وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکیو واپس جائو ! طالبان بس کرو !

هفته 03 فروری 2018 امریکیو واپس جائو ! طالبان بس کرو !

ٹرمپ  کی ٹرمپیاں ایسی بدرنگیاں لارہی ہیں کہ امریکا میں بھی اس کے خلاف نفرت کے الائو بھڑک جل رہے ہیں افغانستان میں مزید بھجوانے کا اعلان اس کے دور حکومت کا احمقانہ ترین فیصلہ ہے پہلے ہی وہاں پر غلطان پالیسیوں سے نیٹو افواج بالخصوص امریکن سپاہی خودکشیاں کرتے مر رہے ہیں اور لاشیں جب امریکا پہنچتی ہیں تو وہاں کہرام مچ جاتا ہے اب تو افغانستان میں لاقانونیت کی انتہا ہو چکی ہے ٹائوٹ حکمرانوں کوحالات پر مکمل کنٹرول کرنے میںناکامی ہے بالخصوص حکومتی ہیڈ کوارٹر کابل تو جل رہا ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق روزانہ اوسطاً 10افراد جہنم واصل ہورہے ہیں چونکہ ایسے حالات دنیا کے کسی ملک /سرزمین پرنہیں ہیں اس لیے ٹرمپ کی مزید بچگانہ ضدیں امریکنوں کو لے ڈوبیں گی۔

کابل کے اندرون انٹر کانٹینٹل ہوٹل پر طالبانی حملہ سے دو درجن سے زائد افراد مارے گئے جب کہ آزاد ذرائع کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی جو زخمی پڑے ہیں وہ الگ ہیں پھر اس کے چند دن بعد ہی خود کش حملہ نے ایک سو سے کہیں زائد لوگوں کو جہان فانی کی طرف روانہ کردیاجب کہ کوئی دن ہی ایسا نہیں گزرتاجب افغانستان میں ہلاکتیں نہ ہوںبہت ساری تعداد مسلمانوں کی بھی اس میں شہید ہورہی ہے ٹرمپ کی احمقانہ حرکتیںاسے پاکستان میں موجود افغانی مہاجر کیمپوں پر بھی ڈرون حملوں سے ابھی تک باز نہیں رکھ سکیں جس پر پاکستان کی بھی چیخ و پکار اور احتجاج بجا ہے افغانی صدر اشرف غنی کے مطابق افغانستان میں دو درجن کے قریب دہشتگرد جنگجو گروپس مسلسل قتل وغارت گری کررہے ہیں ۔

سابق امریکی صدر اوباما نے توافواج کی واپسی کا ٹائم فریم بھی بنا دیا تھا اور پاکستان نے نیٹو افواج کی باحفاظت واپسی کے لیے مکمل امداد کا اعلان بھی کردیا تھامگر کاروباری و ڈھیروں ناجائز منافع کمائوصنعتکار ٹرمپ شاید وہاں سے قیمتی معدنیات کے حصول کے لیے مزید قیام کرنا ضروری خیال کرتے ہیں “ایں خیال است و محال است و جنوں “یہ خواہش تو شاید کبھی پوری نہ ہوسکے گی مگر مزید امریکی ونیٹو افواج کے سپاہی لقمۂ اجل بنتے رہیں گے تا آنکہ ٹرمپ کی ایسی بزدلانہ واحمقانہ پالیسیوں پر امریکا و اس کے دیگر اتحادی ممالک میں احتجاجی جلسے جلوس شروع ہو کر وائیٹ ہائوس کا گھیرائو ہی نہ شروع ہو جائے جس سے غالباً ناہنجارٹرمپ کو وقت سے قبل ہی صدارتی عہدہ نہ چھوڑنا پڑ جائے۔

افغانستان کی سابقہ کئی صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ افغانی آج تک کوئی جنگ نہیں ہارے ۔1842ء میں برطانوی افواج شکست سے دو چار ہوئیں اور افغانستان ان کا مقتل گاہ بن گیا ایک معذور سپاہی کو افغانیوں نے ہاتھ پائوں کاٹ کر ہلاکت سے بچا کر واپس جانے دیا کہ وہ وہاں جا کر دیگر سبھی کو بقیہ فوج کی ہلاکتوں کے قصے سنا سکے ۔پھر روسی چڑھ دوڑے اور ہزاروں فوجی ہلاک کروا کر انہیں واپس سر پر پیر رکھ کر بھاگنا پڑا ۔موجودہ امریکن سفید چمڑی والے سپاہی ناز و نعم میں پلے ہوئے ہیں اور موت کے خوف میں مبتلا بھی۔ اگر انہیں جلد واپس نہ بلالیا گیا تو افغانستان ان سبھی کا قبرستان بن کر رہ جائے گایہ تو پاکستانی کمانڈو مشرف تھا جس نے کئی پاکستانی امریکنوں کو فروخت کر ڈالے تھے وہ دور اب لَد چکا ہے اب افواج پاکستان سول حکومتیں ، عدلیہ ،انتظامیہ اور عوام سبھی ایک پیج پر ہیں ٹرمپ کو مسلم دشمن پالیسی ختم کرنا ہوگی کہ ہم اسے سیاہ و سفید سمجھائے دیتے ہیں ۔

روسیوں چینیوں ایرانیوں کی طرف سے مختلف افغانی باغی گروہوں و طالبان سے بات چیت کے کئی مراحل گزر چکے ہیں علاقائی باہمی اتحاد وجود پارہے ہیں عزت سے افواج کو نکال لینے ہی میں امریکیوں کی عافیت ہے کہ انٹرنیٹ کا دور ہے کوئی معمولی واقعہ رونما ہوتے ہی آناً فاناً دور دراز لوگوں تک اطلاع پہنچ جاتی ہے نیٹو اور امریکن افواج کب تک خود تعمیر کردہ زیر زمین خفیہ تہہ خانوں میں مقید رہ سکتے ہیں؟ کہ جنہیں سور ج کی روشنی تک بھی ہفتوں نصیب نہیں ہوتی کاش امریکا میں موجود سماجی تنظیمیں ٹرمپ کے پاگل پن کے دورہ کو ختم کرنے کے لیے”خصوصی دوائی و علاج” تجویز کریںتاکہ مزید امریکن فوجی خودکشیوں /ہلاکتوںسے بچ رہیں ۔

خود افغانی ٹائوٹ حکمران کہہ رہے ہیں کہ اگر نیٹو افواج یہاں سے نکل گئیں تو شاید ہمارا اقتداری محل فوراً ہی چند ہفتوں میں زمین بوس ہوجائے گا۔اس سے صحیح حالات کی نشاند ہی میں کوئی مشکل نہ ہے گلبدین حکمت یار کو امریکنوںنے ہر طرح کی کلیرنس دیکر اس کی خفیہ کمین گاہوں سے نکال کر کابل میں لاکر براجمان کیا ہے تو پھر اب ” اس مجاھد “کواسے استعمال کرنے میں کیا امر معنی ہے ؟کیا اس کو تب استعمال کرنا ہے “جب چڑیاں چگ گئیں سارے کھیت ” طالبان و دیگر دہشت گرد تنظیمو ں کی طرف سے دار لحکومت کابل کو ٹارگٹ بنا لیا گیا ہے اس پر حملوں میں سخت تیزی آگئی ہے خدا خیر کرے اصولاً تو دونوں طرف مسلمان ہی قتل کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں کہ گورے فوجی تو لاکھوں حفاظتوں میں مقید کر رکھے گئے ہیںدوسری طرف افغانستان میں2015سے مسلسل پارلیمنٹ کاانتخاب ملتوی چلا آرہا ہے ۔

ہرات کے گورنر اسماعیل خان ہوں یا بلخ کے عطاء محمد وہ مرکزی سرکار کو ” ٹھوٹھا” دکھا رہے ہیں بھارتی دو بلین ڈالر سے کہیں زائد خرچہ کرکے بھی وہاں کچھ نہ کرسکے ہیں صرف را اور سی آئی اے پاکستان کے اندر دہشت گردیاں کرکے “خوشیاں” مناتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ “دشمن مرے خوشی نہ کریے سجنا(انہاں نے )وی مرجانا “آخری ترپ کا پتہ گلبدین بچا ہے کہ شاید اس پر موجودہ حکمران ،طالبان ،دہشت گرد گروپس ،پاکستانی مکمل اتفاق کر لیں اور وہ انتخاب کے ذریعے صحیح قیادت کو منتخب کرواکراقتدار سنبھال دے کہ اس کے علاوہ اور کوئی حل دور دراز تک نظر نہیں آتاکہ دیگر سبھی حربے گھاٹے کے سودے ہیں جس میں سبھی کا نقصان عظیم نظر آتا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر