نہیں چلتا تو اس کا کیا مطلب ہے“۔ شاگرد نے جواب دیا”یہی کہ آپ نے بجلی کا بل ادا نہیں کیا ہے“۔۔استاد نے جب شاگردوں سے سوال کیا کہ۔۔ آسمانی بجلی اور زمینی بجلی میں کیا فرق ہے؟ایک ذہین شاگردنے جواب دیا۔۔ ”فرق صرف اتنا ہے کہ آسمانی بجلی کا بل نہیں دینا پڑتا“۔۔
بات ہورہی تھی کے الیکٹرک کی،جسے اگر ”کہاں“ الیکٹرک کہاجائے تو بجا ہوگا۔۔ہم کراچی کے جس علاقے میں رہائش پذیر ہیں وہاں رمضان المبارک میں بھی ڈھائی،ڈھائی گھنٹے کی تین بار لائٹ جاتی ہے۔ پہلی طاق رات کو بھی کے الیکٹرک کا ستم کم نہ ہوا یہ روٹین کے مطابق لائٹ لے گئے، جس کی وجہ سے معتکفین شدید متاثر ہوئے۔۔ بہرحال بات کرتے ہیں کے الیکٹرک کی۔۔ہمارے حساب سے یہ نجی ادارہ بجلی کے نام پر کراچی کے شہریوں سے لوٹ مار میں ملوث ہے۔۔ ان کی لوٹ مار کے چند حقائق بھی سن لیجئے۔۔ انہوں نے شہر بھر میں نئے میٹرز لگانے شروع کردیئے ہیں، جب ہماری بات اسی محکمے کے چند ماہرین سے ہوئی تو انہوں نے آف دا ریکارڈ اعتراف کیا کہ۔۔نئے میٹرز پچھلے میٹروں سے پچیس سے تیس فیصد زیادہ تیز چل رہے ہیں۔۔اب ان کی دوسری کرپشن بھی سن لیجئے۔۔یہ ملک بھر کا اصول ہے اور یہ رائج بھی ہے کہ صلیب تبدیل پر یونٹ چارجز بدل جاتے ہیں۔یعنی اگر تین سو یونٹ تک دس روپے بیس پیسے فی یونٹ ہے تو تین سوایک یونٹ ہوتے ہی پندرہ روپے پینتالیس پیسے چارج کیے جاتے ہیں اور سات سو یونٹ تک یہی چارجز ہوتے ہیں، پھر سات سو ایک یونٹ ہوتے ہی سترہ روپے تینتیس پیسے چارج کیے جاتے ہیں۔۔کے الیکٹرک والے کرتے یہ ہیں کہ جب بل تیار کیاجاتا ہے تو جس کے دوسواسی، دوسونوے یونٹ بنتے ہیں ازخود تین سوپانچ،تین سوپندرہ یونٹ کردیتے ہیں اس طرح صارفین سے دس روپے بیس پیسے فی یونٹ کے بجائے پندرہ روپے پینتالیس پیسے فی یونٹ چارج کیے جاتے ہیں۔۔اسی طرح جس کے سات سو یونٹ سے کم ہوتے ہیں اس کے یونٹ بھی خود بڑھا کر زائد پیسے وصول کرتے ہیں۔۔کیا یہ ناجائز منافع خوری میں شمار نہیں ہوتا؟؟ کیا ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں؟؟ ان کی چالاکی کا ایک عام آدمی مداوا بھی کیسے کرے، میٹر ریڈنگ کے 10 سے 15 دن کے بعد بل آتا ہے، جب تک آدھا مہینہ اور ہوجاتا ہے، اور کس طرح 10 یہ 15 یونٹ کا حساب لگایا جاسکتا ہے؟
کے الیکٹرک کی تیسری کرپشن بھی سن لیجئے۔۔ کے الیکٹرک پابند ہے کہ صارف کو دوسوتیس وولٹ بجلی فراہم کرے یا کم از کم 220 بجلی فراہم کرے۔ کے الیکٹرک اس بات کی بھی پابند ہے کہ وہ صارفین کو فلٹر ہوئی بجلی فراہم کرے جو نقصانات سے بچاتی ہے۔۔لیکن ہوتا برعکس ہی ہے، کراچی کے شہریوں کو کبھی دوسوبیس وولٹ فراہم نہیں کیاجاتا، نہ ہی فلٹر کی ہوئی بجلی فراہم کرتی ہے جسکا نقصان صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے۔اب آپ پوچھیں گے کہ 220 وولٹ سے کم بجلی کا کیا نقصان ہے؟تو اس کا جواب ہے۔۔جب دوسوبیس وولٹ کم آتے ہیں تو اس کے ”امپیئر“ بڑھ جاتے ہیں، جب امپیئر بڑھ جاتے ہیں واٹ زیادہ استعمال ہوتا ہے۔۔اس کی مثال یوں سمجھ لیئجے کہ اگر وولٹ دوسوبیس ہو،ہمارا لوڈ ایک ہزار واٹ ہو اور مسلسل ایک گھنٹے بجلی چلے تو ایک یونٹ بنتا ہے، اسی طرح اگر وولٹ ایک سی اسی ہو،ہمارا لوڈ ایک ہزار واٹ ہو اور ایک گھنٹہ مسلسل چلے توڈیڑھ یونٹ بنتا ہے یعنی پانچ سو واٹ بجلی زیادہ استعمال ہوئی۔۔یہ چونکہ تکنیکی مسئلہ ہے،اس لیے عام عوام کا اس جانب ذہن ہی نہیں جاتا۔۔چوتھی کرپشن کے الیکٹرک نے یہ شروع کی ہے کہ پورے شہر سے کاپر وائر اتار کر سلور وائر ڈال رہی ہے، جس کی معیاد چند کی ہے، یہ کیوں اور کس کی ایماپرکیاجارہا ہے؟نئے میٹر کے لیے جو صارفین ڈیمانڈ نوٹ کے ساتھ پیسے بینک میں جمع کراتے ہیں۔۔ اْس میں صارفین سے مین لائن سے میٹر تک آنے والی جو وائر استعمال ہونی ہے اْس کے پیسے لیئے جاتے ہیں اور وہ پیسے کاپر وائر کے لیئے جاتے ہیں مگر لگایا سلور وائر جاتا ہے، اور اگر میٹر تبدیل کرنے آتے ہیں تو صرف میٹر تبدیل نہیں کرتے بلکہ جو کاپر وائر ڈالا ہوا ہوتا ہے اس کو بھی سلور وائر سے تبدیل کردیتے ہیں، جبکہ اس کاپر وائر کے صارفین پہلے ہی پیسے ادا کیے ہوئے ہوتے ہیں، مگر یہ ایک نہیں سنتے بلکہ دھمکی دیتے ہیں، اگر ہمارے معاملے میں بولوگے تو پریشان ہوجاؤ گے، اور صارف بیچارہ خاموشی اختیار کر لیتا ہے، کیوں کے اس کو پتہ ہے کہ یہاں کچھ نہیں ہوسکتا!!!
کے الیکٹرک کی پانچویں کرپشن جس سے ہر شہری تنگ ہے وہ ہے ”اووربلنگ“۔۔۔جب صارفین کو اوور بل موصول ہوتا ہے تو بیچارے پریشان ہوجاتے ہیں، اور جب سروس سینٹر جا کر شکایت کرتے ہیں تو پریشان کیا جاتا ہے،چکر لگوائے جاتے ہیں یا پھر کہتے ہیں کے بل تو بھرنا پڑیگا، ایک نوکری پیشہ آدمی کب تک ان سے لڑے؟ کب تک چکر لگائے! آخر کار بل بھر دیتا ہے، کیوں کہ اس ملک میں غریب اور کمزور کا کوئی مدد گار نہیں،جو بجلی کا یونٹ پورے پاکستان بھر میں 6 روپے سے 8 روپے کے درمیان ہے وہ یونٹ کراچی میں 10 روپے 20 پیسے لیا جاتا ہے!!!آخر کراچی سے ایسی دشمنی کیوں؟یہ مسئلہ کسی ایک کا نہیں بلکہ کراچی کے ہر صارف کا ہے۔۔ہم امید کرتے ہیں چیف جسٹس پاکستان،وزیراعظم پاکستان اور متعلقہ حکام اس بارے میں تحقیق کریں گے اور کراچی کے عوام کو ریلیف فراہم کریں گے۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر