وجود

... loading ...

وجود
وجود

راؤ انوار کی طاقت

هفته 17 فروری 2018 راؤ انوار کی طاقت

ملزم، فریق ، درخواست گزار کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، عدالت عظمٰی میں داخلے کا ایک پروٹوکول ہے۔ شاہراہ دستور پر عدالت عظمیٰ کے دو مرکزی دروازے ہیں۔ ایک سے جج صاحبان داخل ہوتے ہیں، دوسرا مرکزی دروازہ بند رہتا ہے۔ اس بند رہنے والے دروازے کے ساتھ جڑے کمرے میں لگے سیکورٹی سسٹم سے گزر کر ہی کوئی بھی ملزم ، فریق، درخواست گزار یا وزیٹر اپنی شناخت، داخلے کے مقصد کا ثبوت دکھانے، پاس ملنے اور تلاشی دینے کے بعد ہی سپریم کورٹ میں داخل ہو سکتا ہے۔ اگر کسی وزیر، بڑے سے بڑے افسر ، بڑی سے بڑی شخصیت نے بھی سپریم کورٹ داخل ہونا ہے تو اس کمرے سے تمام مراحل سے گزر کر گلے میں پاس لٹکا کر ہی داخل ہونا ہے۔ حتیٰ کہ وزیر داخلہ جو کہ اسلام آباد پولیس کے باسز کا بھی باس ہے، ایک عام پولیس اہلکار کو تلاشی دے کر گزرتاہے۔ تیسرا دروازہ سپریم کورٹ کی پارکنگ میں کھلتا ہے جہاں سے صرف سپریم کورٹ کے وکلا اور صحافیوں  کوآنے کی اجازت ہے۔ سپریم کورٹ میں جب پناما کیس، عمران خان اہلیت کیس جیسے اہم مقدمات کی سماعت ہوتی تھی تو پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد عدالت عظمیٰ کے باہر اور اندر تعینات ہوتی تھی تاکہ کارکن بدمزگی پیدا نہ کرسکیں۔ ان بیسیوں پولیس اہلکاروں کی نگرانی سپریم کورٹ میں تعینات ایس پی لیول کا افسر کرتا ہے۔ یہاں کوئی وی آئی پی نہیں ،،، یہاں پولیس افسر وزیر کو بھی سیلوٹ نہیں کرتا۔  ملزم تو دور کی بات کسی بڑی شخصیت کے ساتھ آئی  سیکورٹی پارکنگ سے آگے نہیں جا سکتی۔ اگر صحیح معنوں میں کوئی سسٹم اور رٹ کہیں نظر آتی ہے تو وہ سپریم کورٹ کی عمارت ہے۔

اب آج کی صورتحال ملاحظہ فرمائیں۔ نقیب اللہ قتل کیس کے ملزم راؤ انوار، جن کے خط پر عدالت نے فیئر ٹرائل کیلئے آزاد جے آئی ٹی بنانے کا آپشن دیا اور انہیں گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا، کے لیے وی وی آئی پی سیکورٹی تعینات تھی۔ سپریم کورٹ کے باہر اور اندر بیسیوں اہلکار چوکس کھڑے تھے ، معلوم ہو رہا تھا کہ مقدمہ یا ملزم ہائی پروفائل ہے۔ سپریم کورٹ میں ایس پی سطح کا افسر اہم سے اہم کیس میں سیکورٹی کی نگرانی کرتا ہے مگر آج ڈی آئی جی سیکورٹی ، ڈی آئی جی آپریشنز، ایس پی سٹی، سیکورٹی کے امور کا جائزہ لے رہے تھے۔ آئی جی اسلام آباد سلطان اعظم تیموری بھی اس مقدمے کی سماعت میں پیش ہونے کیلئے پہنچے مگر واضح رہے کہ یہ افسران  اپنے آئی جی کیلئے نہیں بلکہ ایک ملزم اور معطل ایس ایس پی کی سیکورٹی کیلئے موجود تھے۔ پھر بھی میں نے سوچا کہ یہ بڑی بات نہیں کیونکہ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ راؤ انوار کو سیکورٹی فراہم کی جائے۔ مگر میری حیرت میں اس وقت اضافہ ہوا جب میں نے داخلی راستے پر سوٹ میں ان کمانڈوز کو دیکھا جنہیں کلوز پروٹیکشن ٹیم کہا جاتا ہے۔ یہ کلوز پروٹیکشن ٹیم صدر مملکت، وزیر اعظم، ریاست کے مہمانوں کی وی وی آئی پی سیکورٹی کیلئے ہوتی ہے۔ جانی پہچانی شکلوں کو دیکھ کر پوچھا آپ لوگ کیوں کھڑے ہیں تو بتایا کہ آج وی وی آئی پی شخصیت کی آمد ہے آپ بھی یہاں کھڑے نہ ہوں۔ میں کمرہ عدالت پہنچا تو معلوم ہوا کہ راؤ انوار کا انتظار ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تھوڑی دیر تک انتظار کر لیتے ہیں اور سماعت کچھ دیر کیلئے ملتوی کر دی گئی۔ مختصر انتظار کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ جن کی سیکورٹی کیلئے اسلام آباد پولیس نے اتنا انتظام کیا ہے وہ نہیں آئے۔ آئی جی سندھ نے بتایا کہ راؤ انوار نے چند روز قبل انہیں واٹس ایپ کال کی  اور کہا کہ وہ آئیں گے ،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خط انہوں نے ہی لکھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ راؤ انوار پیش نہیں ہوئے انہوں نے موقع ضائع کر دیا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ راؤ انوار کو عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جاتا ہے، راو انوار کے تمام اکاونٹس منجمد کرنے کا حکم دے دیا گیا،، راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم واپس لے لیا گیا۔خفیہ اداروں کو راؤانوار کی گرفتاری کیلئے سندھ پولیس سے تعاون کا حکم دے دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی شخص قانون سے بھاگ نہیں سکتا ،،، ملزم نے ایک دن پکڑے ہی جانا ہوتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ راؤ انوار اس معاملے میں بے قصورہوں ، بلکہ آج سندھ پولیس کے ایک اعلیٰ ترین افسر مجھ سے بات کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ راؤ انوار پیش نہ ہو کر معاملے کو خود مشکوک بنا رہے ہیں، وہ پولیس مقابلے کے موقع پر موجود نہیں تھے، انہیں پیش ہو کر اپنی بے گناہی ثابت کرنی چاہئیے۔تاحال گرفتار نہ ہونا راؤ انوار کی  طاقت ہے یا خوف، سندھ پولیس کی بے بسی ہے یا طرف داری،  چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس اور عدالتی حکم کو دیکھ کر امید کی جا سکتی ہےکہ  ملزم انصاف کے کٹہرے سے زیادہ دیر تک بھاگ نہیں سکتا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

فری فری فلسطین فری فری فلسطین!! وجود منگل 07 مئی 2024
فری فری فلسطین فری فری فلسطین!!

تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت وجود منگل 07 مئی 2024
تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت

کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر