وجود

... loading ...

وجود
وجود

سندھ کے ریگزار میں گلزار کا سماں ۔۔فقیر کاآستانہ

اتوار 22 اکتوبر 2017 سندھ کے ریگزار میں گلزار کا سماں ۔۔فقیر کاآستانہ

اختر حفیظ
فطرت سے انسان کا رشتہ صدیوں پر محیط ہے۔ پتوں سے اپنا جسم ڈھانپنے، غاروں کو گھر بنا کر رہنے والا انسان اور دریاؤں کو مقدس ماننے والا انسان ترقی کرتا کرتا اِن فطری رنگوں بلکہ زندگی کے حقیقی رنگوں سے دور ہوتا چلا گیا۔مگر اِسی ترقی کی دوڑ نے انسان کو کافی تنہا اور حقیقی سکون سے عاری بھی کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بناوٹی آسائشی چیزوں میں گھرے رہنے کے باوجود بھی ہمیشہ ذہنی و جسمانی تسکین میں تلاش رہتا ہے جو صرف فطرت اور فطری رنگوں میں پیوستہ ہوتی ہے۔
18ویں صدی کے فرانسیسی فلسفی، روسو نے ایک بار پھر فطرت کی جانب لوٹنے کی بات کی تھی لیکن آج بھی اِس جہان میں چند ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کے لیے زر سے زیادہ دیگر فطرت سے نزدیکی اہمیت رکھتی ہے اور اپنے وجود سے زیادہ سے زیادہ انسان ذات کا بھلا کرنا چاہتے ہیں ، ساتھ ہی اْن کی خواہش ہوتی ہے کہ دْکھی لوگوں کے لیے خوشی کا باعث بنا جائے۔
سندھ، جہاں آج بھی روایتی وڈیرے لوگوں کو غلام بنائے ہوئے ہیں ، جن کا نام سنتے ہی لوگوں کے ماتھے پر شکن پڑنے لگتے ہیں وہاں چند کردار ایسے بھی موجود ہیں ، جو اپنی حلیم طبیعت اور اپنے کردار سے لوگوں کے دلوں کو جیت لیتے ہیں ۔
ضلع میرپورخاص کے شہر جھڈو سے مشرق کی جانب 20 منٹ کی مسافت پر ایک ایسا بسیرا قائم ہے جہاں ہر طرف فطری حسن کی جھلک نظر آئے گی۔ یہ اوطاق (بیٹھک) فقیر غلام حیدر لغاری کے گاؤں میں قائم ہے، جس کا نام ’فقیرانہ ککھ‘ (فقیروں کا آستانہ) ہے۔ گگھ موری سے اکال نہر کی جانب جانے والا راستہ اِسی بیٹھک کے آنگن پر آکر پہنچتا ہے، جہاں نہ صرف انسان بلکہ چرند پرند ہر آنے والے مہمان کا استقبال کرتے ہیں ۔
گگھ موری دراصل تقسیمِ ہند سے قبل سِکھوں کا گاؤں تھا، یہی وجہ ہے کہ نہر کا نام ’اکال‘ ہے، سکھ مت میں اکال پرکھ نام خدا کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے لازوال۔ آج بھی اِسی علاقے کی پسگردائی میں سِکھوں کے گاؤں موجود تھے مگر برِصغیر کی تقسیم کے بعد سِکھ چلے گئے اور ہندستان سے آنے والے لوگوں نے اِن کے گھروں کو آباد کیا ہے۔فقیرانہ ککھ ایک ایسا مہمان خانہ ہے جہاں 24 گھنٹے کھانا کھانے اور کھلانے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ یہ سلسلہ فقیر غلام حیدر لغاری کی والدہ نے 1954 میں شروع کیا تھا۔ فقیر غلام حیدر لغاری کا کہنا ہے کہ کسی زمانے میں آس پاس کی زمینوں پر پٹھان مزدور مزدوری کرنے آتے تھے، وہ اِس گاؤں میں گھر گھر جاکر کھانا مانگتے تھے۔ ایک مرتبہ جب وہ اْن کے دروازے پر آئے تو اْن کی والدہ نے اْنہیں کھانا دیا اور پھر یہ طے ہوگیا کہ آج کے بعد جو بھی انسان کھانے کے لیے یہاں آئے گا وہ خالی پیٹ نہیں جائے گا۔ چنانچہ اْن کی والدہ ہر وقت اِس کام کے لیے تیار رہتی تھیں کہ کسی بھی وقت کوئی بھی مہمان، مزدور یا فقیر کھانے کے لیے آسکتا ہے۔ اْن کی والدہ باورچی خانے میں ہی اپنا بستر لگائے رکھتی تھیں ۔ بچپن میں غلام حیدر لغاری کو اْن کی والدہ ہر روز مہمانوں یا فقیروں کی خبر گیری کے لیے اِسی مہمان خانے بھیجا کرتی تھیں ۔مگر اْن کی والدہ کے انتقال بعد اِس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے تمام تر کاوشیں فقیر غلام حیدر لغاری کی ہیں ۔آج جس جگہ پر گھنے درخت ہیں ، سبزے کی ایک چادر بچھی ہے، رنگا رنگ انگنت پھول ہیں اور بھانت بھانت کے پرندے اْڑتے اور چہچہاتے نظر آتے ہیں وہاں کسی زمانے میں ایک ویرانہ سا تھا۔ ایک ایسا بیابان جہاں انسان تو کیا جانور بھی نہیں بستے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فقیر غلام حیدر لغاری نے اِس جگہ کو گلزار میں تبدیل کیا، درخت اگائے، پھولوں کی قلمیں لگائیں اور اِس طرح یہ جگہ نہ صرف انسانوں کے رہنے لائق بن گئی بلکہ پرندوں اور جانوروں کا ایک مسکن بھی۔غلام حیدر لغاری کا بچپن ویسے تو حیدرآباد میں گزرا ہے اور وہ شہری مزاج رکھنے والے نوجوان تھے مگر اْن کے والد کی ضد پر اْنہیں اپنے گاؤں لوٹنا پڑا، جہاں اْن کا دل کافی عرصے تک نہ لگا مگر رفتہ رفتہ انہوں نے اپنے آس پاس ایک ایسی دنیا قائم کرلی جو سندھ بھر میں مشہور ہوگئی۔آج بھی یہاں مور، طوطے، کوے، الو، کبوتر، فاختائیں ، گلہریاں اور مختلف پرندے موجود ہیں جنہیں دیکھ کر ایک فرحت بخش احساس پیدا ہوتا ہے، اْنہیں دانہ اور چارہ فقیر گلام حیدر خود دیتے ہیں اور یہ پرندے ایک اشارے پر اْن کے پاس دوڑے چلے آتے ہیں ۔
غلام حیدر کا کہنا ہے کہ ‘‘مجھے بچپن میں پْھولوں اور پرندوں سے لگاؤ اْس وقت ہوا جب میں اْس زمانے کے ایک زمیندار سے ملنے اْس کے گاؤں گیا، وہاں بھی ایسا ہی ماحول تھا۔ میں وہاں سے چند پھول اپنے ساتھ لے آیا، پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ یہاں بھی شروع ہوگیا۔‘‘اْن کے گاؤں میں پرندوں یا کسی بھی جانور کا شکار کرنا سخت منع ہے۔ اِس کے علاوہ کسی بھی کسان کو اِس بات کی اجازت نہیں کہ وہ فصل کا دانہ چگنے والے پرندے کو ڈرا کر اْڑانے کی کوشش کرے۔ وہ اِس بات کے قائل ہیں کہ اِس گاؤں میں اگنے والی فصل پر جتنا کسی حق انسان کا ہے اتنا ہی پرندوں کا بھی ہے۔اگر اِن پرندوں کے دانہ کھانے سے کوئی نقصان ہوتا ہے تو وہ اِس کا جرمانہ بھرنے کے لیے تیار رہتے ہیں مگر آج تک کسی بھی کسان نے یہ شکایت نہیں کی ہے کہ اْس کی فصل اِن پرندوں کے دانہ چگنے کی وجہ سے کم ہوئی ہو۔ اِس کے علاوہ پرندوں کے لیے الگ سے فصل بھی تیار کی جاتی ہے تاکہ اْنہیں دانہ چگنے میں کوئی تکلیف نہ ہو اور اْن کے لیے ذخیرہ بھی موجود رہے۔
اِس مہمان خانے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں شاہ اور گدا کو ایک جیسا ہی کھانا ملتا ہے، کسی کے لیے بھی کوئی خاص طعام تیار نہیں کیا جاتا۔ کئی فقیر اور مسافر اِس مہمان خانے پر آتے رہتے ہیں ، جن سے کھانے کا پوچھے بغیر ہی اْن کے کھانے کا بندوبست کردیا جاتا ہے۔میں نے پوچھا، ‘کیا کبھی کوئی ایسا دن بھی گزرا جب آپ کے ہاں کوئی مہمان نہ آیا ہو؟’انہوں نے بتایا کہ ’ایک بار ایسا ہوا جب وہ پر ہی موجود تھے اور رات کافی بیت چکی تھی، اْس روز کوئی مہمان نہ آیا، وہ گھر سونے چلے گئے مگر انہیں ایک عجب سی بے چینی ہونے لگی۔ وہ واپس مہمان خانے لوٹ آئے، چند لمحوں بعد ہمارے ایک ناراض رشتے دار تشریف لائے جن سے اْن کی بات چیت ختم تھی، مگر وہ اْس رات اْن کے مہمان بنے اور ہم نے ساتھ مل کر کھانا کھایا۔
پرندوں کے ساتھ صبح چار بجے اْٹھنے والے غلام حیدر لغاری کو اِس بات کا سہرا بھی جاتا ہے کہ پرائمری اسکول میں پڑھنے والے بچوں کو بھی کھانا اِنہی کے گھر سے بھیجا جاتا ہے۔غلام حیدر بتاتے ہیں کہ ’وہ جب صبح صبح اِن بچوں کو اسکول آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ایک احساس ہوا کہ یہ گھروں سے کچھ کھا کر بھی آتے ہیں یا اِن کے والدین اْنہیں بھوکے پیٹ بھیج دیتے ہیں ، اِس لیے انہوں نے اْن کے کھانے کا بندوبست رسیس میں کردیا ہے۔ اب ہر بچے کو کھانا ملتا ہے۔اِس کے علاوہ اسکول میں پڑھنے والے ہر بچے کو روزانہ جیب خرچ کے 5 روپے بھی فقیر غلام حیدر کے ہی ذمے ہے۔یہ مہمان خانہ جس جگہ پر قائم ہے وہاں ایک شاعر صابر علی سچار ہوا کرتے تھے۔ جو یہاں پر ڈیرہ ڈال کر اپنا کلام کہتے رہتے تھے۔ اْن کی وفات کے بعد اْن کا مزار بھی اِسی احاطے میں تعمیر کیا گیا ہے۔یہ جگہ کسی فطری میوزیم سے کم نہیں ہے۔ یہاں آنے کے بعد لوٹنے کو جی ہی نہیں کرتا۔ ہر طرف ہرے بھرے کھیت کھلیان، درختوں سے بھرپور گاؤں ، جہاں جتنے چاہیں درخت لگائیں مگر سوکھے ہوئے درخت کو بھی کاٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ فقیر غلام حیدر لغاری اپنے مزاج میں صوفی ہیں ، اِس لیے یہاں راگ رنگ کی محفلیں بھی ہوتی رہتی ہیں ، میرے لیے اِس جگہ کو دیکھنا ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔ یہاں انہوں نے ایک ایسی دنیا آباد کر رکھی ہے، جہاں پر انسان اور چرند پرند کی ایک سی اہمیت ہے اور اْنہیں ایک جیسا ہی تحفظ حاصل ہے۔فقیر غلام حیدر جیسے فطرت و ماحول دوست کردار ہی اِس ملک کا اثاثہ ہیں ، جو نہ صرف انسانوں بلکہ پرندوں اور جانوروں کے درد کو بھی بھانپ لیتے ہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر