وجود

... loading ...

وجود
وجود

صد آفرین

جمعرات 21 دسمبر 2017 صد آفرین

16؍ دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوا ۔ پاکستان دشمنوں کے لیے یہ دن شادمانی اور مسرت کا ہے ۔ مگر پاکستان میں ہر سال اس دن گویا عالم ِ سوگ ہوتاہے۔سقوط ڈھاکا کا غم تازہ ہی رہتا ہے ۔ٹی وی چینلز پر خصوصی پروگرامات نشر اوراخبارات میں خصوصی صفحات شائع ہوتے ہیں ۔ایک طرف ہماری کوتاہیوں ،ناکامیوں اور انا پرستی کا نوحہ ہوتا ہے تو دوسری طرف بھارت کا ہماری پیٹ میں چُھرا گھونپنے کا ذکر بھی ہوتا ہے کہ جس نے کمال چالاکی اور راز داری سے مغربی پاکستان کے بالا دست طبقات کی زیادتیوں ، نالائقیوں اور طاقت و اقتدار کے خمار کا فائدہ اُٹھا کر پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے ۔اندرا گاندھی نے اس فتح پر برملا کہا کہ انہوں نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا۔ پاکستان کی وحدت کے قائل ہزاروں لاکھوں بنگالیوں کا بے دریغ قتلِ عام ہوا۔ان کی خواتین بے آبرو کی گئیں۔اوربھارتی پر وپیگنڈا مشنری نے بڑی بے شرمی سے الٹا الزام پاکستان کی افواج پر دھرا ۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش آج بھی دار ورسن کی آزمائشوں کا سامنا کیے ہوئے ہے۔بھارت اور اُس کی تربیت یافتہ مکتی باہنی نے آزادی کی اس تحریک کے دوران مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین،صنعت کاروں،تاجروں،اساتذہ اور مزدور پیشہ افراد کو مارنا شروع کر دیا تھا۔گویا یہ اُن افراد و خاندانوں کی مشرقی پاکستان سے بے دخلی کی مہم کا حصہ تھا۔ بلوچستان میں بھی وہی طریقہ اپنایا گیا جس پر آج بھی آزادی کے علمبردار عمل پیرا ہیں ۔
بھارت نے پشتونستان تحریک کی آ بیاری کی، گریٹر بلوچستان موومنٹ کو بڑ ھاوادیا۔ کسی نہ کسی شکل میں آزاد بلوچستان کی تحریک کو زندہ رکھا ہے ۔ بھارت فریب اور تخریب کی سازشوں پر آج بھی کاربند ہے۔گویا پاکستان کے اندر پشتون و بلوچ علیحدگی پسندوں کے مورچوں کو فعال رکھا۔چنانچہ اب بھارت افغانستان کے مورچے میں بیٹھ کر فاٹا کے شدت پسندوں کو آلہ کار بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ افغان حکومت اور اس کے سیکورٹی ادارے بھارت کے اشاروں پر حرکت کر رہے ہیں ۔پاکستان ایک بڑی مشکل سے دوچار ہے ، خواہ ضرب عضب اور ردالفساد جیسے کتنے ہی آپریشن کیے جائیں ، جب تک افغانستان کی سرزمین پر بھارت اپنے جاسوسی کے وسیع نیٹ ورک کے ساتھ موجود رہے گا ،تب تک پاکستان کے لیے سکون اور امن کا دن ممکن نہیں۔ملک کے اندر سولہ دسمبر 1971ء کے سانحہ عظیم پر گہرے جذبات و احساسات کا اظہار ہوا۔اور سولہ دسمبرکے ہی روز پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے خوںچکاںواقعے کی تیسری برسی کی مناسبت سے دعائیہ تقاریب کا انعقاد ہوا ۔اور اگلے ہی روز کوئٹہ کے میتھوڈسٹ گرجا گھر میں خود کش بمبار گُھس گئے ۔انسان نُما یہ درندے ہولناکی اور تباہی کی بڑی تیاری کے ساتھ آئے تھے ۔جسموں سے بارود باندھ رکھا تھا ،کلاشنکوف ، دستی بم اور خنجروں سے بھی لیس تھے۔اتوارسترہ دسمبر کی اس دوپہر کو گرجا گھر میں دعائیہ تقریب ہو رہی تھی ۔چار سو سے زائد مرد،عورتیں اور بچے شریک تھے۔گمان ہے کہ حملہ آوروں نے کامیابی کی صورت میں پہلے پہل چُن چُن کر نہتے اور معصوم شہریوں پر گولیاں برسانا تھیں۔جس کے بعد خنجروں کے وار سے ان کے گلے کاٹنے تھے اور آخر کار خود کو اُڑانا تھا۔ مگر رب کریم کو ایسا منظور نہ تھا ۔ گرجا گھر کے احاطے میں موجود پولیس اہلکار ان کی راہ میں مزاحم ہوئے۔ دہشت گرد بھی احاطے کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔ایک دہشت گرد کو داخل ہوتے ہی ٹانگ اور بازو میں گولیاں لگیں،دوسرا فائرنگ کرتے ہوئے چرچ کے مرکزی داخلی دروازے پر پہنچا، دروازہ بند پا کر وہیں خود کو اُڑا دیا۔جس کے نتیجے میں نو معصوم شہری جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے کا خون نا حق ہوا۔اور ایک بڑی تعداد زخموں سے چور ہوئی۔ تاہم حملہ آور بڑے پیمانے پر مردم کشی نہ کر سکے۔گویا دہشت گرد ماہ دسمبر کے اس دن کو بھی ہلاکت خیزی کے اعتبار سے یادگار بنانا چاہتے تھے ۔بلوچستان میں گرجا گھر پر اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
پاک افغان سرحدی شہر چمن میں اور کوئٹہ کے شاہ زمان روڈ پر گرجا گھروں پر دستی بم حملے ہوئے ہیں۔البتہ خود کش بمبار کا حملہ پہلی بار ہوا ہے ۔جس کی منصوبہ بندی یقینی طور پر افغانستان میں ہوئی ہے ۔اور مقامی افراد سہولت کار کے طور پر استعمال ہوئے ہوں گے۔ملک کے اندراس طرح کی وارداتیں بلا تخصیص ہوئی ہیں ۔درگاہیں،مساجد،امام بارگاہیں،گرجا گھر ،دوسری عبادت گاہیں ،تعلیمی اداروں،عدالتوں،سیاسی و مذہبی اجتماعات یہاں تک کہ کھیل اور تفریحی مقامات بھی ہدف بنے ہیں۔ اور یقینا آئندہ بھی یہ مقامات ان عناصر کے نشانے پر ہوں گے ۔مختلف مکاتب فکر اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد قتل ہوئے ہیں۔ فوج ،ایف سی اور پولیس کے اعلیٰ و ادنیٰ اہلکاروں پر بھی حملے ہوئے ہیں ۔بلوچستان میں تو اب تک ہزاروں شہری پیوند خاک ہو چکے ہیں۔ پولیس کے آٹھ سو سے زائد افسران اور سپاہی موت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔البتہ ملک کے دوسرے شہروں میں مسیحی عبادت گاہوں پر بڑے حملے پہلے بھی ہو چکے ہیں۔
لاہور کے یوحنا آباد میں2015میں دو گرجا گھروں میں پندرہ لوگ قتل کر دیے گئے تھے ۔پشاور کے ایک چرچ میں نوے کے قریب افراد موت کے گھاٹ اُتارے گئے۔ اسی طرح بہاولپور اور اسلام آباد کے بھی گرجا گھروں میں حملے ہو چکے ہیں ۔یہ گروہ پاکستان اور یہاں کے عوام کے دشمن ہیں ۔در اصل دہشت گرد پاکستان کو غیرمستحکم کرنا چاہتا ہے۔بشپ آف بلوچستا ن اینڈ کراچی ڈینئل صادق نے دکھ اور غم کے اس موقع پر دانشمندی کی بات کہی کہ ’’دہشت گردوں نے ہم سب پر حملہ کیا ہے۔ یہ حملہ پاکستان کی سا لمیت پر کیا گیا ہے۔ دہشت گرد گرجا گھروں، مساجد، امام بارگاہوں سمیت ہر قسم کی عبادتگاہوں کو نشانا بنارہے ہیں۔‘‘
کوئٹہ کا یہ تازہ حملہ داعش نے قبول کر لیا۔اور داعش کا پورا نیٹ ورک افغانستان میں قائم ہے ۔جن کے قبضے میں مختلف افغان علاقے آچکے ہیں ۔داعش ، تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی جیسی تنظیمیں ایک ہی چھتری تلے کام کر رہی ہیں۔ افغان حکومت اور امریکا پر لازم ہے کہ وہ ان گروہوں کی سرکوبی یقینی بنائے۔امریکہ کے لیے ان کا قلع قمع کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے ۔کیونکہ امریکا کے پاس دنیا کی بہترین آرمی اور جدید و خطرناک ترین اسلحہ موجود ہے ۔امریکا کی فضائی طاقت بھی یکتاہے مگر شاید امریکا و افغانستان ان تنظیموں کا خاتمہ چاہتے ہی نہیں ۔پاکستان کے لیے اب افغانستان سے متصل سرحدوں کی حفاظت یقینی بنانا ضروری ہو گیا ہے۔ بلوچستان کے ساتھ بارہ سو کلو میٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کا کام بھی برق رفتاری کے ساتھ مکمل ہوجانا چاہئے ،جو حکومت او پاک فوج کے پیش نظر ہے ۔اگر بات کوئٹہ میں سیکورٹی کے بندوبست کی کی جائے تو اس ضمن میں خاطر خواہ اقدامات اُٹھائے جا چکے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ سانحات و واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ۔بہر حال دہشت گردوں کے لیے شہر کے اندر مقاصد پانا آسان بھی نہیں ۔ایسے بہت سے حملے ناکام بنائے جا چکے ہیں۔ غرض میتھوڈسٹ گرجا گھر میں قیمتی جانوں کا ضیاع بے حد افسوسناک ہے ۔بلا شبہ اس نقصان کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ لیکن ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ وہاں موجود جم غفیر محفوظ ر ہا۔یقینا پولیس اہلکار جان کی پروا کیے بغیر دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ گئے ۔ برابر بیس منٹ تک ان کا مقابلہ کیا۔ایک کو سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس مزاحمت کے نتیجے ہی میں دوسرا خود کش ہدف تک پہنچے بغیر دھماکا کر کے ختم ہوا ۔صد آفرین ان اہلکار وں پر کہ جن کی ہمت اور بہادری کی وجہ سے سینکڑوں گھر اُجڑنے سے محفوظ رہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر