وجود

... loading ...

وجود

استقبال کتب

اتوار 25 مارچ 2018 استقبال کتب

نام کتاب:نانگا پربت کا عقاب(سفر نامہ)
موضوع:سفر نامہ
مصنف:ندیم اقبال
ضخامت:320 صفحات
قیمت:800 روپے
ناشر:رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی
مبصر:مجید فکری
پیشِ نظر کتاب ندیم اقبال کے سفر نامہ سے متعلق ہے جسے خاصے اہتمام سے رنگ ادب پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ موصوف کی سفرنامے سے متعلق یہ پہلی تحریر ہے جو کتابی شکل میں پیش کی گئی ہے۔
چونکہ ندیم اقبال کی یہ پہلی کتاب ہے میں نے سمجھا کہ ان کی تحریر ناپختہ اور کچے پن کا شکار ہوگی مگر جب کتاب کی ورق گردانی کی تو پتہ چلا کہ یہ تو کوئی منجھاہوا لکھاری ہے اس کی تحریرمیں کہیں بھی تحریر کی ناپختگی، لوچ اور ذرہ بھر ٹوٹ پھوٹ نظر نہ آئی اور کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ وہ ایک نوآموز قلمکار ہیں۔ انہوں نے تو بڑی روانی اور آسانی سے اپنی نثر نگاری کا جوہر دکھایا ہے۔
مزید بر آں کتاب کے متعلق چند دوسرے حضرات کے تبصرے اور تجزیات بھی پڑھے۔ کتاب کے اندرونی فلیپ پر معروف سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کا مختصر مگر واضح لکھا ہو اتبصرہ بھی پڑھا وہ لکھتے ہیں کہ ’’نانگا پربت کے پہاڑ کے دامن میں جو لوگ رہائش پذیر ہیں ا س پہاڑ کو نانگا پربت نہیں کہتے بلکہ ’’جھل مگسی‘‘ کا نام دیتے ہیں جس کے معنی ’’سو چہروں والا پہاڑ‘‘ ہے۔‘‘یہی مستنصر حسین تارڑ نے ندیم اقبال کے اندازِ تحریر کی بھی کچھ اس طرح تعریف کی ہے کہ ’’ان کے بیان میں کچا پن نہیں ہے بلکہ بیان میں پختگی ہے کہیں بھی نو آموزی کی جھلک نہیں۔‘‘
اسی طرح کتاب کے اندرونی صفحات پر برلن۔ جرمنی سے سرور غزالی نے لکھا کہ ’’ندیم اقبال کی تحریر اس لحاظ سے مجھے منفرد لگی کہ انہوں نے جیتی جاگتی حقیقت کو ایک خوب صورت داستان کا روپ دے کر اسے دیو مالی کہانیوں کا سا حسن بخشا ہے ان کا انداز بیان خوب صورت اور لاجواب ہے۔‘‘جبکہ اقلیم علیم کا خیال ہے کہ ’’ندیم اقبال کے اپنے رنگ ڈھنگ میں لکھی ہوئی تحریر پڑھنے کے قابل ہے اور تفریح طبع کے ساتھ ساتھ بہت سی معلومات ملتی ہیں۔‘‘اس کے علاوہ بھی متعدد افراد نے ندیم اقبال اور اس کی کتاب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور انہیں دادِ تحسین اور مبارکباد پیش کی ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کے محمد عثمان جامعی، پرویز بلگرامی کے اظہاریے بھی کتاب کا حصہ ہیں جو کتاب کے اندرونی صفحات پر موجود ہیں۔
البتہ پیش نظر کتاب کے بیک فلیپ پر عذرا رسول صاحبہ مدیرہ سرگزشت ، ماہنامہ پاکیزہ، جاسوسی ڈائجسٹ اور سسپنس ڈائجسٹ کا ایک مختصر مگر ٹھوس اور جامع تبصرہ بھی موجود ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ ماہنامہ ’’سرگزشت میں صرف وہی تحریریں شامل ہوتی ہیں جن کے لکھنے والوں کی قلم پر پکڑ مضبوط ہو اور مطالعہ وسیع ہو۔ سفرناموں میں بھی معروف قلم کاروں ہی کو شامل کیا جاتا ہے۔علی سفیان آفاقی، قر علی عباسی، الطاف شیخ جیسے منجھے ہوئے قلم کاروں کو ہی اول ترجیح دی جاتی رہی ہے۔کیونکہ یہ تمام قلم کار سفر نامہ نگاری میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ سرگزشت کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی نئے قلم کار کا طویل سفر نامہ شاملِ اشاعت ہوا ہے۔‘‘
گویا اس بات کی تصدیق تو ہوگئی کہ ندیم اقبال پہلے سفر نامہ نگار ہی سہی لیکن ان کے قلم میں پختگی، برجستگی اور انفرادیت بھی ہے۔
لہٰذا میں ہرگز یہ نہیں کہوں گا کہ ان کی تحریر میں کسی قسم کا کوئی بھی عیب نہیں ہے لیکن جب میں نے کتاب میں شامل ان کی ’’اپنی بات‘‘ میں ان کا یہ لکھا دیکھا کہ انہوں نے یہ سفر نامہ شفیق الرحمٰن سے متاثر ہو کر اور ان کی تقلید کرتے ہوئے لکھا ہے تو یہ واضح ہوا کہ وہ شفیق الرحمٰن سے متاثر نظر آتے ہیں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ انہوںنے اپنے لکھے ہوئے سفرنامے میں ان کے انداز کو اپناتے ہوئے یہ کوشش کی ہے۔
مگر یہ ضرور ہے کہ ندیم اقبال نے ان کے سفرنامے سے کچھ چُرایا نہیں ہے۔ یہ ان کی اپنی تحریر اپنا تجربہ اوران کا اپنا اندازِ نگارش ہے:
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ،اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ جلد از جلد کچھ اور لکھیں گے اور ہم جیسے قارئین کو چونکا دیں گے۔ چونکہ یہ ان کی پہلی کتاب ہے اور جب ناقدین کرام اسے پڑھیں گے تب اندازہ ہوگا کہ وہ کتنے کامیاب سفر نامہ نگار ہیں…!
میں نے ان کا تحریر کردہ سفر نامہ بغور پڑھا ہے جس سے مجھے بڑی حیرت اور استعجاب ہو اکہ ایک پہلی دفعہ کا نثر نگار اتنے عمدہ اور بہترانداز میں لکھ سکتا ہے جو کہ بہت مشکل تھا اتنا مشکل کہ اپنا سفر نامہ سنانے سے بھی زیادہ پیچیدہ اور دشوار ہے۔
بہرحا ل یہ مرحلۂ دشوار ندیم اقبال نے سر کرلیا ہے۔بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے ’’نانگا پربت پہاڑ‘‘ کو سر کیا ہے۔ میں نے اوربھی کئی سفر نامہ نگاروںکو پڑھا اور ان پر اپنا بے لاگ تبصرہ بھی لکھا جنہوں نے سفر ناموں سے متعلق جہان ادب پر اپنی بے مثال کتابیں ترتیب دے لی ہیں۔ فی الحال جو سفر نامہ نگار اس موضوع پر اپنی کتابیں پیش کرچکے ہیں ان میں سے ایک شخصیت قیصر سلیم کی ہے جنہوں نے اچھوتے انداز میں بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ بدقسمتی سے وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی بے مثال کتب ابھی تک گردش میں ہیں جو انہوں نے امریکہ کے سفر کے دوران لکھیں اورا س کا عنوان بھی یہی تجویز کیا ’’امریکہ جیسا میں نے دیکھا جیسے میں نے جانا‘‘۔ اسی طرح ایک اور اہم شخصیت جو فاضل مصنف بھی ہیں شاعر بھی ہیں مقرر بھی ہیں او رماہرِ تعلیم بھی، وہ ہیں پروفیسر انوار احمد زئی، انہوں نے بیشتر سفر ناموں کا حال دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے ایک اور سفر نامہ نگار غالباً جس کا نام وجاہت حسین ہے اس کے سفر نامے کی روداد کافی عرصے تک اخبار جنگ کے صفحات پر چھپتی رہی اور اس نے 50 روپے میں دنیا دیکھ لی اخبار میں اس سرخی کے ساتھ نمایاں رہا ’’آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی‘‘اور مستنصر حسین تارڑ سے تو آپ سب واقف ہیں بلکہ وہ سفر نامہ نگاروں میں سرفہرست بھی ہیں۔
مستنصر حسین تارڑ نے ندیم اقبال کی کتاب کے بارے میں نامہ نگار کے بارے میں اورا س کی نثر نگاری کے بارے میں اپنا جامع تبصرہ کتاب کے اندرونی فلیپ پر رقم کردیا ہے۔
اب مزید اس سفر نامہ کے بارے میں اور اس کے نامہ نگار کے بارے میں کچھ اور نہیں کہا جاسکتا:
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار شجر سایہ دار راہ میں ہے
٭٭٭
نام کتاب:جدید غزل کا باب ظفر
مصنف:طارق ہاشمی
ضخامت:144 صفحات
قیمت: 300 روپے
ناشر:رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی
مبصر: مجید فکری
پیش نظر کتاب طارق ہاشمی نے معروف شاعر صابر ظفر کے بارے میں تصنیف کی ہے اور ابتدا ہی میں ان کے سات مضامین جو شاعر کے بارے میں ہیں اس کتاب میں شامل ہیں۔
میں نے مصنف کے یہ ساتوں مضامین پڑھے تو یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ اتنے عمیق، گہرائی اور گہرائی کے بعد یہ مضامین تخلیق کرنے کے بعد طارق ہاشمی نے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ صابر ظفر کے لئے مزید کچھ لکھا جائے۔
طارق ہاشمی کے تعارف اور ادبی حیثیت کا مختصر جائزہ کتاب کے بیک فلیپ پر طارق نظامی نے پیش کردیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’طارق ہاشمی‘‘ نے تخلیق کار ہونے کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کی عملی تنقید میں گزشتہ چند برسوں میں ایک فعال اور متحرک نقاد کے طور پر اپنی پہچان قائم کی ہے۔آپ نے جدید غزل اور جدید نظم کے عصری رویوں پر جم کر لکھا ہے اور فکری رجحانات کے ساتھ ساتھ اسلوب اور بیان کے تجربات پر بھی نظر کی ہے۔‘‘
گویا یہ کتاب صابر ظفر کے شعری ارتقاء کی ایک روداد ہے او رمصنف نے جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ انہوںنے اپنے پیش لفظ کے بعد 7 (سات) مضامین لکھے ہیں جو سب کے سب صابر ظفر کی شاعرانہ جہت اور شخصیت سے متعلق ہیں جو کہ ایک دستاویز کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔
اب آئیے صابر ظفر کی شاعرانہ کاوشوں پر نظر ڈالتے ہیں:
صابر ظفر جدید دور کا جدید شاعر ہے۔ اس کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہو کر دادِ تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ وہ ہر طور پر خود کو زمانے کے ساتھ چلنے والا ہم سفر ثابت کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہا ہے۔اُس نے ہر پرانے خیال کو بھی نئے سانچے میں ڈھال کر اپنی شاعرانہ انفرادیت کا ثبوت دیا ہے۔میں اسی کتاب میں شامل طارق ہاشمی کا ایک مضمون پڑھ رہا تھا انہوںنے میر تقی میرؔ کا ایک شعر اور پھر صابر ظفر کی جدت طرازی کے بعد لکھا ہوا ایک شعر نقل کیا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
میر تقی میرؔ:
یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
اب صابر ظفر کی اختراع دیکھیے:
دراصل نہیں ہے رنگ کوئی
سب اپنے خیال کی دھنک ہے
گویا پرانے مضمون کو نئے رنگ میں ڈھالنا بھی ان کے نزدیک ایک فن ہے اور صابر ظفر اس فن میں کمال رکھتے ہیں اور یہی جدید اندازِ فکر یا تخلیقی انداز شاعر کی پہچان میں شمار کیا جاتا ہے۔
صابر ظفر یقیناً ایک کامیاب شاعر ہے اور اس کی کامیابی کی دلیل یہ ہے کہ ناصر کاظمی اور شکیب جلالی کے بعدایک ایسا شاعر بھی موجود ہے جس کے کافی اشعار ضرب المثل کہلانے کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ بڑے دھیمے انداز میں بلکہ آسان الفاظ میں وہ با ت کہہ جاتا ہے جس کے لئے زمانے لگتے ہیں۔اس کااندازِ بیان سہل ممتنع کے ساتھ چلتا ہے اور وہ چھوٹی چھوٹی بحروں میں بڑی سے بڑی بات کہہ جاتا ہے اور پہلے شعر کے بعد دوسرے اس کے بعد تیسرے شعر بھی اس تسلسل کے ساتھ اُترتے چلے جاتے ہیں کہ جیسے دریا کی موجوں میں روانی ہوتی ہے۔اسی بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شاعری دراصل خیالات کے تسلسل ہی کا نام ہے۔اب اسے تقلیدی عمل کہا جائے یا کوئی اور نام دیا جائے۔اصل میں ہم وہی کچھ دُہرا رہے ہیں جو اس سے پہلے بھی موجود تھا مگر موجودہ نسل کو سمجھانا اور ان کی زبان میں پیش کرنا ایک مشکل ترین عمل ہے۔کیونکہ یہ دور الیکٹرانک میڈیا او رانٹر نیٹ کا دور ہے مگر صابر ظفر نے یہ فریضہ بڑی آسانی سے سرانجام دیا ہے اور ہر پرانی بات کو نئے انداز میں اپنی کوشش و کاوش سے پیش کیا ہے۔
میں یہ تو نہیں کہتا کہ صابر ظفر نے صرف پرانے خیالات اور قدیم شاعری کو جدید انداز میں ہی پیش کرنا اپنا وطیرہ یا طریقہ بنایا ہے ۔ اُس نے اپنی بھی شاعری اپنے ہی انداز میں پیش کرنے کی جہد کی ہے۔اُس نے اپنے ہی دور میں اپنے انداز کی شاعری کا ایک طویل ذخیرہ جمع کرلیا ہے جو وقتاً فوقتاً مجموعہ کی شکل میں ہمارے سامنے آتا رہتا ہے۔
صابر ظفر کے دیگر مجموعۂ ہائے غزل کا مطالعہ کیجئے تو وہ ہرنئے خیال کو پیش کرنے کے لئے نئی نئی بحریں اور زمینیں تلاش کرتا ہوا نظر آئے گا۔ جہاں کام چھوٹی اور مختصر بحر میں چل سکتا ہے وہاں انہی بحروں میں موزوں شعر نکالنے کی کوشش کرتا ہے وگرنہ بڑی بڑی بحریں بھی استعمال کرتا ہے۔ لیکن اس کی تخلیقی کاریگری کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے اسلوب ، طرزِ بیان اور سادگی و پُر کاری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔
کہتے ہیں کہ ابتدائی شاعری کے دور میں غالبؔپر مشکل پسندی کا بھوت سوار تھا جب اُن سے کہا جاتا کہ حضرت آسان زبان استعمال کیجیے تو فرماتے:
آساں لکھنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
یعنی آسان لکھنا ہی تو بڑی مشکل ہے۔ پھر ایک ایسادور آیا کہ بیدلؔ کے انداز میں شاعری کے لئے اصرار کیا جانے لگا تو غالبؔ فرمانے لگے:
رنگِ بیدلؔ میں ریختہ لکھنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے
مگر میں یہاں غالبؔ کو برسبیل تذکرہ کے طور پر لے آیا وگرنہ یہاں بات صرف صابر ظفر کے انداز و اسلوب پر ہورہی ہے جو اپنی شاعری آسان اور سہل انداز میں پیش کرنے کا عادی ہے اور یہی خوبی شاعر کی بڑی خوبی ہے۔ سہل ممتنع میں شعر کہنا اس کا پسندیدہ طرزِ عمل معلوم دیتا ہے۔ آپ اس کی تمام غزلوں میں سے ا گر سہل ممتنع کی بحروں میں کہے گئے اشعار تلاش کریں گے تو ان کی تعداد دیگر مشکل اور طویل بحروں میں کہے گئے اشعار کی تعداد سے کہیں زیادہ ہوگی۔لیکن مشکل بحروں میں بھی اس کا شعری سفر بڑی روانی سے دوڑتا ہے مثلاً ایک مشکل اور حوصلہ طلب کام’’رانجھا تخت ہزارے‘‘ کا ہے، یہ غزل’’ بحر، ترج مثمن محذوف اشترالصدر و ابتدا مضائف ‘‘ ہے۔
میں اپنے بیان مذکورہ میں کہہ چکا ہوں اس بیان کی تائید میں صابر ظفر کے یہ شعر پیش کردوں تو غیر مناسب نہ ہوگا۔
اسی گردشِ مہ و سال میں
کبھی آملو کسی حال میں
آزاد ہوں تجھ کو سوچنے میں
زنداں میں بھی شام ہے سہانی
اسی طرح اسی مجموعہ میں شامل پہلی غزل کا پہلا شعر شہرۂ آفاق حیثیت کا حامل :
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے
اگرچہ بولتا کوئی نہیں ہے
اسی طرح لاتعداد اشعار اور ایسے ہیں جو ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں:
کلام کرتا ہوا راستہ بناتا ہوا
گزر رہا ہوں میں اپنی فضا بناتا ہوا
ہماری جان ہے جانی تو جائے
مگر یہ دل کی ویرانی تو جائے
اک تری یاد رہ گئی باقی
جو تیرے بعد رہ گئی باقی
تو دیکھا آپ نے صابر ظفر کا سادہ، سلیس او رسہل ممتنع میں کہنے کا انداز! اب ذر اآگے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اُس نے اور کون کون سے رُخ اختیار کئے ہیں، اپنی شاعرانہ کاوش کے بطور یقیناً وہ اردو کی دیگر بحو ر میں بھی غلطاں ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ذرا اس کی رعایت لفظی کو ہی ملاحظہ کرلیجئے:
ترا بدن خطِ تعلیق کا تھا چشمہ کوئی
اسی کے نم سے ہمیشہ میں خود کو نم کرتا
اگر لکھے تو’’ خطِ استخواں ‘‘میں ایسے لکھو
کہ زندگی کی رمق خال خال ظاہر ہو
اوپر کے یہ دونوں شعر اس کی مشہور غزل ’’خطاطی‘‘ میں شامل ہیں جو غالباً 2009ء میں لکھی گئی۔ یہ ایک تخلیقی صلاحیت ہے اور صابر ظفر کی منفرد او ربے مثال جہت وگرنہ یہ فن اب خال خال ہی نظر آتا ہے مگر صابر ظفر نے اس بات کو بھی اپنے اشعار میں ملحوظ خاطر رکھا ہے کہ خطوں کے نام سے لُغت کا گماں نہ ہونے پائے اور وہ اس مقصد میں کامیاب دکھائی دیتا ہے اور ایسی غزلوں میں جہاں خطاطی سے وابستہ لفظیات کا ذکر کیا ہے تو ا س احتمال سے کہ لفظوں کی حرمت بھی اپنی جگہ قائم رہے اسی لیے وہ شاعرانہ سلیقے سے کام لیتے ہوئے لفظوں میں مزا، اور دلچسپی پیدا کرتا ہے مگر کہیں کہیں بھول چوک ہو بھی جاتی ہے وہ حرمت لفظی خواہ اشاروں کنائوں سے ہی کی گئی ہے آشکار ہوتی نظر آتی ہے۔ ذرا اس شعر کو دیکھئے جس میں عُریانیت کا شائبہ بھی موجود ہے:
میں دیکھتا رہا دو ’’نون‘‘ اس کے سینے پر
مگر نہ تذکرہ ان کا مِرے بیاں میں ہوا
اسے کہتے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں!
اسی فنِ خطاطی کے زمرے میں اپنے شعری وجدان کو مزید وسعت دے کر کہتا ہے:
جس طرح زیر کسی حرف کے نیچے ہو لگی
دل ترے قدموں تلے بے سروسامان ہے گم
اسی وسعت نگاری میں صابر ظفر ان کتبوں تک بھی پہنچ گیا جن سے تہذیب انسانی کی تاریخ کا بھی انکشاف ہوتا ہے:
بہت سے لوگوں نے چھوڑے محبتوں کے نقوش
خطوط ان کے ملے ہیں قدیم کتبوں سے
مگر یہ تمام مثالیں پیش کرنے سے میں کہیں اپنے پچھلے اظہاریے سے نہ ہٹ جائوں اسی شاعری کی طرف آتا ہوں جو روانی اور سیلِ رواں کے ساتھ آگے بڑھتی نظر آتی ہے :
غزل میں دیکھنا میری روانی
کبھی باڑہ، کبھی کُرم رہا ہوں میں
اب آئیے مصنف کے ’’اساطیر کم نما کی نمود‘‘ والے مضمون کی طرف۔ یہ طویل تو بہت ہے مگر اشعارِ ظفر سے اس کی معنویت او روضاحت کا پتہ چل جاتا ہے:
تجھے بھی سمجھوں اساطیر کم نما کا فسوں
کہ تو نہیں ہے تو میں کیوں تجھے تلاش کروں
پھر ’’یہ زبانِ غزل‘‘ میں صابر کا مزید استفسار دیکھئے:
یہ وہ غزل ہے کہ محشر ہی جس کا مقطع ہے
اسی کا نور ہے سب مطلعٔ ازل نے کہا
اس کے بعد بھی وہ غزل مسلسل کے نئے قرینے کے ساتھ کچھ اس طرح وارد ہوتا ہے:
ہو گیا ہے آرزو میں آرزو کرتا ہوا
ایک روح گم شدہ کی جستجو کرتا ہوا
مجھے اُمید ہے بلکہ یقینِ واثق کے ساتھ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ صابر ظفر نے شاعر ی کا کوئی ایسا موضوع نہیں چھوڑا کہ جس کے لئے اس سے اصرار کیا جائے کچھ اس پر بھی لکھو۔ وہ ایک مکمل اور مستند پختہ گو شاعر ہے اور میری گزارش ہے علم و دانش سے اور ناقدین عصر سے کہ وہ صابر ظفر کو ایک ممتاز شاعر ثابت کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
میں محترم طارق ہاشمی کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے لکھے ہوئے سات مضامین میں صابر ظفر کی عظمتِ شعری اور شہرتِ دوامی کے لئے کوئی گوشہ چھوڑا نہیں ہے میں ان کے ساتوں مضامین کے عنوانات درج کرتاہوں:
٭پیش لفظ،ابتدا سے آئینوں کی راہداریوں تک،ظفریاب غزل…چند اور پڑائو،غزل خطاطی کے شعری خطوط،اباسین کے کنارے پر،اساطیر کم نما کی نمود،بہ زبانِ غزل،غزل مسلسل کے نئے قرینے


متعلقہ خبریں


پی ٹی آئی کا سینیٹ میں ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان وجود - منگل 02 ستمبر 2025

جعلی انتخابات کا حصہ نہیں بنوں گی، پی ٹی آئی کا یہ فیصلہ دوٹوک پیغام ہے،اہلیہ سلمیٰ اعجاز سینیٹ میں اعجاز چوہدری کی خالی نشست کے انتخاب کا بائیکاٹ کیا جائے گا،پی ٹی آئی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے بعد سینیٹ کے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعل...

پی ٹی آئی کا سینیٹ میں ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان

ہم کالا باغ کی تعمیر کیلئے حصہ ڈالنے کیلئے تیار ہیں،وزیراعلیٰ گنڈا پور وجود - منگل 02 ستمبر 2025

دیگر صوبے بھی حصہ ڈالیں تاکہ منصوبہ ممکن ہوسکے، ڈیم نہ بننے کی وجہ سے بارشوں اور سیلاب سے اتنی زیادہ تباہی ہوئی ہے کالا باغ ڈیم ریاست کیلئے ضروری ہے ، جن کو تحفظات ہیں اُن سے بات کی جائے،پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ک...

ہم کالا باغ کی تعمیر کیلئے حصہ ڈالنے کیلئے تیار ہیں،وزیراعلیٰ گنڈا پور

افغانستان زلزلے میں زخمیوں کو بغیر ویزا پاکستان منتقل کیا جائے،(خیبرپختونخوا اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور) وجود - منگل 02 ستمبر 2025

صو بائی اور وفاقی حکومتیںادویات اور دیگر ضروری طبی سامان فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں روانہ کریں زلزلے میں جاں بحق افراد کیلئے دعائے مغفرت، پاکستان اخلاقی طور پر اپنی ذمہ داری نبھائے، قرارداد خیبرپختونخوا اسمبلی نے افغانستان میں زلزلے سے ہونے والے زخمیوں کو طبی امداد فراہم ک...

افغانستان زلزلے میں زخمیوں کو بغیر ویزا پاکستان منتقل کیا جائے،(خیبرپختونخوا اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور)

بھارت نے بڑا سیلابی ریلا چھوڑ دیا، بڑے سیلاب کا خدشہ وجود - پیر 01 ستمبر 2025

  بھارت نے سلال ڈیم کے تمام گیٹ کھول دیے ،پانی چھوڑنے کی باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی، پنجاب ہیڈ مرالہ کے مقام پر بڑے سیلاب کا خدشہ ، تریموں ہیڈ ورکس کے مقام پر پانی کی آمد میں مسلسل اضافہ سلال ڈیم کے گیٹ کھولنے سے 8لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا پاکستان پہنچے گا، پنجاب کے تین...

بھارت نے بڑا سیلابی ریلا چھوڑ دیا، بڑے سیلاب کا خدشہ

سندھ میں سُپر فلڈ کا خطرہ، مراد علی شاہ کی محکمہ آبپاشی کو الرٹ رہنے کی ہدایت وجود - پیر 01 ستمبر 2025

  9 لاکھ کیوسک کا ریلا بھی آیا تو کچے کا پورا علاقہ ڈوب جائے گا، لوگوں کا انخلا کریں گے ، انسانی زندگی اور لائیواسٹاک کا تحفظ ہماری ترجیح ہے ، کچے کے لوگوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے 8لاکھ سے 11لاکھ کیوسک پانی آئے گا ، اگر 9لاکھ کیوسک کا ریلا آیا تو شاہی بند کو خطرہ ہے ، ...

سندھ میں سُپر فلڈ کا خطرہ، مراد علی شاہ کی محکمہ آبپاشی کو الرٹ رہنے کی ہدایت

چینی ٹیکنالوجی قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے سودمند ثابت ہوگی ، وزیراعظم وجود - پیر 01 ستمبر 2025

  انٹرنیشنل میڈیکل سینٹر ، پاک چین جوائنٹ لیب منصوبوں کومزید فعال بنایا جائے، شہباز شریف وزیراعظم کی نیشنل ارتھ کوئیک سمیولیشن سینٹر میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ریسکیو ٹیکنالوجیز پر بریفنگ وزیر اعظم شہباز شریف نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے نمٹنے کے لیے قومی...

چینی ٹیکنالوجی قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے سودمند ثابت ہوگی ، وزیراعظم

پنجاب میں بارشیں، سیلاب متاثرین کی مشکلات میں اضافہ وجود - پیر 01 ستمبر 2025

چنیوٹ، وزیرآباد، گجرات، ننکانہ صاحب ، نارووال میں صورت حال مزید خراب دریاؤں میں طغیانی برقرار،پاکپتن، اوکاڑہ، وہاڑی، ملتان میں بھی بارش ریکارڈ پنجاب کے مختلف شہروں میں کئی گھنٹوں سے جاری موسلادھار بارش نے سیلاب میں ڈوبے متاثرین کی مشکلات میں اضافہ کر دیا، متعدد علاقے بجلی س...

پنجاب میں بارشیں، سیلاب متاثرین کی مشکلات میں اضافہ

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں ،14لاکھ افراد کی نقل مکانی، 1500 دیہات سیلاب کی لپیٹ میں ،اموات 30 ہوگئیں وجود - هفته 30 اگست 2025

  پنجاب کو 4دہائیوں کے تباہ کن سیلاب کا سامنا، سیکڑوں دیہات کو تہس نہس کر دیا اور اناج کی فصلیں ڈبو دیں،چناب سے بڑا سیلابی ریلہ جھنگ میں داخل، رواز برج کے قریب شگاف لگا دیا گیا،پی ڈی ایم اے ہر متاثرہ خاندان کو 10 لاکھ معاوضہ ملے گا،گھوٹکی میں سیکڑوں ایکڑ پر کھڑی گنا،کپ...

پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریاں ،14لاکھ افراد کی نقل مکانی، 1500 دیہات سیلاب کی لپیٹ میں ،اموات 30 ہوگئیں

فیلڈ مارشل کا سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ، متاثرین کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی وجود - هفته 30 اگست 2025

  سیلاب سے متاثرہ تمام مذہبی مقامات کو اصل حالت میں بحال کیا جائیگا، سیالکوٹ سیکٹر، شکرگڑھ، نارووال اوردربار صاحب کرتارپور کے علاقوں کا جائزہ لیا،سید عاصم منیر کی متاثرہ سکھ برداری سے ملاقات اقلیتوں اور ان کے مذہبی مقامات کا تحفظ ریاست اور اس کے اداروں کی ذمہ داری ، پا...

فیلڈ مارشل کا سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ، متاثرین کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی

وزیرِ اعظم کاسیلابی صورتحال پر اعلیٰ سطح کا اجلاس بلانے کا فیصلہ وجود - هفته 30 اگست 2025

  شہباز شریف نے آبی ذخائر کی تعمیر کی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا ، ورکنگ پیپر صوبائی حکومتوں سے شیٔر کیا جائیگا موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقت،مون سون کے اثرات سے بروقت نمٹنے کیلئے موثر پالیسی مرتب کرنے پر کام جاری وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کے احکامات پر موسمیاتی تبدیل...

وزیرِ اعظم کاسیلابی صورتحال پر اعلیٰ سطح کا اجلاس بلانے کا فیصلہ

امریکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سہولتیں فراہم کرنے کی یقین دہانی وجود - هفته 30 اگست 2025

محسن نقوی سے قائم مقام امریکی سفیر کی ملاقات، امریکا میں مطلوب پاکستانیوں کے حوالے سے تبادلہ خیال گفتگو میںبارڈر سکیورٹی، انسداد منشیات، کوسٹ گارڈز اور فرانزک کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق وزیر داخلہ محسن نقوی نے امریکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں ہر ممکن سہولتیں فراہم ک...

امریکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سہولتیں فراہم کرنے کی یقین دہانی

پاکستان کی نئی راکٹ فورس کمانڈ کا قیام،پاک فوج نے مودی سرکارکے مذموم جنگی عزائم خاک میں ملا دیے وجود - هفته 30 اگست 2025

  مودی کے بڑھتے جنگی جنون کے پیشِ نظر پاکستان نے یومِ آزادی پر آرمی راکٹ فورس کمانڈ کے قیام کا اعلان کیا ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کی کٹھ پتلی مودی سرکار کی جنگی جنونیت کیلئے مستقل ڈراؤنا خواب ہے،الجزیرہ رپورٹ پاکستان کی نئی راکٹ فورس کمانڈ کا قیام مودی سرکار ...

پاکستان کی نئی راکٹ فورس کمانڈ کا قیام،پاک فوج نے مودی سرکارکے مذموم جنگی عزائم خاک میں ملا دیے

مضامین
کچھ نیا ہونے والا ہے ؟ وجود منگل 02 ستمبر 2025
کچھ نیا ہونے والا ہے ؟

بھارتی ووٹر لسٹوں سے مسلمانوں کا اخراج وجود منگل 02 ستمبر 2025
بھارتی ووٹر لسٹوں سے مسلمانوں کا اخراج

روشن مثالیں وجود منگل 02 ستمبر 2025
روشن مثالیں

ہم اپنے مجرم آ پ ہیں! وجود منگل 02 ستمبر 2025
ہم اپنے مجرم آ پ ہیں!

نائب صدر کے انتخاب میں امیت شاہ کا سیلف گول وجود پیر 01 ستمبر 2025
نائب صدر کے انتخاب میں امیت شاہ کا سیلف گول

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر