وجود

... loading ...

وجود

تعلیم تجارت یامشن ۔ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر

جمعه 20 اکتوبر 2017 تعلیم تجارت یامشن ۔ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر

پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کارہنما اور خاص طورپر حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے رہنما اور وزرا جب بھی کسی جلسے یاتقریب سے خطاب کرتے ہیں توسب سے پہلے تعلیم کی اہمیت پر زوردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتی ،جبکہ دوسری جانب سرکاری اسکولوں پر نظر ڈالیں تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس اسکولوں کے چوکیدار اور چپراسی بھی اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں تعلیم دلوانے کوتیار نہیں ہوتے،اسکولوں کی زبوں حالی کے بارے میں حال ہی میں شائع ہونے والے مضامین اور تصاویر سے سرکاری اسکولوں کی حالت زار کا با آسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔اخبارات میں سرکاری اسکولوں کی حالت کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹوںا ورمضامین سے ظاہرہوتاہے کہ بیشتر سرکاری اسکولوں میں طلبہ کو پینے کے پانی کی سہولت ،حاصل نہیں ہے ، ٓاسکولوں کی اکثریت بجلی جیسی نعمت سے محروم ہے، اور بچوں کو حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے لیے اسکولوں کے ارد گرد واقع مکانوں کے مکینوں کی خوشامد کرنا پڑتی ہے۔ان اسکولوں کے اساتذہ کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ جب سے اساتذہ کی حاضری کویقینی بنانے کے لیے بایو میٹرک سسٹم نافذ کیاگیاہے برسہابرس سے کسی شکوہ شکایت کے بغیر ڈیوٹیاں انجام دینے والے اساتذہ کی جانب سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواستوں کے انبار لگ گئے ہیں جس سے ظاہر ہوتاہے کہ اساتذہ کی اکثریت ڈیوٹی دئے بغیر تنخواہیں اورمراعات وصول کرنے اورسرکاری اسکولوں میں ڈیوٹی کے اوقات میں اپنے نجی اسکول اورکوچنگ سینٹر چلانے کی اس قدر عادی ہوچکی ہے کہ اب ڈیوٹی کی پابندی انھیں شاق گزر رہی ہے۔
سرکاری اسکولوں کی اس زبوں حالی اور ابتر صورت حال کا سب سے زیادہ فائدہ تعلیم کے نام پرتجارت کرنے والے نجی تعلیمی اداروں کوپہنچاہے کیونکہ اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے والے والدین کے پاس اب نجی اسکولوں کارخ کرنے اور اپنا پیٹ کاٹ کر ان کی منہ مانگی فیس اداکرنے کے سوا کوئی چارہ نہیںہے، نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے شہریوں سے فیسوں کے نام پر بھاری رقوم کی وصولی کا سلسلہ یوں توبرسہابرس سے جاری ہے اور ہر سال کے اختتام پر اور بعض اوقات درمیان ہی میں نجی اسکولوں کی فیسوں میں من مانا اضافہ کیاجانا ایک معمول بن چکاہے اور ان کی اس من مانی پر توجہ دینے اور غریب والدین کو ان کی چیرہ دستیوں سے بچانے والا بظاہر کوئی نہیں تھاکیونکہ محکمہ تعلیم کے افسران یا تو نجی تعلیمی اداروں سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں یا اندرون خانہ اس لوٹ مار سے اپنا حصہ وصول کررہے ہیں جس کی وجہ سے انھوں نے نجی اسکولوں کے خلاف والدین کی شکایت پر کبھی مناسب توجہ دینا ضروری تصور نہیں کیا،لیکن بھلا ہو پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست کا کہ اس کے نتیجے میں عام شہریوں میں بھی اپنے مسائل حل کرانے کے لیے احتجاج اور مظاہروں کی اہمیت کااندازہ ہوگیا ہے اس کی ایک تازہ جھلک والدین کی اْس مہم کی صورت میں نظر آئی جس کے تحت سیکڑووں کی تعداد میں والدین نے گزشتہ دنوں کراچی کے ممتاز نجی اسکولوں کے مرکزی دفاتر کے باہر مظاہرہ کیا اور فیسوں میں ہوش ربا اضافے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔محض گنتی کے چند والدین سے شروع ہونے والی یہ مہم آج ایک منظم اور پْرامن قانونی لڑائی میں تبدیل ہوگئی اورکراچی کے صرف ایک معروف نجی اسکول نیٹ ورک کے خلاف تقریباً 500 والدین یکجا ہوگئے۔ اِن والدین کا مؤقف واضح ہے۔ فیسوں میں من مانا اضافہ روکا جائے اور اِسے سندھ پرائیوٹ اسکول آرڈیننس میں مختص کردہ (زیادہ سے زیادہ) 5 فیصد سالانہ اضافے تک محدود کیا جائے۔
والدین کی یہ جدوجہد طویل بھی ہے اور کٹھن بھی اور اِس کے کئی روشن اور تاریک پہلو ہیں۔ اْمید افزا بات یہ ہے کہ اتنے برس میں پہلی دفعہ والدین منظم ہوئے اور انہیں ایسپا (آل اسکول پیرنٹس ایسوسی ایشن) بنانے کا خیال آیا۔ اپنے قانونی حقوق سے آگاہی اور عدالتی نظام پر عام آدمی کا یقین بھی اِس حوالے سے بہت خوش آئند ہے۔تاہم اِس معاملے کا سب سے حساس اور فکر انگیز پہلو یہ ہے کہ والدین اِن اسکولوں کے سامنے سینہ سپر ہیں جہاں اِن کے بچے ہنوز زیر تعلیم ہیں۔ بعید نہیں کہ فریق اسکول اِس مہم جوئی کا بدلہ بچوں سے لیں۔ ماضی میں کراچی کا ایک ممتاز نجی اسکول ایسا کرچکا ہے جہاں اسکول کی بے جا فیسوں کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکانے والے گھرانوں کے بچے امتیازی سلوک کا نشانہ بنے۔ عدالت کے واضح حکم کے باوجود اْن بچوں کے سیکشن الگ کیے گئے، اْنہیں واش روم کے باہر بٹھا کر لنچ کروایا جاتا، مارننگ اسمبلی میں دیگر بچوں کے سامنے نادہندہ کے طور پر ذلیل کیا جاتا اور تعلیم، امتحان اور کھیل کے مساوی حقوق سے محروم کیا گیا۔
اسکول انتظامیہ کے امتیازی رویے سے تنگ آکر کئی بچے اسکول چھوڑ گئے جبکہ باقیوں کو اِس معاملے میں بھی عدالت عظمیٰ کا سہارا لینا پڑا۔ غرض یہ کہ اِس تمام تر قصے میں بچوں کا تعلیمی مستقبل داؤ پر لگا نظر آتا ہے۔ اتنے اندیشوں اور دیگر والدین کے تلخ تجربوں کے باوجود سینکڑوں کی تعداد میں والدین کا دیگر نجی اسکولوں کے خلاف کھڑا ہونا کسی معجزے سے کم نہیں۔والدین کی فعال تنظیم، فیصل ایسوسی ایشن کے سربراہ فیصل احمد گزشتہ 3 برسوں سے اِس مقصد کے لیے کوشاں ہیں۔ اول اول اْن کا رابطہ پہلے نجی اسکول کے خلاف آواز اٹھانے والے والدین سے ہوا اور آج وہ ایک اور بڑے نجی اسکول نیٹ ورک کے ہاتھوں ستائے گئے والدین کی تنظیم کے صدر ہیں۔ فیصل کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہر مرحلے اور ہر سطح پر اِس مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کی لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا،ان کے مطابق اول تو اسکول انتظامیہ والدین کو گھاس ہی نہیں ڈالتی اور اگر کہہ سن کر بیسیوں درخواستوں اور فون کالز کے بعد ملاقات ہو بھی جائے تو میں نہ مانوں کی ایک رٹ ہوتی ہے۔ حیلے بہانوں سے معاملے کو طول دیا جاتا ہے اور زیادہ بحث مباحثے پر انفرادی چھوٹ دینے کی پیشکش ہوتی ہے۔ جب معاملہ یوں بھی نہ سلجھے تو دھمکیوں کی نوبت آجاتی ہے۔
فیصل کا کہنا تھا کہ قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ وہ انتہائی قدم تھا جو والدین نے اسکول کی ہٹ دھرمی اور ڈائریکٹر جنرل کے نوٹیفکیشن کی مستقل حکم عدولی کے بعد مجبوراً اٹھایا۔ اِس حوالے سے والدین کا مطالبہ حق بجانب ہے۔ اْنہیں اسکول کی فیسیں دینے سے انکار نہیں لیکن پچھلے 3 برسوں کے دوران جس انداز سے متعلقہ اسکول کی فیسوں میں سالانہ 10 سے 15 فیصد بلاجواز اضافہ کیاگیا ہے، والدین اِسے قانون کی سراسر خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔گویا فی بچہ، مئی سے اگست تک ہر سال، ماہانہ 5 سے 10 ہزار تک کا اضافہ معمول کی بات ہے۔ اِس پر تعلیم کا گرتا معیار اور آئے دن مختلف مقابلوں اور سرگرمیوں کے نام پر ہزاروں کا خرچہ الگ درد سر ہے۔
اسکول میگزین اور اسٹیشنری کے نام پر بھی گاہے بہ گاہے خوب رقم بٹوری جاتی ہے۔ اِس پر مستزاد حکومت کی جانب سے عائد کردہ نیا تعلیمی ٹیکس، جسے والدین کے کھاتے میں ہی ڈال دیا گیا ہے۔ بقول ایک والد، یوں معلوم ہوتا ہے کہ اسکول محض فیسیں بٹورنے، امتحان لینے اور غیر ضروری سرگرمیوں کے نام پر چندہ جمع کرنے کے کاروباری مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں جہاں علم اور دانش ندارد ہے بس مسابقت اور دکھاوے کا گورکھ دھندہ ہے۔
اِس حوالے سے اسکول انتظامیہ بات کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے۔ اْن کا کہنا تھا کہ اِس موضوع پر اْن کے وکیل عدالت میں اپنا مؤقف بیان کریں گے۔ نیز فیسوں میں5 فیصد اضافے کا قانون بھی عدالت میں چیلنج کیا جاچکا ہے۔ کیس کی سماعت مکمل ہوچکی ہے اور فیصلے کا انتظار ہے جو اْنہیں یقین ہے کہ اسکولوں کے حق میں ہوگا کیوںکہ مہنگائی کے تناظر میں فیسوں میں اضافہ فطری عمل ہے اور اِس میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی گئی۔ اگر کچھ والدین فیسیں ادا نہیں کرسکتے تو اْنہیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ہمارے معیاری (برانڈڈ) اسکولوں سے نکال کر اپنی استطاعت کے مطابق سستے اسکولوں میں داخل کرا دیں۔مگر والدین کا کہنا ہے کہ وہ فیسیں دے سکتے ہیں جب ہی انہوں نے اپنے بچوں کو بہتر معیارِ تعلیم اور روشن مستقبل کی خاطر اِن اسکولوں میں داخل کرایا تھا۔ لیکن اسکول انتظامیہ کو من مانی کرنے کی اجازت دینے کوتیار نہیںہیں۔
حمود الرحمٰن جو خود بھی وکیل ہیں اور اِس کیس کے حوالے سے والدین کی نمائندگی کر رہے ہیں اْن کا کہنا ہے کہ 2001 میں پاس کیا گیا سندھ پرائیوٹ اسکول آرڈیننس ایک نہایت جامع اور عمدہ قانون ہے جس کو اگر درست طریقے سے لاگو کیا جائے تو اِس کے تحت تمام فریقین بشمول اسکول اور والدین کے جائز حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔اِس قانون میں نجی اسکولوں کو فیسوں میں بے جا اضافے کی کھلی چھٹی نہیں دی گئی، بلکہ زیادہ سے زیادہ 5 فیصد اضافے کو بھی متعلقہ انسپکشن کمیٹی کی سفارش درکار ہے جس کا انحصار براہِ راست اسکول میں دی جانے والی سہولتوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ نجی اسکولوں کا ایک بڑا اتحاد جس میں لگ بھگ ایک درجن کے قریب نامی گرامی نجی اسکول شامل ہیں، اْس کے خلاف مدعی بن کر سامنے آئے ہیں۔
مساوی اور معیاری تعلیم ریاست کا وعدہ بھی ہے اورآئینی ذمہ داری بھی، تاہم اِس کی پاسداری میں ریاست بْری طرح ناکام رہی ہے۔ ماضی میں نجی اسکولوں نے پاکستان میں وہ خلاپْر کیا جو تعلیم کے شعبے کو قومیائے جانے کے بعد پیدا ہوگیا تھا۔ تاہم یہ خلا پْر کرتے کرتے اْنہوں نے تعلیم کی تجارت شروع کردی اور اْسے طبقات میں بانٹ دیا اور محکمہ تعلیم نے اِس پرکوئی دھیان دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ، عام والدین کاخیال ہے کہ محکمہ تعلیم کے متعلقہ افسران کی جانب سے نجی اسکولوں کے مالکان کی لوٹ مار سے اس چشم پوشی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر افسران کے کچن کاخرچ یہی نجی اسکولوں کے مالکان برداشت کرتے ہیں،اس صورت حال میںوالدین کی امید کا واحدمرکز ملک کی اعلیٰ عدلیہ ہے کیونکہ اب نجی اسکولوں کی لوٹ مار پر قدغن عدلیہ ہی لگاسکتی ہے اورمحکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کو نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کو نکیل ڈالنے پر مجبور کرسکتی ہے۔


متعلقہ خبریں


ڈیرہ اسماعیل خان میں آپریشن، 7دہشگرد ہلاک( سپاہی شہید) وجود - منگل 16 دسمبر 2025

سکیورٹی فورسز کی کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کارروائی، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہلاک دہشت گرد متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔آئی ایس پی آر سکیورٹی فورسز کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کیے گئے آپریشن میں 7 دہشت گرد مارے گئے۔آئی ایس...

ڈیرہ اسماعیل خان میں آپریشن، 7دہشگرد ہلاک( سپاہی شہید)

معاشی مشکلات سے آئی ایم ایف نہیں کراچی نکال سکتاہے،مصطفی کمال وجود - منگل 16 دسمبر 2025

کراچی رہنے کیلئے بدترین شہرہے، کراچی چلے گا تو پاکستان چلے گا، خراب حالات سے کوئی انکار نہیں کرتاوفاقی وزیر صحت کراچی دودھ دینے والی گائے مگر اس کو چارا نہیں دیاجارہا،میں وزارت کو جوتے کی نوک پررکھتاہوں ،تقریب سے خطاب وفاقی وزیر صحت مصطفی کما ل نے کہاہے کہ کراچی رہنے کے لیے ب...

معاشی مشکلات سے آئی ایم ایف نہیں کراچی نکال سکتاہے،مصطفی کمال

بجلی کی ترسیل کارکمپنیوں کی نجکاری کاعمل تیز کیا جائے ،وزیراعظم وجود - منگل 16 دسمبر 2025

ملک میں مسابقت پر مبنی بجلی کی مارکیٹ کی تشکیل توانائی کے مسائل کا پائیدار حل ہے تھر کول کی پلانٹس تک منتقلی کے لیے ریلوے لائن پر کام جاری ہے،اجلاس میں گفتگو وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بجلی کی ترسیل کار کمپنیوں (ڈسکوز) اور پیداواری کمپنیوں (جینکوز) کی نجکاری کے عمل کو تیز کر...

بجلی کی ترسیل کارکمپنیوں کی نجکاری کاعمل تیز کیا جائے ،وزیراعظم

غزہ کی پٹی طوفانی بارشوں ،سخت سردی کی لپیٹ میں (12 افراد جاں بحق ) وجود - منگل 16 دسمبر 2025

طوفانی بارشوں کے باعث المواصی کیمپ میں پوری کی پوری خیمہ بستیاں پانی میں ڈوب گئیں مرنے والوں میں بچے شامل،27 ہزار خیمے ڈوب گئے، 13 گھر منہدم ہو چکے ہیں، ذرائع اسرائیلی بمباریوں کے بعد اب طوفانی بارشوں اور سخت سردی نے غزہ کی پٹی کو لپیٹ میں لے لیا ہے، جس سے 12 افراد جاں بحق او...

غزہ کی پٹی طوفانی بارشوں ،سخت سردی کی لپیٹ میں (12 افراد جاں بحق )

آزادی یا کفن، حقیقی آزادی چھین کرلیں گے ،وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا وجود - پیر 15 دسمبر 2025

اس بار ڈی چوک سے کفن میں آئیں گے یا کامیاب ہوں گے،محمود اچکزئی کے پاس مذاکرات یا احتجاج کا اختیار ہے، وہ جب اور جیسے بھی کال دیں تو ہم ساتھ دیں گے ،سہیل آفریدی کا جلسہ سے خطاب میڈیٹ چور جو 'کا کے اور کی' کو نہیں سمجھ سکتی مجھے مشورے دے رہی ہے، پنجاب پولیس کو کرپٹ ترین ادارہ بن...

آزادی یا کفن، حقیقی آزادی چھین کرلیں گے ،وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا

سڈنی حملہ دہشت گردی،یہودیوں کو نشانہ بنایا گیا، آسٹریلوی وزیراعظم وجود - پیر 15 دسمبر 2025

مرنے والے بیشتر آسٹریلوی شہری تھے، البانیز نے پولیس کی بروقت کارروائی کو سراہا وزیراعظم کا یہودی کمیونٹی سے اظہار یکجہتی، تحفظ کیلئے سخت اقدامات کی یقین دہانی آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے سڈنی کے ساحل بونڈی پر ہونے والے حملے کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اسے یہودیوں...

سڈنی حملہ دہشت گردی،یہودیوں کو نشانہ بنایا گیا، آسٹریلوی وزیراعظم

بھتا خور ریحان کی نشاندہی پر قادری ہاؤس پر چھاپہ مارا،ایس آئی یو پولیس وجود - پیر 15 دسمبر 2025

زخمی حالت میں گرفتار ملزم 4 سال تک بھتا کیس میں جیل میں رہا، آزاد امیدوار کی حیثیت میں عام انتخابات میں حصہ لیا 17 افراد زیر حراست،سیاسی جماعت کے لوگ مجرمان کو پناہ دینے میں دانستہ ملوث پائے گئے تو ان کیخلاف کارروائی ہوگی ایس آئی یو پولیس نے ناظم آباد میں سیاسی جماعت کے سر...

بھتا خور ریحان کی نشاندہی پر قادری ہاؤس پر چھاپہ مارا،ایس آئی یو پولیس

تقسیم پسند قوتوںسے نمٹنے کیلئے تیارہیں ،فیلڈمارشل وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

ہائبرڈ جنگ، انتہاء پسند نظریات اور انتشار پھیلانے والے عناصر سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں، سید عاصم منیرکا گوجرانوالہ اور سیالکوٹ گیریژنز کا دورہ ،فارمیشن کی آپریشنل تیاری پر بریفنگ جدید جنگ میں ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی، چابک دستی اور فوری فیصلہ سازی ناگزیر ہے، پاک فوج اندرونی اور بیر...

تقسیم پسند قوتوںسے نمٹنے کیلئے تیارہیں ،فیلڈمارشل

پاکستان سیاستدانوں ، جرنیلوں ، طاقتوروں کا نہیں عوام کاہے ، حافظ نعیم وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، نوجوان مایوس نہ ہوں ،حکمران طبقہ نے قرضے معاف کرائے تعلیم ، صحت، تھانہ کچہری کا نظام تباہ کردیا ، الخدمت فاؤنڈیشن کی چیک تقسیم تقریب سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، نوجوان مایوس...

پاکستان سیاستدانوں ، جرنیلوں ، طاقتوروں کا نہیں عوام کاہے ، حافظ نعیم

ایف سی حملے میں ملوث دہشتگرد نیٹ ورک کا سراغ مل گیا وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

حملہ آوروں کا تعلق کالعدم دہشت گرد تنظیم سے ہے پشاور میں چند دن تک قیام کیا تھا خودکش جیکٹس اور رہائش کی فراہمی میں بمباروں کیسہولت کاری کی گئی،تفتیشی حکام ایف سی ہیڈکوارٹرز پر حملہ کرنے والے دہشتگرد نیٹ ورک کی نشاندہی ہو گئی۔ تفتیشی حکام نے کہا کہ خودکش حملہ آوروں کا تعلق ...

ایف سی حملے میں ملوث دہشتگرد نیٹ ورک کا سراغ مل گیا

سہیل آفریدی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کیخلاف متحرک وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

غذائی اجناس کی خود کفالت کیلئے جامع پلان تیار ،محکمہ خوراک کو کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت اشیائے خوردونوش کی سرکاری نرخوں پر ہر صورت دستیابی یقینی بنائی جائے،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی نے محکمہ خوراک کو ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی ...

سہیل آفریدی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کیخلاف متحرک

معاشی بحران سے نکل چکے ،ترقی کی جانب رواں دواں،وزیراعظم وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

ادارہ جاتی اصلاحات سے اچھی حکمرانی میں اضافہ ہو گا،نوجوان قیمتی اثاثہ ہیں،شہبا زشریف فنی ٹریننگ دے کر برسر روزگار کریں گے،نیشنل ریگولیٹری ریفارمز کی افتتاحی تقریب سے خطاب وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک معاشی بحران سے نکل چکاہے،ترقی کی جانب رواں دواں ہیں، ادارہ جات...

معاشی بحران سے نکل چکے ،ترقی کی جانب رواں دواں،وزیراعظم

مضامین
ٹرمپ بڑے پیمانے پہ کچھ کرنا چاہتے ہیں! وجود منگل 16 دسمبر 2025
ٹرمپ بڑے پیمانے پہ کچھ کرنا چاہتے ہیں!

نئے فلو ویرینٹ کے بڑھتے خدشات اور ہماری ذمّہ داریاں وجود منگل 16 دسمبر 2025
نئے فلو ویرینٹ کے بڑھتے خدشات اور ہماری ذمّہ داریاں

دسمبر تُو نہ آیا کر وجود منگل 16 دسمبر 2025
دسمبر تُو نہ آیا کر

مردوں کو گالیاں وجود پیر 15 دسمبر 2025
مردوں کو گالیاں

ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ وجود پیر 15 دسمبر 2025
ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر