وجود

... loading ...

وجود

رنچھوڑ لائن کی سندھ یو نیورسٹی سے کرا چی یو نیورسٹی تک

اتوار 22 اپریل 2018 رنچھوڑ لائن کی سندھ یو نیورسٹی سے کرا چی یو نیورسٹی تک

زندہ قومیں اپنے ما ضی حال اور مستقبل سے غافل نہیں ہو تیں قوموں کی تبا ہی اس وقت ہو تی ہے جب وہ اپنے تابناک ماضی کو بھلا دیتی ہیں ،جو لوگ تاریخ کو بھول جا تے ہیں تا ریخ بھی انہیں بھول جا تی ہے اور پھر نہ تو ان کا ما ضی ہو تا اور نہ ہی حال مستقبل اور یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے، ہم نے اپنے ما ضی کو فراموش کر تے ہو ئے انگریزوں کو سب سے مہذب سب سے ترقی یافتہ قوموں میں شمار کر نا شروع کر دیا ہے مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے ہم انگریزوں سے زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب قوم ہیں جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ جس وقت انگریز لباس اور کھا نے کے طور پر پتوں اور گھاس پوس کا استعمال کر تے تھے رہائش کے لیے غاراور آگ جلا نے کے لیے پتھر کو آپس میں ٹکرا کر آگ جلا تے تھے یہاں 5ہزار سال قدیم موہن جودڑو جو کہ ایک تہذیب یافتہ شہر تھا اور جسے دریافت بھی ایک انگریز ماہر آثار قدیمہ سر جان مارشل نے کیا تھا اس سے ثابت ہوا کہ یہ خطہ ایک مہذب اور شائستہ قوم کی قدریں رکھتا ہے 5ہزار سال قبل در یا فت کیے جا نے والے اس شہر میں نا صرف رہنے کے لیے مکا نات ،عبادت کر نے کے لیے عبا دت گا ہیں ،با زار ،فراہمی آب اور نکا سی آب کے موثر انتظامات تھے بلکہ وہاں علمی درس گا ہوں کی بھی نشانیاں در یا فت ہو ئی ہیں جن میں سے در یا فت ہو نے والی ایک عما رت کو با قاعدہ طور پر مو ہن جودڑو کا لج کا نام دیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس تہذیب و تمدن وا لے شہر جو کہ ہما را ورثہ ہے عالمی سطح پر یو نیسکو جو کہ اس وقت مغربی ممالک کے زیر اثر ہے نے بھی اسے عالمی ورثے کے ٹائٹل سے نوازا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ با بل ،عراق،ایران میں بھی تعلیمی اداروں کی واضح نشانیاں ملی ہیں ان واضح نشانیوں میں پنجاب کے علا قے سے در یا فت ہو نے والے قدیم شہر ٹیکسیلا سے ایک یو نیورسٹی کے آثار ملے ہیں جو کہ میلوں کے رقبے پر پھیلی ہو ئی تھی اور یہاں 300 سے زائد لیکچر ہا ل و دیگر سہولیات موجود تھیں۔ماہرین آثار کے مطا بق اس یونیورسٹی میں 68 مضامین جس میں تجارت ،طب ،فلسفے ،سر جری سمیت دیگر شعبوں میں دنیا بھر سے آ ئے ہو ئے 10ہزار طلبہ کو 200سے زائد پروفیسرز تعلیم کے زیور سے آراستہ کر تے تھے اس یونیورسٹی کو نلندہ یونیورسٹی کے نام سے جا نا اور ما نا جا تا ہے اگر انہیں دیکھتے ہو ئے یہ کہا جا ئے کہ دنیا کی پہلی یو نیورسٹی یا علمی درسگاہیں اسی خطے میں واقع تھی تو یہ قطعی طور پر غلط نہ ہو گا کیونکہ انہیں یونیورسٹیوں کو دیکھتے ہو ئے آج دنیا بھر میں جامع الا اظہر یو نیورسٹی آف بلونگا ،یو نیورسٹی آف آکسفورڈ ،یو نیورسٹی آگ پیرس ،یونیورسٹی آف کیمبرج و دیگر قائم ہیں اور دنیا بھر میں خاص شہرت رکھتی ہیں ۔

اب اگر سندھ کی با ت کی جا ئے تو کیونکہ موہن جودڑو اسی خطے کا حصہ تھا جہاں سب سے پہلے تعلیم کا فروغ شروع ہوا مگر کیونکہ مو ہن جودڑو قدرتی آفات کے نتیجے میں تباہ ہو گیا مگر اس کے باوجود یہاں ہر دور میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام ہو تا رہا اور تالپور دور تک یہاں مدارس اور اسکول قائم تھے جہاں تمام مذاہب کے طلبہ و طالبات تعلیم سے آشنا ہو رہے تھے اور جب انگریزوں نے سندھ پر1839 میںقبضہ کیا تو کیونکہ اس وقت سندھ کے اندر تالپوروں کا نظام تعلیم را ئج تھا لہذا انہوں نے سب سے پہلے اس تعلیمی نظام کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہو ئے ختم کر دیا اورکیونکہ اس وقت کیونکہ فارسی کو سر کا ری زبان کی حیثیت حاصل تھی لہذا انہوں نے اسے ختم کر تے ہو ئے سندھی کو سر کا ری زبان قرار دے دیا اور پھر اپنی انگریزی کتا بوں کو سندھی زبان میں تر جمہ کر کے اسکولوں میں بطور نصاب استعمال کر نا شروع کر دیا اور 1841میں صدر جو کہ فو جی چھائونی کا علا قہ تھا انگریز فوجیوں کے 40ویں رجیمنٹ کے لیے ایک اسکول قائم کیا لیکن اس اسکول میں صرف انگریز فو جیوں کے بچے ہی تعلیم حاصل کر سکتے تھے مقامی بچوں کے لیے یہ اسکول شجر ممنوعہ تھا اور اس کے بعد 1845میں کلکٹر کرا چی کیپٹن پریڈی کی کوششوں سے چرچ مشن اسکول جہاں با نی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ابتدا ئی تعلیم حاصل کی قائم کر دیا اس کے بعد گو یا کرا چی شہر میں اسکولوں کے قیام میں تیزی آ گئی اور کراچی گرا مر اسکول ،این جے وی اسکول ،ٹیکنیکل ہائی اسکول ،با ئی ویر جی سپا ری والا اسکول ،سینٹ جوزف کانویننٹ ہا ئی اسکول ،سینٹ پیٹرک اسکول ،ہملے اسکول منوڑہ ،گجرا تی اسکول ،محمڈن گر لز اسکول ،ہندو سندھی اسکول ،دھن پاٹ شالہ،ورنہ کو لر اسکول ،وسطا نی اسکول ،ما ما پارسی اسکول ،کراچی اکیڈمی ،ٹیچر ٹریننگ اسکول،تعلیم بالغان اور کمرشل اسکول قائم ہو گئے اور علم کے پیا سوں کی علمی پیاس بجھا ئی جا نے لگی 1887تک شہر میں تعلیم کا کو ئی اعلی ادارہ قائم نہیں تھا اور صرف میٹرک تک کی تعلیم دی جا تی تھی لہذا اس صورتحال کے پیش نظر 1887میں پہلا سندھ آرٹس کا لج قائم کیا گیا جسے بعد میں ڈی جے کا لج کا نام دے دیا گیا اور اسی کے ساتھ این ای ڈی کا لج ،ایس سی شاہا نی لاء کا لج ،دائو میڈیکل کا لج ،سندھ مسلم گورنمنٹ سائنس کا لج ،ایس ایم لا ء کا لج بھی قائم ہو گیا جہاں طلبہ و طالبات کو اعلی تعلیم کی سہولیات حاصل ہو گئیں اس وقت تک سندھ بھر میں کو ئی یو نیورسٹی قائم تھیں اور سندھ کو صوبہ بنا نے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں اس وقت ایک انگریز دانشور مسٹر جیکسن نے سندھ میں یونیورسٹی کے قیام کی تجویز پیش کی جسے ہندئوں کی مخالفت کے سبب مسترد کر دیا گیا اور پھر جب 1936میں سندھ کو صوبہ قرار دے دیا گیا تو ایک دانشور میراں محمد شاہ کی سر برا ہی میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے پھر سے کمیٹی قائم کی گئی مگر پھر یونیورسٹی قائم کر نے کی قرار دادکو مسترد کر دیا گیا لیکن تعلیم دوست لوگوں کی یونیورسٹی کے قیام کی جدوجہد کا سلسلہ جا ری رہا اور با لا آخر 1946میں سندھ یو نیورسٹی کا بل منظور کر لیا گیا ۔

قیام پاکستان سے قبل 13 اپریل 1947 کراچی کے گنجان علا قے رنچھوڑ لا ئن میں پرنسس اسٹریٹ جسے آج چاند بی بی روڈ کے نام سے جانا جا تا ہے اور جو کہ سول ہسپتال کے عقب میں واقع ہے کرا چی گرلز کا لج کی بلڈنگ میں جہاں ماضی میں کبھی گورنمنٹ اسکول واقع تھا اسکول کو کوتوال والی بلڈنگ میں منتقل کر کے سندھ یو نیورسٹی قائم کر دی گئی جبکہ اس کے اطراف میں قائم قدیم بلڈنگوں جنہیں ڈائو میڈیکل کا لج کے ہاسٹل کے زیر استعمال رہا میں بمبئی ،سندھ ،پنجاب و دیگر علاقوں سے آ نے والے طلبہ و طالبات کے لیے ہاسٹل قائم کیے گئے کیونکہ اس وقت تک پاکستان کا قیام عمل میں نہیں آ یا تھا اور سندھ میں انگریزوں کی حکمرا نی تھی لہذا اس یو نیورسٹی کاپہلاچانسلر سر فرانسس مودی کوبنایا گیا جبکہ سر غلام حسین ہدایت اللہ کو وائس چانسلر اور آغا تاج محمد کو رجسٹرار مقرر کیا گیا دلچسپ با ت یہ ہے کہ اس وقت کیونکہ میٹرک بورڈ اور انٹر بورڈ کا کو ئی وجود نہیں تھا لہذا سندھ یو نیورسٹی ہی میٹرک اور انٹر کے امتحانات کا انعقاد کر واتی اور اس کے نتا ئج جا ری کر تی اس وقت کیونکہ اس شہر میں آبا دی تناسب زیادہ نہیں تھا لہذا یو نیورسٹی میں طلبہ کی تعداد بھی انتہا ئی قلیل ہوا کر تی تھی لیکن کیونکہ اس وقت کے اساتذہ کرام کی تمام تر توجہ طلبہ کو تعلیم دینے پر مر کوز ہوا کر تی تھی لہذا پڑ ھا ئی کا معیارشاندار ہوا کر تا تھا اس یو نیورسٹی میں گو کہ زیادہ مضامین تو نہیں تھے لیکن اس وقت اردو ،سندھی انگریزی اور اردو لازمی مضامین میں شامل تھے اب جہاں موجودہ جامعہ کرا چی یا کرا چی یو نیورسٹی کا تعلق ہے تو جب 1951سندھ یو نیورسٹی کو حیدر آ باد ،جامشورو منتقل کر دیا گیا تو جامعہ کرا چی کو یو نیورسٹی روڈ پر اس جگہ منتقل کیا گیا جہاں ما ضی میں جنگل ،باغ ،کھیتوں کے علاوہ کچھ نہیں ہو ا کر تا تھا اور یونیورسٹی کی جگہ ملیر کے باغات تک کی گزر گاہ تھی لہذا یہاںڈملوٹی کنویں کے ذریعے پا نی کی فراہمی کی جا تی تھی جس کا سلسلہ تا حال بھی جا ری ہے جبکہ اس کی نشا نی کے طور پر یو نیورسٹی کے اندر ہی لاتعداد چھوٹی چھوٹی بر جیاں موجود ہیں جن سے آج بھی پا نی کے بہا ئو کی آوازیں آتی ہیں جبکہ گزرگاہ کے ساتھ ساتھ کئی پتھروں کی چھوٹی چھوٹی قدیم عمارتیں بھی قائم ہیں جن کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہ کوٹھی نما کوٹھریاں ما ضی میں چنگی نا کے کی وصولی اور بطور حفاظتی چوکی کے طور پر استعمال کی جا تی تھی تاریخ کے مطا بق 1950میں جب یونیورسٹی ایکٹ پارلیمنٹ سے پاس ہوا تو جامعہ کرا چی کے لیے نئی جگہ تلاش کی گئی اور اس وقت کے کنٹری کلب روڈ پر 1279ایکڑ پر محیط قطعہ اراضی کو جامعہ کرا چی کے لیے الاٹ کیا گیا ابتدا ئی ماسٹر پلان میں اس وقت یہ منصوبہ بندی کی گئی کہ اس پورے خطے کو ایجوکیشن سٹی بنا یا جا ئے اور اسی وجہ کر یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ این ای ڈی یو نیورسٹی جو کہ ماضی میں این ای ڈی کالج کے نام سے جوکہ ڈی جے کا لج کے عقب میں واقع تھی کو یو نیورسٹی کا درجہ دے کر اسی جگہ منتقل کر دیا گیا کیونکہ کراچی یو نیورسٹی تیار ہو چکی تھی لہذا اسے مرحلے وار رنچھوڑ لا ئن سے موجودہ یو نیورسٹی میں منتقل کیا گیا اور کیونکہ یہاں کلیہ فنون ،کلیہ تعلیم ،کلیہ علوم ،کلیہ علم الادویہ ،کلیہ قانون ،کلیہ طب سمیت لاتعداد شعبے قائم کر دئے گئے لہذا طلبہ و طالبات کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔

بعض مورخین رنچھوڑ لا ئن سے کراچی یو نیورسٹی کی منتقلی کی داستا نیں بھی سنا تے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ جب یو نیورسٹی تیار ہو گئی تو رنچھوڑ لا ئن یو نیورسٹی میں پڑھنے والے طلبہ نے با قاعدہ طور پر ایک پیدل جلوس نکا لا اور ما رچ کر تے ہو ئے اس وقت کے وائس چانسلر جو کہ جلوس کے آگے آگے اپنی گاڑی پر چل رہے تھے کے ساتھ کراچی یو نیورسٹی پہنچے آج ہماری اس جا معہ کراچی کو ایک اعلی یو نیورسٹی کے طور پر جا نا جا تا ہے اس یو نیورسٹی سے لگ بھگ 145 کا لجز کا الحاق ہے اور ہر سال اس جامعہ سے 50 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہو کر نکل رہے ہیں، اس یو نیورسٹی کی ڈگریوں کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جا تا ہے اس سلسلے میں سندھ یونیورسٹی جامعہ کراچی کے قیام اور اس کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے جب ہم نے مختلف ماہرین سے رابطہ کیا تو ان میں سے جامعہ کراچی میں اس وقت شماریات کے ایک پرو فیسر محترم زاہد محمود نے اس بات کی تصدیق کی کہ کراچی میں سب سے پہلے سندھ یو نیورسٹی کا قیام عمل میں آ یا اور یہ یو نیورسٹی رنچھوڑ لا ئن کے علا قے میں پہلے سے موجود قدیم عمارتوں جن میں آج کراچی گرلز کا لج کی عمارت میں یہ یو نیورسٹی قائم کی گئی جبکہ اس کے اطراف کی قدیم عمارتوں کو بطور ہاسٹل استعمال کیا گیا اور ان کے بڑے بھائی سید حامد محمود اس ہاسٹل کے وارڈن تھے اور انہیں ان کی سخت گیر طبیعت کے سبب اس وقت کے طلبہ جارج پنجم کے نام سے بلا تے تھے مگر کیونکہ پاکستان بنتے ہی جامعہ کرا چی کا قیام عمل میں آ گیا لہذا ان کے بھا ئی بھی جامعہ کراچی منتقل ہو گئے اور یو نیورسٹی کے اندر اسٹاف کالونی میں ملازمین کے لیے بنا ئے جا نے والے مکا نات میں سب سے پہلے انہیں یہ مکان الاٹ کیا گیا جہاں وہ آج بھی رہائش پذیر ہیں، جامعہ کراچی کے حوالے سے ان کا کہنا یہ تھا کہ ابتدا میں یہاں جنگل ہی جنگل تھا جس کے خاتمے کے باوجود ذرخیز زمین ہو نے کے نا طے یہاں چاروں طرف ہر یا لی ہی ہر یا لی تھی اور خونخوار جانوروں کے علاوہ چھوٹے موٹے جانور بھی دکھا ئی دیتے تھے جبکہ خاص موسم میں یہاں بہر بوٹی جو کہ جامنی کلر کا مخملی کیڑا ہوتا ہے کی بہتات ہوتی تھی اور اسٹاف کا لو نی کے بچے اس سے کھیلا کرتے تھے انہوں نے اپنے دفتر میں کرا چی کے پرا نے ماسٹر پلان دکھا تے ہو ئے رنچھوڑ لائن کی سندھ یو نیورسٹی کی جگہ دکھا نے کے ساتھ ساتھ یہ وضاحت بھی کی کہ کیونکہ رنچھوڑ لا ئن ایک گنجان آبادی تھی لہذا کسی طور پر یو نیورسٹی کے لیے مناسب نہیں تھی لہذا اسے مد نظر رکھتے ہو ئے سندھ یو نیورسٹی کے حیدر آباد منتقلی کے بعد اسے کل کے کنٹری روڈ اور آج کے یو نیورسٹی روڈ کی موجودہ جگہ پر منتقل کیا گیا اور کیونکہ ماسٹر پلان کے مطا بق اس کے تمام رقبے کو ایجوکیشن سٹی کے نام سے استعمال کر نے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی لہذا اسی کے پیش نظر این ای ڈی یو نیورسٹی کو اس کے پڑوس میں منتقل کیا گیا اور اس سلسلے میں مزید پروگرام بھی تر تیب دئے گئے تھے مگر اس پر عملدرآمد کو یقینی نہیں بنا یا جا سکا۔

اردو یو نیورسٹی شعبہ ابلاغیات کے پرو فیسر ڈاکٹر سعید عثما نی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ قیام پاکستان سے چند ماہ قبل یو نیورسٹی ایکٹ منظور کر لیا گیا تھا لہذا سندھ یو نیورسٹی کو عارضی طور پر رنچھوڑ لا ئن کے علاقے میں لب سڑک پر پتھروں کی قدیم عمارتوں میں قائم کیا گیا مگر جگہ کی تنگی کے سبب یہ یونیورسٹی اس وقت تدریس بہت مشکل تھی ، جب بھا رت سے ہجرت کر کے پاکستان آ نے والے مہا جرین کے بچوں کا اضافہ ہوا تو اسے موجودہ جامعہ کراچی منتقل کر دیا گیا اور وہ دن کراچی کے طلبہ و طالبات کے لیے انتہا ئی خوشی کا دن تھا لہذا وہ پیدل ہی رنچھوڑ لا ئن سے کراچی یو نیورسٹی جو کہ 12 میل کی دوری پر تھی جلوس کی شکل میں گئے اور اسی پراس وقت کے اخبارات میں با قاعدہ طور پر کا لم چھا پے گئے جن کا عنوان شہر سے 12 میل دور تھا یو نیورسٹی کے حوالے سے شہر کراچی کی تاریخ پر کتاب لکھنے والے مصنف عثمان دموہی نے کچھ اس طرح اظہار خیال کیا کہ ماضی میں رنچھوڑ لا ئن جہاں ہر طبقے کے لوگ آ باد تھے سندھ یونیورسٹی قائم کی گئی جس سے یہاں کے طلبہ کو اعلی تعلیم حاص کر نے کا موقع ملا جس سے اس علاقے کے نو جوانوں نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا یا اور سلاوٹہ برادری جو کہ رنچھوڑ لا ئن گزدر آ باد کے پرا نے واسی اور پیشے کے اعتبار سے سل بٹے کوٹنے کے ساتھ ساتھ پتھروں کی عمارت تعمیر کر نے کے فن میں اپنا ثا نی نہیں رکھتے کے کئی نو جوانوں نے اسی یو نیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے ایک نمایاں مقام حاصل کیا ایک اور محقق سید نعمت اللہ بخاری کا کہنا یہ تھا کہ ان کے والد رائل انڈین نیوی میں تھے اور وہ قدیم ترین اوجھا سینی ٹوریم کے نزدیک ہی رہائش پذیر تھے لہذا انہیں مو جودہ جامعہ کراچی کو ما ضی میں دیکھنے کا قریب سے موقع ملا اس وقت یونیورسٹی کے اطراف میں جنگلات اور چاروں طرف ہر یا لی ہر یا لی تھی اور کیونکہ یہاں کھیتی باڑی کے کام ہو تے تھے لہذا انگریز سر کار نے زرعی زمینوں کے حدود تعین کر نے کے لیے یہاں چھوٹی چھوٹی بر جیاں جو آج بھی یو نیورسٹی کے اندر موجود ہیں بنا رکھی تھیں جس سے لوگوں کو اس بات کا پتا چلتا تھا کہ ان کی زمین کہاں سے کہاں تک ہے ان کے مطا بق ویسے تو کراچی یو نیورسٹی ،سندھ یو نیورسٹی کی رنچھوڑ لائن سے حیدر آباد منتقلی کے بعد ہی مر حلے وا ر منتقلی کی گئی تھی اور ابتدا میں آرٹس لا بی اور ایڈمنسٹریشن بلاک کا قیام عمل میں آ یا تھا مگر 1956-1957 کے بعد جامعہ کراچی میں مکمل طور پر تعلیمی سر گر میاں بحال ہو گئی تھیں۔

اسی حوالے سے آثار قدیمہ کے سابق ڈائریکٹراور ماہر آثار قدیمہ قاسم علی قاسم نے تبصرہ کر تے ہو ئے کہا کہ رنچھوڑ لا ئن کو اس بات کا اعزاز حاصل تھا کہ سب سے زیادہ تعلیمی درسگاہوں کے ساتھ ساتھ پہلی لائبریری جسے نیٹو لائبریری کے نام سے جا نا جا تا تھا اسی علاقے میں قائم ہو ئی اور سندھ یو نیورسٹی کا قیام کا اعزاز بھی اسی علاقے کو حاصل ہوا نیز اس علاقے کو اس بات کا بھی اعزاز حاصل رہا کہ جب بھارت سے قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے سندھ کی جا نب ہجرت کی تو انہیں سندھ یو نیورسٹی اور اس کے ہاسٹل کی پرا نی بلڈنگوں میں نا صرف ٹہرا یا گیا بلکہ ان کی بھر پور طریقے سے مہمان نوازی بھی اسی علاقے کے مکینوں کے حصے میں آئی انہوں نے موجودہ جامعہ کراچی کے علاقے کو ایک قدیم ترین علاقہ قرار دیا ان کا کہنا یہ تھا کہ ما ضی میں جب یو نیورسٹی کے سامنے اور ایک کیمپس کے اطراف میں کھدائی کی گئی تو یہاں سے پتھر کے آخری دور کے اوزار اور نوادرات دریافت ہو ئے جس سے اس جگہ کی قدامت کا اندازا پتھر کے آخری دور سے لگا یا گیا مگر کیونکہ یہاں جامعہ کراچی کی تعمیرات ہو چکی تھی لہذا اس پر مزید تحقیق نہیں ہو سکی سندھ یو نیورسٹی کی تاریخ کے حوالے سے ایک ضعیف العمر شخص سید سخاوت الوری جو کہ شعبہ صحافت سے بھی تعلق رکھتے ہیں نے اپنے تجر بات کی روشنی میں بتا یا کہ رنچھوڑ لا ئن میں کراچی گرلز کا لج کی جگہ جہاں ما ضی میں سندھ یو نیورسٹی قائم تھی اس سے قبل وہاں ایک سر کا ری اسکول قائم تھا جس میں وہ تعلیم حاصل کر تے تھے مگر پھر اس اسکول کو سول ہسپتال کے عین سامنے کوتوال بلڈنگ کے اسکول منتقل کر دیا گیا جہاں انہوں نے بقیہ تعلیم حاصل کی انہوں نے کہا کہ ما ضی میں یہ کو ئی پر رو نق علاقہ نہیں تھا بلکہ یہاں بڑے بڑے میدان قائم تھے جہاں مہاجرین کو بسا یا گیا تھا جبکہ سول ہسپتال کا مر دہ خا نہ جو کہ آج اندر کی جا نب موجود ہے ما ضی میں ایک گول پتھروں کی عمارت جو کہ چاند بی بی روڈ پر ہی واقع تھا لہذا خوف کے باعث لوگ اس کے سامنے سے گزر نے سے بھی گھبراتے تھے ۔


متعلقہ خبریں


قومی اسمبلی ، 27ویں آئینی ترمیم منظور وجود - جمعرات 13 نومبر 2025

ترمیمی بل کو اضافی ترامیم کیساتھ پیش کیا گیا،منظوری کیلئے سینیٹ بھجوایا جائے گا،چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے بعد سپریم کورٹ اور آئینی عدالت میں جو سینئر جج ہوگا وہ چیف جسٹس ہو گا،اعظم نذیر تارڑ قومی اسمبلی نے 27ویں آئینی ترمیمی بل کی اضافی ترامیم کے ساتھ دو تہائی اکثریت سے منظو...

قومی اسمبلی ، 27ویں آئینی ترمیم منظور

18ویں ترمیم کسی کاباپ ختم نہیں کرسکتا، بلاول بھٹو وجود - جمعرات 13 نومبر 2025

اپوزیشن کا کام یہ نہیں وہ اپنے لیڈر کا رونا روئے،بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں تقریرکے دوران اپوزیشن اراکین نے ترمیم کی کاپیاں پھاڑ کر اڑانا شروع کردیں اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول بھٹو کی تقریر کے دوران اپوزیش...

18ویں ترمیم کسی کاباپ ختم نہیں کرسکتا، بلاول بھٹو

غزہ، اسپتال ملبے سے 35 ناقابل شناخت لاشیں برآمد وجود - جمعرات 13 نومبر 2025

اسرائیلی فوج کی جنگ بندی کی خلاف ورزی کا جاری، تازہ کارروائی میں مزید 3 فلسطینی شہید علاقے میں اب بھی درجنوں افراد لاپتا ہیں( شہری دفاع)حماس کی اسرائیلی جارحیت کی؎ مذمت اسرائیلی فوج کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ کارروائی میں غزہ میں مزید 3 فلسطینیوں ...

غزہ، اسپتال ملبے سے 35 ناقابل شناخت لاشیں برآمد

اسلام آباد کچہری کے باہر خودکش دھماکا( 12 افراد شہید، 30زخمی) وجود - بدھ 12 نومبر 2025

مبینہ بمبار کا سر سڑک پر پڑا ہوا مل گیا، سخت سیکیورٹی کی وجہ سے حملہ آور کچہری میں داخل نہیں ہوسکے، موقع ملنے پر بمبار نے پولیس کی گاڑی کے قریب خود کو اُڑا دیا،وکلا بھی زخمی ،عمارت خالی کرا لی گئی دھماکے سے قبل افغانستان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر کمنگ سون اسلام آبادکی ٹوئٹس،دھ...

اسلام آباد کچہری کے باہر خودکش دھماکا( 12 افراد شہید، 30زخمی)

27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی میں پیش،پی ٹی آئی ارکان کے نامنظور کے نعرے وجود - بدھ 12 نومبر 2025

  آپ کی سوچ اور ڈر کو سلام ، ترمیم کرکے سمجھتے ہو آپ کی سرکار کو ٹکاؤ مل جائیگا، وہ مردِ آہن جب آئیگا وہ جو لفظ کہے گا وہی آئین ہوگا، آزما کر دیکھنا ہے تو کسی اتوار بازار یا جمعے میں جا کر دیکھو،بیرسٹر گوہرکاقومی اسمبلی میں اظہارخیال ایم کیو ایم تجاویز پر مشتمل ...

27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی میں پیش،پی ٹی آئی ارکان کے نامنظور کے نعرے

نہتے پاکستانیوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دینگے، وزیراعظم وجود - بدھ 12 نومبر 2025

بھارتی پراکسیز کے پاکستان کے معصوم شہریوں پر دہشتگرد حملے قابل مذمت ہیں،شہباز شریف اسلام آباد ضلع کچہری کے باہر ہونے والے دھماکے کی مذمت، واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا وزیر اعظم شہباز شریف نے اسلام آباد ضلع کچہری کے باہر ہونے والے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہتے او...

نہتے پاکستانیوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دینگے، وزیراعظم

شیخ وقاص کے وارنٹ جاری، عمرایوب، زرتاج گل کا پاسپورٹ بلاک وجود - بدھ 12 نومبر 2025

دونوں رہنماؤں کے پاسپورٹ بلاک کر کے رپورٹ پیش کی جائے،تمام فریقین کوآئندہ سماعت کیلئے طلب کرلیا انسداد دہشت گردی عدالت میں پی ٹی آئی رہنماؤں کیخلاف 26 نومبر احتجاج سے متعلق مقدمات کی سماعت ہوئی اے ٹی سی کی جانب سے پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص کے وارنٹ جاری...

شیخ وقاص کے وارنٹ جاری، عمرایوب، زرتاج گل کا پاسپورٹ بلاک

نئی دہلی دھماکے نے تفتیشی اداروں کو اُلجھن میں ڈال دیا وجود - بدھ 12 نومبر 2025

کسی دھماکا خیز مواد کے ٹکڑے، بارودی مواد اور بارودی دھوئیں کے کوئی آثار نہیں ملے جائے وقوعہ پر نہ کوئی اسپلنٹر ملا، نہ زمین پھٹی،بھارتی پولیس افسر کی خودکش حملے کی تردید بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں لال قلعہ کے قریب ہونے والے دھماکے نے تفتیشی اداروں کو سخت اُلجھن میں ڈال د...

نئی دہلی دھماکے نے تفتیشی اداروں کو اُلجھن میں ڈال دیا

سینیٹ میں27 ویں ترمیم منظور ، اپوزیشن کا واک آؤٹ وجود - منگل 11 نومبر 2025

تمام 59شقوں کی شق وار منظوری، 64ارکان نے ہر بار کھڑے ہوکر ووٹ دیا،صدر مملکت کو تاحیات گرفتار نہ کرنے کی شق کی منظوری،کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکے گی فیلڈ مارشل کو قانونی استثنیٰ حاصل، وردی اور مراعات تاحیات ہوں گی،فیلڈ مارشل، ایٔر مارشل اور ایڈمرل چیف کو قومی ہیر...

سینیٹ میں27 ویں ترمیم منظور ، اپوزیشن کا واک آؤٹ

ستائیسویں ترمیم کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں(حافظ نعیم ) وجود - منگل 11 نومبر 2025

اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے والے نظام کے خاتمے کی جدوجہد، مینار پاکستان اجتماع سے شروع ہوگی کسی شخص کو عدالتی استثنیٰ غیر شرعی ہے،امیر جماعت اسلامی کااسلام آباد بار ایسوسی ایشن سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے ستائیسویں ترمیم کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے...

ستائیسویں ترمیم کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں(حافظ نعیم )

سینیٹ میں اپوزیشن کا احتجاج،چیئرمین ڈائس گا گھیراؤ وجود - منگل 11 نومبر 2025

بل کی کاپیاں پھاڑ کر فضاء میں لہرائیں، اپوزیشن کے نعرے،گرماگرم بحث چھڑ گئی سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور سینیٹر احمد خان نے پارٹی کی پالیسی کیخلاف بل کی حمایت کی سینیٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم پیش، اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور چیٔرمین ڈائس گا گھیراؤ کیا بل کی کاپیاں پھاڑ کر فضاء...

سینیٹ میں اپوزیشن کا احتجاج،چیئرمین ڈائس گا گھیراؤ

استثنیٰ شرمناک، اراکین پارلیمنٹ یہ گناہ اپنے سر نہ لیں، مفتی تقی عثمانی وجود - منگل 11 نومبر 2025

اسلام میں کوئی بھی شخص چاہے کتنے بڑے عہدے پر ہوعدالتی کارروائی سے بالاتر نہیں ہوسکتا اب تاحیات کسی کو یہ تحفظ دینا شریعت اور آئین کی روح کے بالکل خلاف ہے،معروف عالم دین معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ اسلام میں کوئی بھی شخص چاہے کتنے بڑے عہدے پر ہو کسی بھی وقت عد...

استثنیٰ شرمناک، اراکین پارلیمنٹ یہ گناہ اپنے سر نہ لیں، مفتی تقی عثمانی

مضامین
راہول گاندھی کے خلاف بی جے پی کی الزام تراشی وجود جمعرات 13 نومبر 2025
راہول گاندھی کے خلاف بی جے پی کی الزام تراشی

کشمیری اپنے ہی وطن میں بے روزگار وجود جمعرات 13 نومبر 2025
کشمیری اپنے ہی وطن میں بے روزگار

ہندوتوا کی آگ میں جلتا بھارت سیکولر ازم کا جنازہ وجود بدھ 12 نومبر 2025
ہندوتوا کی آگ میں جلتا بھارت سیکولر ازم کا جنازہ

27ویں ترمیم اور افواہیں وجود بدھ 12 نومبر 2025
27ویں ترمیم اور افواہیں

مسلمانوں کے لئے وندے ماترم ،غیر اسلامی فعل وجود بدھ 12 نومبر 2025
مسلمانوں کے لئے وندے ماترم ،غیر اسلامی فعل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر