وجود

... loading ...

وجود
وجود

عام آدمی کی خاص آواز۔ مُنوبھائی

پیر 29 جنوری 2018 عام آدمی کی خاص آواز۔ مُنوبھائی

انسانیت کادرد جو روح کی گہرائیوں تک محسوس کر سکتا تھا۔جس کا ہدف دولت جاہ حشمت اور دُنیا کے ساتھ دل لگانا نہ تھا۔ جو عام انسان کی آواز بن کر پورے معاشرے کے ضمیر کو جھنجوڑنے کے منصب پر فائز تھا۔ وہ شخص جو پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہونے کے باجود قسطوں پر لیے گئے سات مرلے کے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اطمینان کی زندگی گزار کر اِس دُنیا سے رخصت ہوکر اصل زندگی کی طرف لوٹ گیا۔ جناب منیر احمد قریشی المعروف منو بھائی نے ساری زندگی ایک تڑپ میں گزاری۔یہ تڑپ رب پاک نے اُنھیں بدرجہ اُتم عطا فرمائی تھی۔

منو بھائی ایسی منزلوں کے مسافر تھے جس کی منزل صرف اور صرف رب کی مخلوق سے پیار تھا۔ وہ پسے ہوے طبقے کی ایک توانا آواز بن کر ساری زندگی تگ و تاز میں رہے۔جس کو مسکن مل گیا اور جو ابھی منزل کا متلاشی ہے دونوں کی قسمت کا ستارہ ایک جیسا نہیں ہے۔ جسے منزل مل گئی اُس کی تمنائیں ، خواہشیں اُس کی زندگی زوال پزیر ہو گئیں اور جو ابھی راہ گزر میں ہے اُس کی طلب جوان ہے۔ وہ ہر راہ کو اپنے پاؤں کے تلے روندتا چلا جارہا ہے اُسکی چاہت کی تڑپ میں بلا کا درد ہے۔ جس نے سمجھ لیا کہ وہ کامیاب ہے ،وہی ناکامی سے دوچار ہوا اور جو زندگی کو ہر آن ایک نیا چیلنج سمجھ کر قبول کرتا رہا جس کے شب و روز راہ حق کے متلاشی رہے جو زندگی کی رمق موت کے اشاروں سے محسوس کرتا رہا اُس نے کچھ نہ پا کر بھی سب کچھ پالیا اُس کی طلب نے اُسے روکا نہیں، رواں دواں رکھا جو چاہت جو طلب روک دے وہ جذبوں کو سرد کر دیتی ہے اور جو لمحات عشق کی لٰو میں اضافہ کرتے چلے جائیں وہی تو حاصل ہیں ۔ کچھ نہ پا کر بھی سب کچھ پالینا اور بہت کچھ پاکر بھی سب کچھ کھو دینا۔ اِس دُنیا میں اربوں انسان آئے اور چل دیے لیکن رب پاک نے کچھ لوگ ایسے بھی اِس دُنیا میں بھیجے ہیں جن کے جانے سے کافی بڑا خلا ء محسوس ہوتا ہے۔ منو بھائی ایک ایسی ہی ہستی کا نام ہے۔ اِن کا نام ذہن میں آتے ہی سچائی کا استعارہ دماغ میں کوند پڑتا ہے۔ اِن کے انسان دوستی اور سچائی کے ساتھ اِن کے تعلق نے اِن کوموجودہ مادیت پسند معاشرے میں بھی ایک ممتاز حیثیت دے ڈالی ہے چونکہ وہ عام انسان کی بات کرتے تھے اور معاشرے کے دکھوں، غربت،

ناانصافی کے خلاف ایک توانا آواز تھے اِس لیے وہ معاشرے کے لیے بہت بڑا سہارا تھے۔
جب معاشرے میں ہر طرف دولت کی چاہت ہو جب ہر جا حر ص و لالچ نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں ایسے میں سچائی خلوص محبت اور غریب آدمی کی بات کرنا کسی جہاد سے کم نہیں۔آمریت کسی شکل میں بھی ہو خواہ وہ فوجی آمریت ہو یا سول آمریت یا اِس کا انداز بادشاہت والا ہو ایسے دور میں حق بات لکھنا جب کوڑے برسائے جارہے ہو جب من چاہی باتوں کو قانون کا درجہ دے دیا جائے، حق کا ساتھ دینا بہت دل گردے کا کام ہے ،یہ کام احسن انداز میں محترم منو بھائی نے انجام دیا۔آسائشات کا حصول لالچ بن کر مصلحت پسندی کا سبق سکھانا شروع کر دیتا ہے اور پھر حق گوئی مصلحت میں دبتی چلی جاتی ہے۔ جھوٹی آن بان شان کے لیے انسان اپنا ضمیر گروی رکھ دیتاہے، ہر دور کے حکمران موسمی دانشوروں اور نام نہاد مفکرین کی قیمت لگاتے ہیں اور پھر وہ قلم فروش اِن حکمران کے لیے دن رات جگالی کرتے ہیں۔لیکن منو بھائی نے قلم کی حرمت کو پامال نہیں ہونے دیا۔نصف صدی تک صحافت کے اِس چمکتے ستارے نے کبھی مصلحت پسندی کی گنگا میں اشنان نہیں کیا۔ ترقی پسندیت کو عوام سے محبت کا استعارہ عملی طور پر بنا کر دکھایا۔ تھیلسیمیا کے بچوں کے لیے سندس فاونڈیشن کے حوالے سے لا زوال کردار ادا کیا۔ قلم فروش اِس تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب حکمران طبقے کی اُن پر نظر پڑے اور وہ اِن کی خدمات بجا لانے کے لیے قلم کی حرمت کا سودا کریں لیکن منو بھائی حقیقی درویش تھے۔ کالم نگاری کے ساتھ ساتھ بہت عمدہ ڈرامے لکھے۔ سونا چاندی، آشیانہ جھوک سیال جیسے مشہور ڈرامے اِن کے قلم سے نکلے۔منو بھائی کی پنجابی شاعری نے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا ہوا ہے۔
منو بھائی کی شاعری اپنی مثال آپ ہے آپ فرماتے ہیں
او وی خوب دیہاڑے سن
بھک لگدی سی منگ لیندے ساں
مل جاندا سی کھا لیندے ساں
نہیں سی ملدا تے رو پیندے ساں
روندے روندے سوں رہندے ساں
ایہہ وی خوب دیہاڑے نیں
بھک لگدی اے منگ نیں سکدے
ملدا اے تے کھا نیں سکدے
نیں ملدا تے رو نیں سکدے
نہ رویے تے سوں نہیں سکدے
منو بھائی نے 2014ء میں اپنا ذاتی کتب خانہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو عطیہ کردیا تھا۔ یہ کتب خانہ 145,464 کتب پر مشتمل تھا۔تعلیم کے بعد 1950ء کی دہائی میں راولپنڈی کے اخبار تعمیر میں پچاس روپے ماہوار پر نوکری کی۔ اور اسی اخبار سے اوٹ پٹانگ کے عنوان سے کالم نگاری کا آغاز کیا۔ امروز اخبار میں نظم بھیجی تو اس وقت کے مدیر احمد ندیم قاسمی نے قلمی نام منو بھائی عطا کیا۔ جو ان کے اصل نام کی جگہ معروف ہے، اسی نام سے کالم اور ڈراما نگاری کی۔’’تعمیر‘‘ سے قاسمی صاحب انہیں ’’امروز‘‘ میں لے آئے۔ یہاں انہوں نے دوسری صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ’’گریبان‘‘ کے عنوان سے کالم لکھنے شروع کیے۔ حکومت سے صحافیوں کے معاوضے کے جھگڑے پر ان کا تبادلہ سزا کے طور پر ملتان ’’امروز‘‘ میں کر دیا گیا، جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو انہیں مساوات میں لے آئے۔ 7 جولائی 1970ء کو مساوات میں ان کا پہلا کالم چھپا۔ مساوات سے روزنامہ جنگ لاہور میں آ گئے۔ کچھ عرصہ دوسرے اخبارات میں بھی کام کیا۔اللہ پاک جناب منیر احمد قریشی المعروف منو بھائی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین


متعلقہ خبریں


مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر