وجود

... loading ...

وجود
وجود

گاڑی کا پٹرا

پیر 23 اکتوبر 2017 گاڑی کا پٹرا

مسئلہ یہ نہیں کہ فکری اباحیت پسند ہماری قومی زندگی کو اپنی تحویل میں لینا چاہتے ہیں ۔مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ناقص تصورات اور زندگی کے معانی پر تصرف کو ایک اُصول کے طور پر تسلیم بھی کرا لینا چاہتے ہیں۔ اپنی خاروخس اور خوار وخجل حیات کو ہمارا قومی چلن بنا دینا چاہتے ہیں۔ لعنت ، لعنت اور لعنت ایسی فکر پرجس میں زندگی کے کوئی معنی ہی نہیں ، جس میں تاریخ کا کوئی ادراک نہیں، جس میں شعور کی کوئی چمک نہیں۔ پھٹکار، پھٹکار اور پھٹکار ایسی تاویلات پر جو دل ودماغ سے نہیں معدے اور تبخیر سے پیداہوتی ہیں۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پاکستانی سیاست پر غیر یقینی کے بادل چھا رہے ہیں۔ قومی ریاستوں کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ اس میں یہ بادل گھِر گھِر کر آتے ہیں۔ ترقی یافتہ ریاستوں کو بھی اس سے کوئی فرار نہیں۔ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت ہے اور اس کے سیاسی اُفق پر کالی گھٹائیں ہر وقت چھائی رہتی ہیں۔ برطانیا قبل ازوقت انتخابات کا منہ دیکھنے کے باوجود دوبارہ غیریقینی کی ایسی ہی کیفیت میں مبتلا ہے۔ شمالی کوریا کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرات نے جاپان کو قبل ازوقت انتخابات کی راہ سجھادی، جہاں گزشتہ روز (اتوارکو) وزیراعظم شنزو آبے نے ملک میں سماجی تحفظ کے نظام کو متوازن کرنے کی خاطر ایک نئے انتداب (مینڈیٹ) کے لیے ووٹ ڈالنے کا ڈول ڈال دیا۔ بھارتی ریاستوں میں بھی سیاسی نظام کے حوالے سے ایسی خبریں روزانہ منظرعام پر آتی رہتی ہیں۔ مگر ترقی پزیر یا ترقی یافتہ کوئی بھی ریاست ہو، وہاں اس ماحول کی تعبیر ایسے نہیں کی جاتی جیسے ہمارے ہاں ہوتی ہے۔ پھر اس پر مستزاد یہ ’’دانشور‘‘دوسروں کی دانش پر سوال اُٹھا کر بات کرنے کی ہمت بلکہ بے حیائی اور ڈھٹائی بھی دِکھاتے ہیں۔درحقیقت قومی ریاستوں کا موجودہ ڈھانچہ ریاستوں کے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ہونے کے امتیاز کے بغیر اسی نوع کے فطری حالات سے جڑا اور آلودہ ہے جہاں سیاسی حالات غیر یقینی کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ اِسے کارپوریٹ جمہوریت کے تصور کا بھی ایک ہیجان نما مرض لاحق ہے۔ جس میں کشمکش لازمی ہے۔ کیونکہ یہ آدرش پر نہیں نفع ونقصان سے جڑی جمہوریت ہوتی ہے۔ جس میں عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے جمہوریت کے آدرش تصور کا سہارا لیا جاتا ہے مگر جس کی کارگزاری عملاً’’ کارپوریشنز ‘‘ کے مفادات سے وابستہ رہتی ہے۔ یہ بات ابھی کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلیت اور بدعنوانی کے مقدمات کا معاملہ جمہوریت سے کیوں جوڑ دیا گیا؟ بھئی کارپوریٹ جمہوریت آخر ہوتی کیا ہے؟ یہی تو ہوتی ہے۔ جس میں خطرہ کارپوریشنز کوہوتا ہے اور اِسے پھیلا کو عوامی بنا دیا جاتا ہے۔ بس یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ اس جمہوریت میں عوام دراصل منڈی کی مخلوق ہے۔ اس رشتے کے علاوہ اس کی توجیہہ کرنے والے ’’دانشور‘‘ دراصل خود بھی نفع ونقصان کے اس کاروبار میں شریک ہیں۔ یقین نہ آئے تو اُن کے ذاتی معاملات کو ٹٹول لیجیے۔
کارپوریٹ جمہوریت دراصل ترقی کے ایک ناقص بلکہ خطرناک تصور کے ساتھ بروئے کار آتی ہے۔ افسوس ناک طور پر مغربی ممالک جس ترقی سے اوبھ رہے ہیں ہمیںاُسے گلے لگانے بلکہ گلے کا طوق بنانے پر مجبورکیا جارہا ہے۔امریکا خطرناک ترقی کے اخلاقی نتائج بھگت رہا ہے۔ سابق امریکی صدر اوباما کو دوسری مرتبہ صدارتی انتخاب لڑنے پر پوچھا گیا کہ وہ کیوں دوسری بار صدر بننا چاہتے ہیں تو اُن کا جواب تھا کہ میری بیٹیاں اگلے برس اسکول سے کالج جانے والی ہیں، میںچاہتاہوں کہ اُنہیں زیادہ احساسِ تحفظ ملے۔ جناب یہ تحفظ اُنہیں ترقی یافتہ اسکول اور کالج میں لڑکیوں کے لیے پیدا ہونے والے مسلسل مسائل کے باعث درکار تھا۔ اس سنگینی کا ادراک موٹے پیٹوں کے لشکر کر ہی نہیں سکتے ،جنہوں نے اس پورے عمل میں حمیت بھی رہن رکھوادی ہے۔
نوازشریف کی رخصتی کو جو حضرات دانشورانہ سطح پر نظام سے جوڑ کر اِسے ترقی کے منفی مضمرات کا تناظر دے رہے ہیں، وہ دراصل قومی ریاستوں کی بناؤٹ، نظام کی حقیقت اور ترقی کے درست تصورمیں سے کسی ایک چیز سے بھی آشنا نہیں۔ پھر اُنہیں شکوہ بھی لوگوں کے دانش سے واجبی تعلق کا رہتا ہے۔ ارے بھائی!کارپوریٹ جمہوریت میں ترقی اور بدعنوانی کا ایک نامیاتی رشتہ ہے۔یہ دونوں ایک ماں کی سگی بیٹیاں ہیںاور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چلتی ہیں۔ پھر یہ ترقی انسانی ترقی کا نام نہیں بلکہ اس کا مطلب مختلف پراجیکٹس ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے انسانی ترقی کے ایک منصوبے کی فائل اُٹھا کر پھینک دی تھی جس میں پنجاب کے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو جاتے۔ اُنہوں نے کہا کہ دوارب روپے ایک ایسے پراجیکٹ میں کیسے جھونکے جائیں جس کی کوئی چمک دمک عوام کی نظر وں میں ہی نہیں آئے گی۔ مگر ہاں دانش اسکول گوارا کیے جائیں گے۔ کیونکہ اس میں اربوں روپے خرچ کرکے دکھائے جاسکتے ہیں۔ کیا اب کسی کو یہ پراجیکٹ یاد بھی رہا ہے، چہ جائیکہ اس کے نتائج کا کوئی گوشوارہ طلب کیا جائے۔کارپوریٹ جمہوریت میں ترقی کی ایک بیٹا جرم بھی ہے۔ جمہوریت میں ترقی کے ساتھ بدعنوانی اور جرائم جنم لیتے ہیں۔ امریکا تو کوئی ایسا ملک نہیں جہاں نظام( یا نظم) نہ ہو۔ پھر اُس ملک میں ترقی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ۔ امریکا میں ترقی اور نظم دونوں کا ماجرا یہ ہے کہ وہاں کسی بھی جگہ پر پولیس کو پہنچنے میں صرف تین منٹ لگتے ہیں۔ اس کے باوجود وہاں چھبیس لاکھ سے زائد افراد جیلوں میں ہیں۔ امریکا میں قیدیوں کی بڑھتی تعداد کے باعث جیلوں کا نظام بھی نجکاری کی نذر کیا جانے لگا ہے۔ نجی سطح پر قائم جیلوں سے سرکاری معاہدوں کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔ امریکا میں ترقی نے سماجی سطح پر سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا کردیا ہے کہ وہاں سالانہ پانچ لاکھ طلاقیں ہونے لگی ہیں۔
ترقی کوئی سیدھا سادہ تصور نہیں۔ اس کی ایک قیمت ہے۔ مگر کارپوریٹ جمہوریت سے مفادات سمیٹنے والے دانشور اِسے انسانی معراج کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اُنہیں اس امر کا بھی کوئی اندازا ہی نہیں کہ مغربی ممالک میں سنجیدگی سے اس امر پر غور ہو رہا ہے کہ اُنہیں اپنی ترقی کی رفتار میں ساٹھ فیصد کمی کردینے چاہئے۔یہ سوچ رکھنے والے مغربی دانشور پاکستانی دانشوروں کی طرح دہائیوں کے رٹے رٹائے فقروں ، پامال تصورات کی مجروح نکتہ آفرینیوں، گھٹیا لطیفوں اور چھچھوری مثالوں پر انحصار نہیں کرتے۔ بلکہ وہ ٹھوس اعداد وشمار ، روح عصر سے آگہی کی مشقت خیز مشق اور زمانے کے بہاؤ سے اُبھرنے والی قدرتی چال پر دھیان دیتے ہیں۔ امریکی مورخ جیرڈ ڈائمنڈ بھی اُن میں سے ایک ہے۔جو امریکا میں ترقی کے نقصانات پر غور کرتے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو اُن کی کتاب
’’Collapse:How Societies choose to Fail or succeed ‘‘ کا مطالعہ کرلیں۔ ترقی کا یہ پورا تصور دراصل منڈی کی بڑھوتری کا تصور ہے جس میں مسئلہ سماج کی اخلاقی ، علمی یا انسانی ترقی کا نہیں۔ بلکہ یہ دراصل اشیاء کی خرید وفروخت کی خانہ ساز ، خیالی اور فریبی ترقی ہے۔پاکستان میں 36فیصد افراد ایسے قرار دیے جاتے ہیں جو پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا پاتے۔مگر یہاں ترقی کی ترجیحات میں یہ مسئلہ کہیں شامل ہی نہیں، کیا یہ مزاق نہیں کہ جس شہر میں بچے سڑکوں اور رکشوں میں جنم لے رہے ہیں وہاں طبی ضروریات پر نہیں بلکہ بجلی کے منصوبوں کی لاگت اور موٹروے کے فیوض وبرکات پر بحث ہوتی ہے اور اِسے ترقی کا راستا قرار دیا جاتا ہے۔ کیا یہ مزاق نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی یا حادثات میں زخمیوں کو اُٹھانے کے لیے بھی ریاست کے پاس کوئی تسلی بخش نظام موجود نہیں، اسے ایدھی اور چھیپا جیسے نجی اور فلاحی اداروں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ریاست پاکستان اپنے شہریوں کو پینے کا پانی فراہم کرتی تھی ، مگر گزشتہ دودہائیوں میں وہ بہت تیزی سے اس سے دستبردار ہوگئی۔ کیونکہ کارپوریٹ جمہوریت میں پینے کا پانی ایک منافع بخش کاربار ہے۔کارپوریٹ جمہوریت نے پاکستان کو دراصل سرمایہ داروں کے تجارتی مقاصد کا خدمت گزار بنا کررکھ دیا ہے۔ اور اس میں پیدا ہونے والے خطرات کو وہ نظام کا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ ارے بھئی یہاں کون سا ایسا نظام ہے جو ایک عام آدمی کی فلاح کا کسی بھی موقع یا مرحلے پر خیال رکھتا ہو، جس کے لیے کوئی تکلیف اُٹھائی جائے۔نظام کا یہ بھاشن اور ترقی کا یہ چورن گنگا رام اسپتال کی راہداری میں جنم دینے والے بچے کی ماں کو چٹائیے، اگر وہ اس کے لیے تیار ہوجائے تو ہم بھی اِسے چاٹ لیں گے۔ابھی تو ہمارے پاس کہنے یا سننے کے لیے برٹرنڈ رسل کا ایک حوالہ ہے جو اُن کی کتاب ’’پاؤر۔اے نیو سوشل اینالسس‘‘ میں تحریر ہے کہ قدیم ادوار میں اکثر لوگ طلسمی طاقت حاصل کرنے کے لیے خود کو شیطان کے ہاتھوں فروخت کردیتے تھے۔ اب بھی یہی ہوتا ہے بس شیطان کی جگہ حکمران نے لے لی ہے۔حکمرانوں کے ہاتھوں یہ خود فروش گاڑی کو پٹری پر رکھنے کی بات نہیں کررہے بلکہ گاڑی کا پٹرا کرنے پر تُلے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر