وجود

... loading ...

وجود

استقبال کتب

اتوار 25 مارچ 2018 استقبال کتب

نام کتاب:نانگا پربت کا عقاب(سفر نامہ)
موضوع:سفر نامہ
مصنف:ندیم اقبال
ضخامت:320 صفحات
قیمت:800 روپے
ناشر:رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی
مبصر:مجید فکری
پیشِ نظر کتاب ندیم اقبال کے سفر نامہ سے متعلق ہے جسے خاصے اہتمام سے رنگ ادب پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ موصوف کی سفرنامے سے متعلق یہ پہلی تحریر ہے جو کتابی شکل میں پیش کی گئی ہے۔
چونکہ ندیم اقبال کی یہ پہلی کتاب ہے میں نے سمجھا کہ ان کی تحریر ناپختہ اور کچے پن کا شکار ہوگی مگر جب کتاب کی ورق گردانی کی تو پتہ چلا کہ یہ تو کوئی منجھاہوا لکھاری ہے اس کی تحریرمیں کہیں بھی تحریر کی ناپختگی، لوچ اور ذرہ بھر ٹوٹ پھوٹ نظر نہ آئی اور کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ وہ ایک نوآموز قلمکار ہیں۔ انہوں نے تو بڑی روانی اور آسانی سے اپنی نثر نگاری کا جوہر دکھایا ہے۔
مزید بر آں کتاب کے متعلق چند دوسرے حضرات کے تبصرے اور تجزیات بھی پڑھے۔ کتاب کے اندرونی فلیپ پر معروف سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کا مختصر مگر واضح لکھا ہو اتبصرہ بھی پڑھا وہ لکھتے ہیں کہ ’’نانگا پربت کے پہاڑ کے دامن میں جو لوگ رہائش پذیر ہیں ا س پہاڑ کو نانگا پربت نہیں کہتے بلکہ ’’جھل مگسی‘‘ کا نام دیتے ہیں جس کے معنی ’’سو چہروں والا پہاڑ‘‘ ہے۔‘‘یہی مستنصر حسین تارڑ نے ندیم اقبال کے اندازِ تحریر کی بھی کچھ اس طرح تعریف کی ہے کہ ’’ان کے بیان میں کچا پن نہیں ہے بلکہ بیان میں پختگی ہے کہیں بھی نو آموزی کی جھلک نہیں۔‘‘
اسی طرح کتاب کے اندرونی صفحات پر برلن۔ جرمنی سے سرور غزالی نے لکھا کہ ’’ندیم اقبال کی تحریر اس لحاظ سے مجھے منفرد لگی کہ انہوں نے جیتی جاگتی حقیقت کو ایک خوب صورت داستان کا روپ دے کر اسے دیو مالی کہانیوں کا سا حسن بخشا ہے ان کا انداز بیان خوب صورت اور لاجواب ہے۔‘‘جبکہ اقلیم علیم کا خیال ہے کہ ’’ندیم اقبال کے اپنے رنگ ڈھنگ میں لکھی ہوئی تحریر پڑھنے کے قابل ہے اور تفریح طبع کے ساتھ ساتھ بہت سی معلومات ملتی ہیں۔‘‘اس کے علاوہ بھی متعدد افراد نے ندیم اقبال اور اس کی کتاب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور انہیں دادِ تحسین اور مبارکباد پیش کی ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کے محمد عثمان جامعی، پرویز بلگرامی کے اظہاریے بھی کتاب کا حصہ ہیں جو کتاب کے اندرونی صفحات پر موجود ہیں۔
البتہ پیش نظر کتاب کے بیک فلیپ پر عذرا رسول صاحبہ مدیرہ سرگزشت ، ماہنامہ پاکیزہ، جاسوسی ڈائجسٹ اور سسپنس ڈائجسٹ کا ایک مختصر مگر ٹھوس اور جامع تبصرہ بھی موجود ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ ماہنامہ ’’سرگزشت میں صرف وہی تحریریں شامل ہوتی ہیں جن کے لکھنے والوں کی قلم پر پکڑ مضبوط ہو اور مطالعہ وسیع ہو۔ سفرناموں میں بھی معروف قلم کاروں ہی کو شامل کیا جاتا ہے۔علی سفیان آفاقی، قر علی عباسی، الطاف شیخ جیسے منجھے ہوئے قلم کاروں کو ہی اول ترجیح دی جاتی رہی ہے۔کیونکہ یہ تمام قلم کار سفر نامہ نگاری میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ سرگزشت کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی نئے قلم کار کا طویل سفر نامہ شاملِ اشاعت ہوا ہے۔‘‘
گویا اس بات کی تصدیق تو ہوگئی کہ ندیم اقبال پہلے سفر نامہ نگار ہی سہی لیکن ان کے قلم میں پختگی، برجستگی اور انفرادیت بھی ہے۔
لہٰذا میں ہرگز یہ نہیں کہوں گا کہ ان کی تحریر میں کسی قسم کا کوئی بھی عیب نہیں ہے لیکن جب میں نے کتاب میں شامل ان کی ’’اپنی بات‘‘ میں ان کا یہ لکھا دیکھا کہ انہوں نے یہ سفر نامہ شفیق الرحمٰن سے متاثر ہو کر اور ان کی تقلید کرتے ہوئے لکھا ہے تو یہ واضح ہوا کہ وہ شفیق الرحمٰن سے متاثر نظر آتے ہیں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ انہوںنے اپنے لکھے ہوئے سفرنامے میں ان کے انداز کو اپناتے ہوئے یہ کوشش کی ہے۔
مگر یہ ضرور ہے کہ ندیم اقبال نے ان کے سفرنامے سے کچھ چُرایا نہیں ہے۔ یہ ان کی اپنی تحریر اپنا تجربہ اوران کا اپنا اندازِ نگارش ہے:
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ،اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ جلد از جلد کچھ اور لکھیں گے اور ہم جیسے قارئین کو چونکا دیں گے۔ چونکہ یہ ان کی پہلی کتاب ہے اور جب ناقدین کرام اسے پڑھیں گے تب اندازہ ہوگا کہ وہ کتنے کامیاب سفر نامہ نگار ہیں…!
میں نے ان کا تحریر کردہ سفر نامہ بغور پڑھا ہے جس سے مجھے بڑی حیرت اور استعجاب ہو اکہ ایک پہلی دفعہ کا نثر نگار اتنے عمدہ اور بہترانداز میں لکھ سکتا ہے جو کہ بہت مشکل تھا اتنا مشکل کہ اپنا سفر نامہ سنانے سے بھی زیادہ پیچیدہ اور دشوار ہے۔
بہرحا ل یہ مرحلۂ دشوار ندیم اقبال نے سر کرلیا ہے۔بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے ’’نانگا پربت پہاڑ‘‘ کو سر کیا ہے۔ میں نے اوربھی کئی سفر نامہ نگاروںکو پڑھا اور ان پر اپنا بے لاگ تبصرہ بھی لکھا جنہوں نے سفر ناموں سے متعلق جہان ادب پر اپنی بے مثال کتابیں ترتیب دے لی ہیں۔ فی الحال جو سفر نامہ نگار اس موضوع پر اپنی کتابیں پیش کرچکے ہیں ان میں سے ایک شخصیت قیصر سلیم کی ہے جنہوں نے اچھوتے انداز میں بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ بدقسمتی سے وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی بے مثال کتب ابھی تک گردش میں ہیں جو انہوں نے امریکہ کے سفر کے دوران لکھیں اورا س کا عنوان بھی یہی تجویز کیا ’’امریکہ جیسا میں نے دیکھا جیسے میں نے جانا‘‘۔ اسی طرح ایک اور اہم شخصیت جو فاضل مصنف بھی ہیں شاعر بھی ہیں مقرر بھی ہیں او رماہرِ تعلیم بھی، وہ ہیں پروفیسر انوار احمد زئی، انہوں نے بیشتر سفر ناموں کا حال دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے ایک اور سفر نامہ نگار غالباً جس کا نام وجاہت حسین ہے اس کے سفر نامے کی روداد کافی عرصے تک اخبار جنگ کے صفحات پر چھپتی رہی اور اس نے 50 روپے میں دنیا دیکھ لی اخبار میں اس سرخی کے ساتھ نمایاں رہا ’’آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی‘‘اور مستنصر حسین تارڑ سے تو آپ سب واقف ہیں بلکہ وہ سفر نامہ نگاروں میں سرفہرست بھی ہیں۔
مستنصر حسین تارڑ نے ندیم اقبال کی کتاب کے بارے میں نامہ نگار کے بارے میں اورا س کی نثر نگاری کے بارے میں اپنا جامع تبصرہ کتاب کے اندرونی فلیپ پر رقم کردیا ہے۔
اب مزید اس سفر نامہ کے بارے میں اور اس کے نامہ نگار کے بارے میں کچھ اور نہیں کہا جاسکتا:
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار شجر سایہ دار راہ میں ہے
٭٭٭
نام کتاب:جدید غزل کا باب ظفر
مصنف:طارق ہاشمی
ضخامت:144 صفحات
قیمت: 300 روپے
ناشر:رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی
مبصر: مجید فکری
پیش نظر کتاب طارق ہاشمی نے معروف شاعر صابر ظفر کے بارے میں تصنیف کی ہے اور ابتدا ہی میں ان کے سات مضامین جو شاعر کے بارے میں ہیں اس کتاب میں شامل ہیں۔
میں نے مصنف کے یہ ساتوں مضامین پڑھے تو یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ اتنے عمیق، گہرائی اور گہرائی کے بعد یہ مضامین تخلیق کرنے کے بعد طارق ہاشمی نے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ صابر ظفر کے لئے مزید کچھ لکھا جائے۔
طارق ہاشمی کے تعارف اور ادبی حیثیت کا مختصر جائزہ کتاب کے بیک فلیپ پر طارق نظامی نے پیش کردیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’طارق ہاشمی‘‘ نے تخلیق کار ہونے کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کی عملی تنقید میں گزشتہ چند برسوں میں ایک فعال اور متحرک نقاد کے طور پر اپنی پہچان قائم کی ہے۔آپ نے جدید غزل اور جدید نظم کے عصری رویوں پر جم کر لکھا ہے اور فکری رجحانات کے ساتھ ساتھ اسلوب اور بیان کے تجربات پر بھی نظر کی ہے۔‘‘
گویا یہ کتاب صابر ظفر کے شعری ارتقاء کی ایک روداد ہے او رمصنف نے جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ انہوںنے اپنے پیش لفظ کے بعد 7 (سات) مضامین لکھے ہیں جو سب کے سب صابر ظفر کی شاعرانہ جہت اور شخصیت سے متعلق ہیں جو کہ ایک دستاویز کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔
اب آئیے صابر ظفر کی شاعرانہ کاوشوں پر نظر ڈالتے ہیں:
صابر ظفر جدید دور کا جدید شاعر ہے۔ اس کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہو کر دادِ تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ وہ ہر طور پر خود کو زمانے کے ساتھ چلنے والا ہم سفر ثابت کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہا ہے۔اُس نے ہر پرانے خیال کو بھی نئے سانچے میں ڈھال کر اپنی شاعرانہ انفرادیت کا ثبوت دیا ہے۔میں اسی کتاب میں شامل طارق ہاشمی کا ایک مضمون پڑھ رہا تھا انہوںنے میر تقی میرؔ کا ایک شعر اور پھر صابر ظفر کی جدت طرازی کے بعد لکھا ہوا ایک شعر نقل کیا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
میر تقی میرؔ:
یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
اب صابر ظفر کی اختراع دیکھیے:
دراصل نہیں ہے رنگ کوئی
سب اپنے خیال کی دھنک ہے
گویا پرانے مضمون کو نئے رنگ میں ڈھالنا بھی ان کے نزدیک ایک فن ہے اور صابر ظفر اس فن میں کمال رکھتے ہیں اور یہی جدید اندازِ فکر یا تخلیقی انداز شاعر کی پہچان میں شمار کیا جاتا ہے۔
صابر ظفر یقیناً ایک کامیاب شاعر ہے اور اس کی کامیابی کی دلیل یہ ہے کہ ناصر کاظمی اور شکیب جلالی کے بعدایک ایسا شاعر بھی موجود ہے جس کے کافی اشعار ضرب المثل کہلانے کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ بڑے دھیمے انداز میں بلکہ آسان الفاظ میں وہ با ت کہہ جاتا ہے جس کے لئے زمانے لگتے ہیں۔اس کااندازِ بیان سہل ممتنع کے ساتھ چلتا ہے اور وہ چھوٹی چھوٹی بحروں میں بڑی سے بڑی بات کہہ جاتا ہے اور پہلے شعر کے بعد دوسرے اس کے بعد تیسرے شعر بھی اس تسلسل کے ساتھ اُترتے چلے جاتے ہیں کہ جیسے دریا کی موجوں میں روانی ہوتی ہے۔اسی بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شاعری دراصل خیالات کے تسلسل ہی کا نام ہے۔اب اسے تقلیدی عمل کہا جائے یا کوئی اور نام دیا جائے۔اصل میں ہم وہی کچھ دُہرا رہے ہیں جو اس سے پہلے بھی موجود تھا مگر موجودہ نسل کو سمجھانا اور ان کی زبان میں پیش کرنا ایک مشکل ترین عمل ہے۔کیونکہ یہ دور الیکٹرانک میڈیا او رانٹر نیٹ کا دور ہے مگر صابر ظفر نے یہ فریضہ بڑی آسانی سے سرانجام دیا ہے اور ہر پرانی بات کو نئے انداز میں اپنی کوشش و کاوش سے پیش کیا ہے۔
میں یہ تو نہیں کہتا کہ صابر ظفر نے صرف پرانے خیالات اور قدیم شاعری کو جدید انداز میں ہی پیش کرنا اپنا وطیرہ یا طریقہ بنایا ہے ۔ اُس نے اپنی بھی شاعری اپنے ہی انداز میں پیش کرنے کی جہد کی ہے۔اُس نے اپنے ہی دور میں اپنے انداز کی شاعری کا ایک طویل ذخیرہ جمع کرلیا ہے جو وقتاً فوقتاً مجموعہ کی شکل میں ہمارے سامنے آتا رہتا ہے۔
صابر ظفر کے دیگر مجموعۂ ہائے غزل کا مطالعہ کیجئے تو وہ ہرنئے خیال کو پیش کرنے کے لئے نئی نئی بحریں اور زمینیں تلاش کرتا ہوا نظر آئے گا۔ جہاں کام چھوٹی اور مختصر بحر میں چل سکتا ہے وہاں انہی بحروں میں موزوں شعر نکالنے کی کوشش کرتا ہے وگرنہ بڑی بڑی بحریں بھی استعمال کرتا ہے۔ لیکن اس کی تخلیقی کاریگری کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے اسلوب ، طرزِ بیان اور سادگی و پُر کاری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔
کہتے ہیں کہ ابتدائی شاعری کے دور میں غالبؔپر مشکل پسندی کا بھوت سوار تھا جب اُن سے کہا جاتا کہ حضرت آسان زبان استعمال کیجیے تو فرماتے:
آساں لکھنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
یعنی آسان لکھنا ہی تو بڑی مشکل ہے۔ پھر ایک ایسادور آیا کہ بیدلؔ کے انداز میں شاعری کے لئے اصرار کیا جانے لگا تو غالبؔ فرمانے لگے:
رنگِ بیدلؔ میں ریختہ لکھنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے
مگر میں یہاں غالبؔ کو برسبیل تذکرہ کے طور پر لے آیا وگرنہ یہاں بات صرف صابر ظفر کے انداز و اسلوب پر ہورہی ہے جو اپنی شاعری آسان اور سہل انداز میں پیش کرنے کا عادی ہے اور یہی خوبی شاعر کی بڑی خوبی ہے۔ سہل ممتنع میں شعر کہنا اس کا پسندیدہ طرزِ عمل معلوم دیتا ہے۔ آپ اس کی تمام غزلوں میں سے ا گر سہل ممتنع کی بحروں میں کہے گئے اشعار تلاش کریں گے تو ان کی تعداد دیگر مشکل اور طویل بحروں میں کہے گئے اشعار کی تعداد سے کہیں زیادہ ہوگی۔لیکن مشکل بحروں میں بھی اس کا شعری سفر بڑی روانی سے دوڑتا ہے مثلاً ایک مشکل اور حوصلہ طلب کام’’رانجھا تخت ہزارے‘‘ کا ہے، یہ غزل’’ بحر، ترج مثمن محذوف اشترالصدر و ابتدا مضائف ‘‘ ہے۔
میں اپنے بیان مذکورہ میں کہہ چکا ہوں اس بیان کی تائید میں صابر ظفر کے یہ شعر پیش کردوں تو غیر مناسب نہ ہوگا۔
اسی گردشِ مہ و سال میں
کبھی آملو کسی حال میں
آزاد ہوں تجھ کو سوچنے میں
زنداں میں بھی شام ہے سہانی
اسی طرح اسی مجموعہ میں شامل پہلی غزل کا پہلا شعر شہرۂ آفاق حیثیت کا حامل :
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے
اگرچہ بولتا کوئی نہیں ہے
اسی طرح لاتعداد اشعار اور ایسے ہیں جو ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں:
کلام کرتا ہوا راستہ بناتا ہوا
گزر رہا ہوں میں اپنی فضا بناتا ہوا
ہماری جان ہے جانی تو جائے
مگر یہ دل کی ویرانی تو جائے
اک تری یاد رہ گئی باقی
جو تیرے بعد رہ گئی باقی
تو دیکھا آپ نے صابر ظفر کا سادہ، سلیس او رسہل ممتنع میں کہنے کا انداز! اب ذر اآگے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اُس نے اور کون کون سے رُخ اختیار کئے ہیں، اپنی شاعرانہ کاوش کے بطور یقیناً وہ اردو کی دیگر بحو ر میں بھی غلطاں ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ذرا اس کی رعایت لفظی کو ہی ملاحظہ کرلیجئے:
ترا بدن خطِ تعلیق کا تھا چشمہ کوئی
اسی کے نم سے ہمیشہ میں خود کو نم کرتا
اگر لکھے تو’’ خطِ استخواں ‘‘میں ایسے لکھو
کہ زندگی کی رمق خال خال ظاہر ہو
اوپر کے یہ دونوں شعر اس کی مشہور غزل ’’خطاطی‘‘ میں شامل ہیں جو غالباً 2009ء میں لکھی گئی۔ یہ ایک تخلیقی صلاحیت ہے اور صابر ظفر کی منفرد او ربے مثال جہت وگرنہ یہ فن اب خال خال ہی نظر آتا ہے مگر صابر ظفر نے اس بات کو بھی اپنے اشعار میں ملحوظ خاطر رکھا ہے کہ خطوں کے نام سے لُغت کا گماں نہ ہونے پائے اور وہ اس مقصد میں کامیاب دکھائی دیتا ہے اور ایسی غزلوں میں جہاں خطاطی سے وابستہ لفظیات کا ذکر کیا ہے تو ا س احتمال سے کہ لفظوں کی حرمت بھی اپنی جگہ قائم رہے اسی لیے وہ شاعرانہ سلیقے سے کام لیتے ہوئے لفظوں میں مزا، اور دلچسپی پیدا کرتا ہے مگر کہیں کہیں بھول چوک ہو بھی جاتی ہے وہ حرمت لفظی خواہ اشاروں کنائوں سے ہی کی گئی ہے آشکار ہوتی نظر آتی ہے۔ ذرا اس شعر کو دیکھئے جس میں عُریانیت کا شائبہ بھی موجود ہے:
میں دیکھتا رہا دو ’’نون‘‘ اس کے سینے پر
مگر نہ تذکرہ ان کا مِرے بیاں میں ہوا
اسے کہتے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں!
اسی فنِ خطاطی کے زمرے میں اپنے شعری وجدان کو مزید وسعت دے کر کہتا ہے:
جس طرح زیر کسی حرف کے نیچے ہو لگی
دل ترے قدموں تلے بے سروسامان ہے گم
اسی وسعت نگاری میں صابر ظفر ان کتبوں تک بھی پہنچ گیا جن سے تہذیب انسانی کی تاریخ کا بھی انکشاف ہوتا ہے:
بہت سے لوگوں نے چھوڑے محبتوں کے نقوش
خطوط ان کے ملے ہیں قدیم کتبوں سے
مگر یہ تمام مثالیں پیش کرنے سے میں کہیں اپنے پچھلے اظہاریے سے نہ ہٹ جائوں اسی شاعری کی طرف آتا ہوں جو روانی اور سیلِ رواں کے ساتھ آگے بڑھتی نظر آتی ہے :
غزل میں دیکھنا میری روانی
کبھی باڑہ، کبھی کُرم رہا ہوں میں
اب آئیے مصنف کے ’’اساطیر کم نما کی نمود‘‘ والے مضمون کی طرف۔ یہ طویل تو بہت ہے مگر اشعارِ ظفر سے اس کی معنویت او روضاحت کا پتہ چل جاتا ہے:
تجھے بھی سمجھوں اساطیر کم نما کا فسوں
کہ تو نہیں ہے تو میں کیوں تجھے تلاش کروں
پھر ’’یہ زبانِ غزل‘‘ میں صابر کا مزید استفسار دیکھئے:
یہ وہ غزل ہے کہ محشر ہی جس کا مقطع ہے
اسی کا نور ہے سب مطلعٔ ازل نے کہا
اس کے بعد بھی وہ غزل مسلسل کے نئے قرینے کے ساتھ کچھ اس طرح وارد ہوتا ہے:
ہو گیا ہے آرزو میں آرزو کرتا ہوا
ایک روح گم شدہ کی جستجو کرتا ہوا
مجھے اُمید ہے بلکہ یقینِ واثق کے ساتھ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ صابر ظفر نے شاعر ی کا کوئی ایسا موضوع نہیں چھوڑا کہ جس کے لئے اس سے اصرار کیا جائے کچھ اس پر بھی لکھو۔ وہ ایک مکمل اور مستند پختہ گو شاعر ہے اور میری گزارش ہے علم و دانش سے اور ناقدین عصر سے کہ وہ صابر ظفر کو ایک ممتاز شاعر ثابت کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
میں محترم طارق ہاشمی کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے لکھے ہوئے سات مضامین میں صابر ظفر کی عظمتِ شعری اور شہرتِ دوامی کے لئے کوئی گوشہ چھوڑا نہیں ہے میں ان کے ساتوں مضامین کے عنوانات درج کرتاہوں:
٭پیش لفظ،ابتدا سے آئینوں کی راہداریوں تک،ظفریاب غزل…چند اور پڑائو،غزل خطاطی کے شعری خطوط،اباسین کے کنارے پر،اساطیر کم نما کی نمود،بہ زبانِ غزل،غزل مسلسل کے نئے قرینے


متعلقہ خبریں


جماعت اسلامی کا ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان وجود - پیر 24 نومبر 2025

  آئندہ تین ماہ میں 25شہروں میں احتجاجی جلسے اور دھرنے کریں گے ، عوام کو منظم کرنے کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کو چند لوگوں کے ہاتھوں سے نجات دلائے گی، آئین کی بالادستی و تحفظ کیلئے تحریک چلائیں گے چند لوگوں کو ان کے منصب سے معزول کرکے نظام بدلیں گے ، عدلیہ کے جعلی ن...

جماعت اسلامی کا ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان

پی ٹی آئی کا 26 نومبر کو یوم سیاہ منانے کا اعلان وجود - پیر 24 نومبر 2025

عمران خان کی رہائی کے لیے اسلام آباد میں احتجاج پر تشدد کو ایک سال ہو گا پاکستان تحریک انصاف کی ریجنل تنظیمیں اضلاع کی سطح پر احتجاج کریں گی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پارٹی کے بانی عمران خان کی رہائی کے لیے اسلام آباد میں احتجاج پر تشدد کو ایک سال ہونے پر 26 نومبر کو...

پی ٹی آئی کا 26 نومبر کو یوم سیاہ منانے کا اعلان

افغانستان سے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ وجود - پیر 24 نومبر 2025

اسحٰق ڈار اور کایا کالاس کا کابل کی بگڑتی ہوئی سماجی و معاشی صورتحال پر اظہارِ تشویش ساتویں اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے موقع پر پاکستان اور یورپی یونین کا مشترکہ بیان پاکستان اور یورپی یونین (ای یو) نے ایک مشترکہ بیان میں افغانستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے کام کرنے والی ...

افغانستان سے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

غزہ، اسرائیلی فضائی حملوں میں مزید24فلسطینی شہید وجود - پیر 24 نومبر 2025

اسرائیلی خودکش ڈرون حملے میں 11فلسطینی شہید ،20زخمی ہوئے ،وزارت صحت غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں میں 24 فلسطینی شہید ہوگئے ۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔غزہ شہر کی ایک مصروف شاہراہ پر گاڑیوں پر اسرائیلی خودکش ڈرون حملے میں 11 ...

غزہ، اسرائیلی فضائی حملوں میں مزید24فلسطینی شہید

پیپلز پارٹی اداروں کی نجکاری کے عمل میں رکاوٹ قرار وجود - اتوار 23 نومبر 2025

پیپلز پارٹی ملک میں سرکاری اداروں کی نجکاری کے خلاف ہے،وفاقی وزیرسرمایہ کاری اتحادی جماعت الگ ہوتی ہے تو ہماری حکومت ختم ہو جائے گی،تقریب سے خطاب وفاقی وزیر و رہنما مسلم لیگ (ن) نے اداروں کی نجکاری (پرائیویٹائزشن) کے عمل میں اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو رکاوٹ قرار دے د...

پیپلز پارٹی اداروں کی نجکاری کے عمل میں رکاوٹ قرار

آئی ایم ایف کا ٹیکس نیٹ مزیدبڑھانے کا مطالبہ وجود - اتوار 23 نومبر 2025

کرپشن، ٹیکس چوری، حقیقی آمدن چھپانے کا کلچر اور پیچیدہ قوانین کم ٹیکس وصولی کی بڑی وجوہات ہیں، وفد نے حکومت کے ساتھ مذاکرات میں بجٹ تیاری میں ڈیٹا کے درست استعمال پر زور دیا بجٹ تیاری میں ڈیٹا کے درست استعمال، اور ضمنی گرانٹس کے آڈٹ سمیت مزید مطالبات ،جعلی رسیدوں کو ختم کرنے ک...

آئی ایم ایف کا ٹیکس نیٹ مزیدبڑھانے کا مطالبہ

معاشی بے ضابطگیوں پرآئی ایم ایف رپورٹ ،اپوزیشن اتحادنے تحقیقات کا مطالبہ کردیا وجود - اتوار 23 نومبر 2025

شہباز شریف کہتے تھے کرپشن کا ایک کیس بتا دیں، 5300 ارب کی کرپشن کرنے والوں پر مکمل خاموشی ہے، ہمیں ان لوگوں کی لسٹ فراہم کی جائے جنہوں نے کرپشن کی ،رہنما تحریک تحفظ آئین عمران خان کو ڈھکوسلے کیس میں قید کر رکھا ہے،48 گھنٹوں سے زائد وقت گزر گیا کسی حکومتی نمائندے نے آئی ایم ایف...

معاشی بے ضابطگیوں پرآئی ایم ایف رپورٹ ،اپوزیشن اتحادنے تحقیقات کا مطالبہ کردیا

سندھ ہائیکورٹ ، وکلاء اور پولیس اہلکار کے درمیان ہاتھا پائی وجود - اتوار 23 نومبر 2025

پولیس افسرسے نامناسب رویہ اختیار کیا گیا ، رجسٹرار کو لکھا جائیگا،ڈی آئی جی ساؤتھ ترمیم کیخلاف وکلاء کنونشن تنازع کا شکار،جنرل سیکریٹریز کا ہر صورت کرنے کا اعلان (رپورٹ:افتخار چوہدری)سندھ ہائی کورٹ کے باہر وکلاء اور پولیس اہلکار کے درمیان ہاتھا پائی ہو گئی۔اس حوالے سے ڈی آ...

سندھ ہائیکورٹ ، وکلاء اور پولیس اہلکار کے درمیان ہاتھا پائی

پورا پاکستان آئین پر حملے کیخلاف باہر نکلیں،اپوزیشن اتحاد کا یوم سیاہ پر احتجاج وجود - هفته 22 نومبر 2025

آئین کو توڑا گیا حلیہ بگاڑا گیا عوام پاکستان کے آئین کو بچائیں، آئی ایم ایف نے اعلان کیا ہے کہ یہ چوروں کی حکومت ہے اس حکومت نے 5 ہزار ارب روپے کی کرپشن کی ہے،محمود خان اچکزئی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی پیروکار بنی ہوئی ہے، آئین میں ترمیم کا فائدہ بڑی شخصیات کو ہوتا ہے،عمران کی رہا...

پورا پاکستان آئین پر حملے کیخلاف باہر نکلیں،اپوزیشن اتحاد کا یوم سیاہ پر احتجاج

دبئی ایئر شو کے دوران بھارتی جنگی طیارہ گرکر تباہ،پائلٹ ہلاک، مودی سرکار پھر رسوا وجود - هفته 22 نومبر 2025

طیارہ معمول کی فلائنگ پرفارمنس کیلئے فضا میں بلند ہوا، چند لمحوں بعد کنٹرول برقرار نہ رہ سکا اور زمین سے جا ٹکرایا، تیجس طیارہ حادثہ بھارت کیلئے دفاعی حلقوں میں تنقید و شرمندگی کا باعث بن گیا حادثے میں پائلٹ جان لیوا زخمی ہوا اور موقع پر ہی دم توڑ گیا، واقعہ کی تحقیقات کی جا رہی...

دبئی ایئر شو کے دوران بھارتی جنگی طیارہ گرکر تباہ،پائلٹ ہلاک، مودی سرکار پھر رسوا

کسی کو دھمکی نہیں دی، دھاندلی روکنے کے احکامات دیے، سہیل آفریدی وجود - هفته 22 نومبر 2025

میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر چلایا گیا، جب کچھ بولتے ہیں تو مقدمہ درج ہوجاتا ہے عمران خان سے ملاقات کیلئے عدالتی احکامات کے باوجود ملنے سے روکا جارہا ہے،میڈیا سے گفتگو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر چلایا گیا، میں نے ک...

کسی کو دھمکی نہیں دی، دھاندلی روکنے کے احکامات دیے، سہیل آفریدی

فتنہ الخوارج سے امریکی ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ برآمد وجود - هفته 22 نومبر 2025

سیکیورٹی فورسز نے کے پی میں کارروائیاں، امریکی ساختہ اسلحہ اور جدید آلات برآمد دہشت گرد گروہ پاکستان کیخلاف کارروائیوں میں استعمال کر رہے ہیں،سیکیورٹی ذرائع سیکیورٹی فورسز نے کے پی میں کارروائیاں کرتے ہوئے فتنہ الخوارج سے امریکی ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ برآمد کرلیا۔تفصیلات کے...

فتنہ الخوارج سے امریکی ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ برآمد

مضامین
استنبول میں غزہ عالمی ٹریبونل کی سماعت وجود پیر 24 نومبر 2025
استنبول میں غزہ عالمی ٹریبونل کی سماعت

بھارتی فضائیہ کو ایک اور دھچکا وجود پیر 24 نومبر 2025
بھارتی فضائیہ کو ایک اور دھچکا

بھارتی شہریوں کیلئے ایران میں پابندیاں وجود اتوار 23 نومبر 2025
بھارتی شہریوں کیلئے ایران میں پابندیاں

بھارتی دفاعی کمزوری بے نقاب ایئر شو میں ناکامی وجود اتوار 23 نومبر 2025
بھارتی دفاعی کمزوری بے نقاب ایئر شو میں ناکامی

عہدِ حاضر میں برداشت، امن اور ہم آہنگی کی ضرورت وجود هفته 22 نومبر 2025
عہدِ حاضر میں برداشت، امن اور ہم آہنگی کی ضرورت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر