وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا نئے صوبے انتظامی ضرورت ہیں؟

جمعه 16 فروری 2018 کیا نئے صوبے انتظامی ضرورت ہیں؟

مشرقی پاکستان کو ہمارے فوجی آمر یحییٰ، بیورو کریٹوں اور مغربی پاکستان میں زیادہ سیٹیں جیت جانے والے مسٹر بھٹو کی اقتداری بندر بانٹ پر ضدوں نے ہاتھ سے گنوادیا اور 1970کے انتخابات میں کلی اکثریت حاصل کرنے والے مجیب کو اقتدار منتقل نہ کیا گو اس سے قبل بھی ہمارے حکمرانوں اور بیورو کریٹوں نے مشرقی پاکستانیوںکوان کا حصہ بقدر جسہ نہ دینے کا ایسا تاثر قائم کردیا تھا کہ مشرقی پاکستان کے عوام تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو محرومیوں کا شکار سمجھتے تھے پھر مخلوط طریق انتخاب کی وجہ سے 1970کے انتخابات میں مشرقی پاکستان کے رہائشی ہندوئوں نے (جو کہ ہر حلقہ انتخاب میں14تا43فیصد تک بھی موجود تھے ) سبھی ووٹ مجیب کو دے ڈالے کہ وہ ان کے ناپاک مقصد ملک توڑنے کے لیے آلۂ کار بن سکتا تھا ۔

ہندوئوں نے تعلیمی اداروں میں ایسا غلیظ پراپیگنڈا کیا کہ مشرقی پاکستانی اپنے آپ کو اقتدار سے محروم سمجھنے لگ گئے، اس وقت مشرقی پاکستان کے علاوہ مغربی پاکستان کے صرف چار صوبے موجود تھے ۔پاکستان بنتے وقت ہمارے ملک کے 16صوبے بشمول انتظامی ریاستیں موجود تھیں۔پنجاب میں دو صوبے لاہور اور بہاولپور تھے ۔ کوئٹہ ،قلات ،لسبیلہ اور مکران بلوچستان کے چار صوبے /اسٹیٹس تھیں۔مشرقی پاکستان ایک صوبہ تھا صوبہ سندھ کے بھی تین صوبے کراچی پھر خیرپوراور اندرونی سندھ موجود تھے ۔اور سرحد صوبوں/ریاستوں میں منقسم تھا جو کہ سوات چترال دیر ہنزہ گلگت اور پشاور تھے ۔ ون یونٹ کے نام پر 1955میں تمام صوبے ختم کردیے گئے یحییٰ خان آیا تو اس نے مغربی پاکستان کے چار اور مشرقی پاکستان کو بطور صوبہ بحال کیا ہم نے کئی نئے اضلاع بنائے ہیں تو اسی طرح پرانے صوبے ریاستیں بحال کر دی جاتیں اور صوبہ پنجاب کے بہاولپور کے علاوہ مزید صوبے بن جاتے تو لوگ خوامخواہ محرومیوں کا رونا نہ روتے اور موجودہ صوبوں کے درمیان نفرتیں اور کدورتیں قطعاً جنم نہ لیتیں ۔

ضیاء الحق کے دور میں انصاری کمیشن نے 17صوبوں کی بشمول اسلام آباد کی تجاویز تیار کرلیں تھیں مگر اس کا طیارہ کریش ہوگیا اور بعد ازاں جاگیرداروں وڈیروں ،نودولتیے سود خور سرمایہ داروں اور ڈھیروں ناجائز منافع لوٹنے والے صنعتکاروں نے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے ملک کو صوبوں میں منقسم کرنے کی تجاویز سرد خانے میں ڈال دیں بھارت میں ابتدائی طور پر صرف 13صوبے تھے مگر آج تک 36صوبے بن چکے ہیں اب بھی سکھ و دیگر کئی اقلیتیں اپنے اپنے خود مختار صوبوں کے لیے جدو جہد کر رہی ہیں ۔ہم نے بھارت کی طرح انگریزوں کے ٹوڈی جاگیرداروںکی راجدھانیوںکو بے زمین کاشتکاروں ،ہاریوں میں تقسیم نہ کیا اسی لیے ان سبھی طبقات کی اولادیںاب معمولی سنپولیوں سے بڑھ کر اژدھوں کا روپ دھار چکی ہیںاور سبھی بڑی مقتدر سیاسی پارٹیوں کے اہم کلیدی عہدوں اور وزارتوں پر قابض ہیں بھٹو مرحوم نے کوشش تو کی مگر بڑے تمندار زمینداروں نے جعلی کاغذات کے ذرریعے اپنے ہی عزیزوں ،نوکروں و منشیوں کو تمام زمینیں لینڈ ریکارڈ افسروں،پٹواریوں سے مل کر بانٹ ڈالیں خود بھٹو صاحب ان کا خاندان اور عزیز و اقارب بھی بدستور ہزاروں ایکڑ کے مالک رہے ۔

1977تک تو سبھی ٹوڈی جاگیردار وڈیرے پی پی پی پر بھی قابض ہوچکے تھے اور انتخابات میں 92فیصد انتخابی ٹکٹوں پر بھی نامزد ہوگئے چاروں صوبوں کے گورنر وزیر اعلیٰ بھی جاگیردار ٹولوں سے تعلق رکھتے تھے۔بھٹو کے بقول پی پی پی کے عدالتی قتل (پھانسی ) کے بعد کسی تحریک کا نہ چلنا اور اس کے جنازہ تک میں بھی کسی کا شامل نہ ہوسکنا اسی لیے تھا کہ اہم عہدوں وزارتوں پر تو وڈیرے قابض رہے تھے ورکر خود کو کیوں ریاستی پولیس کی دہشت گردیوں کا تر نوالہ بناتے اس لیے اس کی پھانسی پر بقول ان کے “ہمالہ قطعاً نہ رویا “بھٹو ادوار ہی میں معیشت کو قومیانے کی ناکام پالیسی بنی ۔حتیٰ کہ چھوٹے کارخانے اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی قومیائے گئے ۔اگر ضیاء الحق آکر ان اداروں کی واپسی نہ کرتے تو تعلیمی نظام کا تو ویسے ہی مکمل طور پر بھٹہ بیٹھ جاتا آئندہ آمدہ انتخاب 2018 چونکہ خالصتاً روپے پیسے کا کھیل ہو گا اور قابل اہل ایماندار افراد اور انتخابی مشینری منہ دیکھتی رہ جائے گی ۔

انتخابات سے قبل مغربی پاکستان کے پرانے 15صوبوں/ریاستوں سمیت مزید تین صوبے پنجاب میںاور کے پی کے میں 2صوبے ضرور ہی بنادیے جائیں اور پھر الیکشن کمیشن پانچ ایکڑ سے زائد ملکیت رکھنے یا تیس لاکھ روپے سے کوئی کاروبار کرنے والے افراد کے انتخابات میں حصہ لینے پر مکمل پابندی عائد کردے اور تمام انتخابی امیدواروں کے پروگرام /منشوروغیرہ بھی خود ہی ایک پمفلٹ کی صورت میں چھپوا کر تقسیم کرڈالے اور ایک حلقہ کے سبھی امیدواروں کے چھ جگہوں پر مشترکہ جلسوں کا اہتمام کرے مزید یہ کہ انتخاب کے روزووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں پر لانے اور واپس لیجانے کا انتظام کرے سبھی امیدواروں پر پابندی ہو کہ وہ کوئی رقم خرچ نہ کرسکیں گے اس طرح ووٹوں کی بندر بانٹ اور خرید و فروخت پر مکمل پابندی ہو گی تو ہی متوسط طبقات کے اہل دیانت دار افراد منتخب ہو سکیں گے اور ملک اسلامی فلاحی جمہوریہ بن سکتا ہے۔اگر فوری ممکن ہوسکے تو انتخابات میں مزدور کسان وکلاء ،طلباء انجینئرز دوکاندار زمیندار کاشتکار و دیگر ضروری پیشوں کے لیے ان کی تعداد کے مطابق سیٹیں مختص کردی جائیں ۔
مل
ک کے مزید صوبے لازماً بنادیے جائیں تو پھر سندھو دیش‘ گریٹر بلوچستان ‘پختونستان‘ سرائیکستان مہاجر صوبہ جیسے نعرے بھی دم توڑ جائیں گے اور ملک بھی دن دوگنی رات چوکنی ترقیوں کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔اندرونی خلفشار مکمل ختم ہوکر قوم میں اتفاق و اتحاد اوربھائی چارا پیدا ہو گا اور ہم سبھی بیرونی دشمنوں سے احسن طریق سے نمٹ سکیں گے ۔اس وقت تو ہمارے ملک کو چہار طرف سے دشمنان دین و وطن ہندو مہاشوں سامراجی گماشتوں و یہود و نصاریٰ نے گھیر رکھا ہے مذکورہ احسن تجاویز پر عمل در آمدسو موٹو لے کر چیف جسٹس آف پاکستان اور افواج پاکستان کے سربراہ کرواڈالیں وگرنہ موجودہ حالات میں کتنے ہی انتخاب کروالیں پرانے جغادری سیاستدان دوبارہ منتخب ہوکر آجائیں گے اور ملکی خزانوں کی لوٹ کھسوٹ اسی طرح جاری رہے گی قوم دست بہ دعا ہے کہ خدا اپنا خصوصی فضل فرمائیں اور ہمیں بھی شعور سے نوازیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر