وجود

... loading ...

وجود
وجود

جے یو آئی حزب اختلاف و اقتدار دونوں میں

جمعه 16 فروری 2018 جے یو آئی حزب اختلاف و اقتدار  دونوں میں

ہفتہ بیس جنوری کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلا ول بھٹو زرداری نے کراچی سے متصل بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔یہ بلاول بھٹو کا بلوچستان میں پہلا جلسہ تھا۔ پچھلے سال جون میں کو ئٹہ میں پارٹی پروگرام میں شریک ہوئے تھے۔ پیش ازیں سول ہسپتال سانحہ کے بعد آئے تھے اور محض ذرائع ابلاغ سے بات چیت کی تھی ۔ بلاول بھٹو کا یہ جلسہ ایسے وقتوں میں منعقد ہوا کہ جب بلوچستان میں نواب زہری، پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی اقتدار سے بے دخل کر دی گئی تھیں ۔ اس بے دخلی میں آصف علی زرداری کا ہاتھ بھی شامل بتایا جا رہا ہے ۔در اصل آصف علی زرداری کی نگاہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات پر ہے ۔مارچ 2015ء کے سینیٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی آزاد امیدوار یوسف بادینی کو کامیاب کرانے میں کامیاب ہوئی ۔ جو بعد میں پیپلز پارٹی سے وابستہ ہو گئے ۔ گویا بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا ایک بھی رکن نہیں ہے اس کے باوجود آصف علی زرداری ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ۔

مختار سومرو مارچ 2015ء کے الیکشن میں کوئٹہ آئے تھے اور حالیہ عدم اعتماد کی تحریک یعنی نواب زہری کی حکومت کے خاتمے کے وقت بھی قیوم سومرو کوئٹہ میں ہی تھے بلکہ وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے شانہ بشانہ دکھائی دئیے ۔ اس شخص نے اپنی شناخت پوشیدہ نہیں رکھی ۔اگرچہ پیپلز پارٹی نے سینیٹ انتخابات میں بلوچستان سے کسی کو ٹکٹ جاری نہیں کیا،پارٹی آزاد امیدواروں کے لیے کام کرے گی ۔بلوچستان اسمبلی میں ن لیگ کا ووٹ بینک تتر بتر ہو گیا ہے۔لہذ اقوی امکان ہے کہ آنے والے الیکشن میں پیپلز پارٹی بلوچستان سے سینیٹ کی مزید نشستیں حاصل کر لے گی ۔

قیاس کیا جاتا ہے کہ ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کا بازار بھی خوب گرم ہو گا۔باغی لیگی ارکان کے سروں پرآصف علی زرداری کا دست شفقت موجود ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پچیس جنوری کو عبدالقدوس بزنجو کی معیت صوبے کی پوری کابینہ نے وزیر اعلیٰ ہائوس کراچی میں آصف علی زرداری سے ملاقات کی ۔ آصف علی زرداری ہاتھ کے بڑے کھلے ہیں وہ بلوچستان کے اراکین اسمبلی پر اپنی خاص عنایتیں ضرور کریں گے۔بلوچستان حکومت کے دھڑن تختہ کی وجوہات میں ایک سینیٹ انتخابات کے نتیجے پر اثر انداز ہونا بھی تھا۔تاکہ مسلم لیگ نواز کو ملنے والی متوقع نشستیں ہتھیا لی جائیں۔ ملک کے عوام ایک انہونی تو دیکھ چکے ہیں۔چناں چہ 3مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں بلوچستان سے دوسری انہونی بھی ضرور دیکھنے کو ملے گی ۔

بلوچستان حکومت کی تبدیلی کی خاطر جمعیت علمائے اسلام ف اور دوسرے اراکین نے اپنی شرائط کی بنیاد پر باغیوں کا ساتھ دیا۔ حیرت ہے کہ جمعیت علمائے اسلام ف اب تک حز ب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھی ہے۔ فریب کا لبادہ اُوڑھ رکھا ہے ۔حقیقت میںترقیات و منصوبہ بندی کا محکمہ جے یو آئی کے تصرف میں دیا گیا ہے ۔ترقیاتی فنڈز کی منظوری اس محکمے سے ہوتی ہے جس کو چلانے میں حز ب اختلاف کے قائد مولانا عبدالوسع کو طویل تجربہ ہے ۔مولانا کو اس محکمے کی اہمیت کا اندازہ ہے اور اس کی لذتوں سے بھی آشنا ہیں۔ 2002ء سے 2008کی اسمبلیوں تک یہ وزارت مولانا عبدالوسع کے پاس رہی ہے ۔ نواب زہری کی حکومت میں یہ محکمہ پشتونخوا میپ کے ڈاکٹر حامد اچکزئی کے پاس تھا۔ جونہی نئی حکومت بنی اُدھر مولانا عبدالوسع نے من پسند آفیسروں کو تعینات کروایا۔ اپنے ایک سابق پی ایس انعام اللہ کاکڑ جو کہ پی اینڈ ڈی ہی کے ملازم ہیں کو چیف آف پروگرامنگ کی اہم پوسٹنگ دی گئی ۔ یہ شخص پشتونخوا میپ کی حکومت میں زیر عتاب رہا ہے ۔ اس محکمے میں مولانا نے مزید بھی تبادلے اور تعیناتیاں کر رکھی ہیں۔دوسرا جے یو آئی نے اپنی جماعت کے ایک وکیل رئوف عطاء ایڈوکیٹ کو ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان مقرر کرایا۔ گویا جے یو آئی بالواسطہ بلوچستان حکومت کا حصہ ہے ۔حزب اختلاف کی نشستوں پر ان کا براجمان رہنا محض ایک سیاسی شوشا ہے۔گویا جے یو آئی نے بیک وقت حزب اختلاف و حزب اقتدار میں رہنے کی ملک کی سیاسی تاریخ میں نئی مثال رقم کر دی ۔

نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی خالد لانگو نے اپنی ہی حکومت کے مخالفین کی قطار میں شامل ہونے اور اس عمل کے لیے اپنی جماعت اور نواب زہری سے گلو ں اور شکووں کی لمبی فہرست پیش کر دی تھی ۔سو دیگر در پردہ تعاون سمیت اپنی چھوٹے بھائی ضیاء لانگو کو مشیر برائے خوراک بنوایا۔ ن لیگ کے سردار صالح بھوتا نی نے اپنے بیٹے شہزاد صالح بھو تانی کو محکمہ سماجی بہبود و ترقی اور خواتین کا معاون تعینات کروایا۔ حکومت کے سابق ترجمان انوار الحق کاکڑ وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات لیے گئے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے کہدہ بابر گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مشیربنائے گئے ۔ پشتونخوا میپ کے منحرف رکن منظور احمد کاکڑ بھی محکمہ ریونیو کا قلمدان دے کرکابینہ میں شامل کر لیے گئے ۔ منظور کاکڑ نے 2013ء کے انتخابات سے قبل پشتونخوا میں شمولیت اختیار کر لی تھی ۔ پارٹی ٹکٹ پر حلقہ پی بی 6سے کامیاب ہو گئے تھے ۔ پشتونخوا میپ نے مارچ 2015ء کے سینیٹ انتخابات میں ان پر ووٹ فروخت کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ بقول منظور کاکڑ کے پارٹی رہنمائوں بشمول محمود خان اچکزئی مسلسل ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتے رہے ۔ مشکلات پیدا کی جاتیں یہاں تک کہ اُنہیں اپنے فنڈز کو استعمال کرنے کا اختیار تک حاصل نہیں تھا۔ یقینی طور پر منظور کاکڑ کے لیے پشتونخوا میپ کے فیصلوں اور ان کے نظم و ضبط کے پابند ی مشکل عمل تھا۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پشتونخوا میپ سخت گیر افراد کے ہاتھ میں ہے ، بے لچک قسم کی جماعت ہے جس کی اپنی خامیوں پر نگاہ ہی نہیں۔منتقم مزاج ہے۔منتقم
مزاجی جے یو آئی بلوچستان میں بھی موجود ہے۔ گویا پشتونخوا میپ نرگسیت کی شکار جماعت ہے ۔

نئی کابینہ نے اپنے چوبیس جنوری کے اجلاس میں تحصیل لہڑی کو پھر سے ضلع سبی میں شامل کرانے کا فیصلہ کیا۔ یعنی ضلع سبی کی اکیس مئی 2013ء سے قبل کی حیثیت بحال کرنے کی منظوری دی ۔ 2013ء میں جب حکومت بنی تو لہڑی کو سبی سے جدا کر کے الگ ضلع کا درجہ دیا گیا۔ ایسا پشتونخوا میپ کی خواہش اور سبی کے عوام کے مطالبے پر کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد ایک بار پھر سبی میں سیاسی، سماجی و قبائلی سطح پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ کابینہ کا یہ فیصلہ الیکشن کے فیصلے کے خلاف بھی گردانا جاتا ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کی صدارت میں بائیس دسمبر 2017ء کو اجلاس ہوا تھا جس میں انتخابی حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کی نظر ثانی کے حوالے سے فیصلے کئے گئے تھے ۔ یہ فیصلہ بھی شامل تھا کہ تمام اضلاع کے ریونیو حدود بائیس دسمبر 2017ء سے منجمد کر دئیے گئے ہیں اور اس تاریخ کے بعد ان یونٹس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی ۔ تاکہ حلقہ بندی کا عمل احسن طریقے سے مکمل کیا جا سکے ۔اس اجلا س میں چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز، سیکرٹریز شماریات،صوبائی الیکشن کمشنرز اور دوسرے حکام شریک تھے ۔چناں چہ تحصیل لہڑی کا دوبارہ ضلع سبی میں شامل کیا جانا الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے ۔پشتونخوا میپ تاحال حکومت کے خاتمے کے صدمے سے باہر نہیں نکلی ہے۔ مختلف فورمز سے سازشوں کے الزامات عائد کرتی ہے۔
محمود خان اچکزئی نے اسلام آباد میں ہونے والے آل پختون جرگہ یعنی دھرنے سے چھ فروری دو ہزار اٹھارہ کو اپنے خطاب
میں بلوچستان میں حکومت کے خاتمے کا ذکر بھی کیا ۔حساس ادارے پر الزام عائد کیاکہ بلوچستان میں ایک منتخب حکومت گرادی گئی۔اور کہا کہ’’ محترم چیف جسٹس صاحب نے بار بار یہ بیان دیا ہے کہ ہم آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت ہو، پارلیمان پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ ہو،یہ بات محترم آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے دو بار کہی ہے کہ وہ جمہوریت اور آئین کے طرفدار ہیں اور کسی قسم کی سیاست میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔محمود خان اچکزئی نے برملا کہا کہ’’ یہ بات ا ظہر من الشمس ہے کہ حساس ادارے کے ایک بریگیڈئیر نے یہ سارا ڈرامہ رچایا ہے‘‘۔ محمود خان اچکزئی نے اس دھرنے میں مطالبہ کیا کہ’’ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سول انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس پر مشتمل کمیٹی بنا کر بلوچستان حکومت گرانے کی تحقیقات کرائیں‘‘ ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر