وجود

... loading ...

وجود
وجود

لشکری رئیسانی بی این پی میں شامل

جمعه 05 جنوری 2018 لشکری رئیسانی بی این پی میں شامل

آخرکار نوابزادہ لشکری رئیسانی بلوچستان نیشنل پارٹی میں شامل ہو ہی گئے۔ لشکری رئیسانی بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ان کے والد نواب میر غوث بخش رئیسانی 29دسمبر1971سے13 اپریل1972ء تک بلوچستان کے گورنر رہے۔ چیف آف سراوان کا منصب ان کے خاندان کے پاس ہے۔ گویا یہ گھرانہ قبائلی اور سیاسی دونوں لحاظ سے صوبے کے اندر نمایاں ہے۔ والد میر غوث بخش رئیسانی رند قبائل کے حملے میں قتل ہوئے۔ اس کے بعد بڑے بیٹے کی حیثیت سے رئیسانی قبائل کی نوابی کی پگڑی نواب اسلم رئیسانی کے سر پر رکھ دی گئی۔ اس طرح وہ سراوان کے چیف بھی بنے۔ نواب اسلم رئیسانی2008ء کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے اور پانچ سال مکمل کرلیے ۔ حالانکہ وہ آصف علی زرداری کے نا پسندیدہ بن گئے تھے۔ یہ اختلاف سیاسی تھا۔ نواب اسلم رئیسانی ان کی تابعداری نہیں کرتے تھے۔ اپنی سوچ کو جہاں درست سمجھتے فوقیت دیتے تھے۔ گویانواب رئیسانی کو مسائل مشکلات کا سامنا اپنی جماعت کے اندر سے رہا۔ جمعیت علماء (ف) بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی نے آخر تک ساتھ دیا۔ جبکہ پانچ سال وزارتوں کے مزے لینے والے بہت سارے عین وقت پر ساتھ چھوڑ گئے۔

گورنر راج نافذ ہوا تب بھی نواب رئیسانی مذکورہ جماعتوں کے تعاون و اتحاد سے وزارت اعلیٰ کے منصب سے مستعفی نہ ہوئے ۔پشتونخوامیپ ،نیشنل پارٹی نے بھی بغض معاویہ میں گورنر راج کی حمایت کی۔ عوامی نیشنل پارٹی نواب رئیسانی کی کابینہ میں شامل تھی اور گورنر راج کی حامی بنی ۔غرض لشکری رئیسانی پیپلزپارٹی بلوچستان کے صدر تھے۔ پارٹی کے لیے بہت کام کیا۔ 2009ء میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ لشکری رئیسانی اس دوران بلوچستان کے مسائل پر بھی بولتے رہتے تھے، گویا بلوچستان کے ایشوز پر اپنی جماعت سے اختلاف رکھتے تھے ۔ صوبے اور مرکز کے اندر پیپلز پارٹی کے لوگ برابر مسائل بھی پیدا کرتے رہے۔ اس طرح ان کا پیپلزپارٹی کے ساتھ مزید نبھاممکن نہ رہا۔ پارٹی کو خیر باد کہا، یوں سینیٹ کی رکنیت سے بھی مستعفی ہوگئے۔ مسلم لیگ نواز میں شامل ہوگئے۔ کچھ عرصہ وابستگی رہی یوں مسلم لیگ نواز سے بھی علیحدہ ہوگئے۔ جس کے بعد بلوچستان پیس فورم اور دوسری سیاسی، علمی و سماجی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ بلآخر 24 دسمبر 2017ء کو بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کا حصہ بن گئے۔ نوابزادہ لشکری رئیسانی، میر غوث بخش بزنجو کی پاکستان نیشنل پارٹی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ بلوچستان کی چھٹی اسمبلی یعنی1993ء میں بننے والی اسمبلی کے پی بی24بولان سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ نواب ذوالفقار علی مگسی وزیراعلیٰ تھے۔ نوابزادہ لشکری رئیسانی کے پاس وزارت کا قلمدان بھی تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حلقے سے انتخاب لڑیں گے ۔ اگر قیاس کیا جائے تو لشکری رئیسانی کے صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی کے امکانات روشن نظر آرہے ہیں۔ نواب اسلم رئیسانی جو کہ علیل ہیں اور ان دنوں کوئٹہ ہی میں مقیم ہیں، نے بھی وڈھ جاکر بزرگ بلوچ قوم پرست رہنماء سردار عطاء اللہ مینگل سے ملاقات کی۔

27دسمبر2017 کو قومی احتساب بیورو کے ایگزیکٹیو بورڈ نے نواب اسلم رئیسانی کے خلاف انویسٹی گیشن کی منظوری دیدی۔اس میں دیگر افراد بھی شامل ہیں۔ ان پر غیر قانونی طور پر 81کروڑ روپے حکومت بلوچستان سے Compensationکی مد میں وصول کرنے کا الزام ہے۔ واضح ہو کہ یہ رقم مہر گڑھ کے متاثرہ افراد کے لیے لی گئی تھی۔ پرویز مشرف کے دور میں جب سردار یار محمد رند وفاقی وزیر تھے تو رند قبائل نے مہر گڑھ جوکہ رئیسانی قبائل کا علاقہ ہے پر حملہ کیا تھا۔ وہاں زراعت و املاک کو نقصان پہنچایا۔ چنانچہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو مہر گڑھ کے نقصانات کے ازالہ کی خاطر رقم لی گئی۔ نیب سمجھتی ہے کہ رقم کی تقسیم میں بددیانتی ہوئی اور رقم حقیقی متاثرین میں تقسیم نہیں کی گئی۔ بہر کیف حقائق تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی سامنے آئیں گے۔ بلوچستان کے اندر2018ء کے عام انتخابات کا منظرنامہ واضح نہیں ہے۔ تقریباً سب ہی بڑی جماعتوں نے انتخابات کی تیاریاں شروع کر رکھی ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل، نیشنل پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، جمعیت علماء اسلام (ف)، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور بہت ساری شخصیات سرگرم ہیں۔ مسلم لیگ نواز سے وابستہ کئی وزراء اور اراکین اسمبلی سیٹی بجنے کے منتظر ہیں۔ یعنی یہ حضرات ہوا کا رُخ دیکھ رہے ہیں۔

27دسمبر 2017 کی رات کوئٹہ کے سرینا ہو ٹل میں بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ نے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا۔ جس میں چند صحافیوں کو بھی مدعو کیاگیا تھا۔ راقم ان میں شامل تھا۔ ہمارے ساتھ کھانے کی میز پر مسلم لیگ کے ایک صوبائی وزیر صاحب کچھ دیر آکر بیٹھ گئے۔ ان کے پاس اہم وزارت ہے۔ چونکہ تعلق برادرانہ ہے اس لیے باتیں بھی کھل کر ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فضاء مسلم لیگ نواز کے حق میں نہیں ہے۔ بلوچستان کے بہت سارے لیگی حالات کا رُخ دیکھ رہے ہیں۔ اپنی ذات کے حوالے سے بتایا کہ اگر منظر نامہ بد ل گیا تو وہ خود بھی مسلم لیگ نواز کا ساتھ نہیں دینگے۔ اس وزیر نے یہ بھی کہا کہ سینیٹ الیکشن کے امکانات بھی معدوم ہیں۔ اور ممکن ہے کہ عام انتخابات بھی وقت کی بجائے تاخیر سے منعقد ہوں۔ صوبے کی مخلوط حکومت مسلم لیگ نواز، پشتونخواملی عوامی پارٹی ، نیشنل پارٹی اور ق لیگ پر مشتمل ہے۔ مگرحکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ کا مسلم لیگ نواز سے تعلق واجبی و مبہم نوعیت کاہے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) مسلم لیگ نواز سے اختلافات کے باوجود یہ واضح کرچکی ہے کہ وہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی مخالف ہے۔ یہی سوچ نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام ف، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی بھی ہے۔ چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں کسی بھی جمہوریت کش اقدام کی مخالف ہیں۔ تاہم بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی جگہ بنانے کے لیے کسی اور کی راہ تک رہے ہیں۔اس صف میں میر ظفر اللہ جمالی بھی شامل ہیں، جو پیرانہ سالی میں بھی ہوس کا شکار ہیں۔ دو بار قومی اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کے دوران اپنی صحت کی خرابی پر کہا کہ ممکن ہے کہ یہ ان کی آخری تقریر ہو ۔ جمالی صاحب نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اور واضح الفاظ میں آمریت کو دعوت دی۔ بہر حال کھچڑی ضرورپک رہی ہے، دیکھتے ہیں کہ ہوتا کیا ہے ۔ اگر بات بلوچستان کی کی جائے تو آمرانہ قوتوں کی تھالی چاٹنے والے بس دن گن رہے ہیں کہ کب منتخب حکومت کی کایا پلٹ جائے۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کہتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کو طاقتور نہیں سمجھتے ،کیونکہ ادارے اپنی آئینی حدود میں کام نہیں کررہے ۔ اگر ملک کے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں کام کریں تو پارلیمنٹ مضبوط اور طاقتور ہوسکتی ہے۔ مزاحمت کرنا پڑے گی ، چاہے لاپتہ ہی کیوں نہ ہوجائیں۔‘‘


متعلقہ خبریں


مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر