وجود

... loading ...

وجود
وجود

دیربالا کے پہاڑی علاقوں کے دلفریب مناظر!

اتوار 10 ستمبر 2017 دیربالا کے پہاڑی علاقوں کے دلفریب مناظر!

ہم جب بھی پشاور جاتے تھے تو دوستوں کا اصرار ہوتا کہ دیر بالا چلنا چاہئے،لیکن پشاور سے دیربالا تک 6گھنٹے کا سفر سوچ کر ہی پسینہ آجاتا تھا ،لیکن اس دفعہ جب ہم پشاور پہنچے تودوست مصرہوگئے کہ اس دفعہ تو دیربالا ضرور ہی جانا ہے ، بہرحال دوستوں کے اصرار پر ہم اس پرخطر سفر پر تیار ہوگئے،دوست کے پاس گاڑی تھی اور وہ بھی نئی لہٰذا ناشتے کے بعد سفر کاآغاز کیا،جوں جوں ہم آگے بڑھتے جارہے تھے ایک پْرکیف سا ماحول طاری ہوتا جارہاتھا۔ ہم سب ایک دوسرے سے بے خبر گردنوں کو گاڑی کے شیشوں کی جانب موڑ ے حسین نظاروں میں غرق ہوچکے تھے۔ گاڑی میں جو دوست ڈرائیونگ سیٹ پر تھا صرف اْس کا ہی دھیان سڑک پر تھا۔واڑی بازار سے ہماری گاڑی نے چیونٹی کی رفتار پکڑلی، پختہ سیاہ کارپٹ نما سڑک کے ایک جانب بہتا دریا جس کے کنارے سبزہ زار تھا، جب کہ دوسری جانب تاحدِ نگاہ اونچے پہاڑ، سبز ڈھلوانوں کے اوپر لکڑیوں سے بنی جھونپڑیاں ، جس کے آس پاس چرتے مویشی، لہلہاتے کھیتوں میں مگن کسان، محسوس ہورہا تھا کہ ایسی بستی ہے کہ گویا یہاں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ القصہ ہم ایک چوراہے تک پہنچ گئے جس پر ایک گھڑسوار کا بڑا تراشیدہ مجسمہ نصب تھا۔ یہ دیر بالا شہر کا مرکزی حصہ ہے۔
گاڑی پارک کرکے تھوڑی دیر ایک ریستوران میں دودھ پتی چائے کی چسکیوں کا مزا لیا اور تھوڑی دیر سستانے کے بعد ہم نے دیر بالا بازار میں مٹرگشت شروع کردی۔اگست کے اوائل میں بھی دیر بالا کا موسم معتدل تھا۔ دیربالا کے پہاڑی علاقوں کے دلفریب مناظر سیاحوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، لیکن دیر بالا کے مرکزی شہر کا بازار ثقافت و روایات کا ایک ایسا خزانہ ہے جسے سیاح دن بھر ٹٹولتے رہیں لیکن جی نہ بھرے۔ گھومتے پھرتے جیسے ہی ہم مرکزی بازار میں داخل ہوئے تو پنڈی کے ’راجہ بازار‘ کی یاد تازہ ہوئی۔ تنگ گلی نما بازار، جابجا تجاوزات اور ریڑھی بانوں کی قطاریں جہاں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر انتظامیہ بروقت تجاوزات اور غیرقانونی تعمیرات کے خلاف حرکت میں نہیں آئی تو آنے والے چند برسوں میں بڑے مسائل کا سامنا ہوگا۔ مرکزی بازار کے قریب ہی ایک بڑے ڈھلوان پر دیر نواب شاہ جہان خان کا گھر بھی موجود ہے۔ جس سے ریاست دیر کے آثار جھلکتے ہیں ۔ دیر کے نوابوں نے 1947 تا 1969تک ریاست دیر پر حکمرانی کی۔ شاہ جہان دیر کے آخری نواب تھے۔ بعض مصنفین کے مطابق نواب شاہ جہان انتہائی ظالم و جابر حکمران تھے، جس کی وجہ سے دیر کے عوام نے اْن سے منہ موڑنا شروع کردیا اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کیا، مگر نواب شاہ جہان نے پھر بھی اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لئے کافی حد تک مزاحمت کی تو انہیں نظر بند کرنا پڑا۔
1969 میں یہ دیر بطور ریاست پاکستان میں ضم کردی گئی اور مالاکنڈ ڈویژن بننے کے بعد 1970 میں اِس کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ 1996 میں ضلع دیر مزید دو حصوں لوئر دیر اور اَپر دیر میں تقسیم کیا گیا۔ ریاست سوات اور دیر دونوں کا ایک ساتھ پاکستان میں انضمام ہوا۔ شانگلہ کو ضلع کا درجہ دینے کے بعد سوات ایک وسیع اور بڑی آبادی والا ضلع ہونے کے باوجود مزید ضلعوں میں تقسیم نہیں ہوا۔
سوات کی پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ سیاسی حلقوں نے اب سوات کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ اٹھایا ہے، مگر اکثریتی سیاسی حلقے سوات کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنے کی محض اِس موقف کو لے کر مخالفت کررہے ہیں کہ اِس انتظامی تقسیم سے اخوت و ہم آہنگی کو ٹھیس پہنچنے کا خدشہ ہے۔ حالانکہ زمینی حقائق فرانس، جرمنی اور جاپان کی صورت میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں ۔ جہاں سب سے ذیادہ صوبے اور اضلاع کو ترتیب دے کر انتظامی امور میں آسانی پیدا کردی گئی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس تقسیم کو سیاسی، لسانی، اور قومیت کو بنیاد بنا کر نہیں بلکہ صرف انتظامی مقاصد کے لئے کیا جائے تب سودمند ثابت ہوسکتی ہے۔
جب ہم نے سوات کوہستان(ضلع سوات کا بالائی حصہ) اور اَپر دیر کا ترقی کے لحاظ سے موازنہ کرنے کی غرض سے سہولتی مراکز کا جائزہ لیا تو انگشت بدنداں رہ گئے۔ کوہستان ضلع سوات کا تیسرا بڑا حصہ ہے، جہاں ملکی و غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی یہاں کوئی بینک موجود نہیں ۔
اِس کے برعکس دیر بالا میں خیبر بینک کے علاوہ کئی نجی بینک اے ٹی ایم مشینوں کی سہولت کے ساتھ موجود ہیں ۔ معیاری سرکاری اسپتال، اسکول و کالج کے علاوہ انتظامی امور کے تمام ادارے ڈی سی ہاؤس، دفتر ضلع ناظم، ڈی پی او ہاؤس چند قدموں کے فاصلے پر دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بنیادی سہولیات کسی حد تک موجود ہیں ۔ یہ سب دیکھنے کے بعد ہم نے تو یہی محسوس کیا کہ یہ سب کچھ ضلع کی حیثیت پانے کے ثمرات ہیں ۔
اپنے اِس خیال کو پختہ کرنے کے لئے راقم نے دیربالا کے ایک پسماندہ علاقہ مانکر سے تعلق رکھنے والے محقق و مصنف ڈاکٹر حضرت بلال سے نشست رکھی تو انہوں نے تائید کرتے ہوئے بتایا کہ دیربالا میں ترقی کی رفتار انتظامی تقسیم کے بعد تیز ہوئی۔ اْن کے مطابق اب ہمارے تمام تر ضلعی امور با آسانی نبٹائے جارہے ہیں ، دیر لوئر اور دیربالا کے تمام انتظامی دفاتر الگ الگ ہونے کی بدولت شہریوں کی مشکلات میں حددرجہ کمی واقع ہوئی ہے۔ حالیہ بلدیاتی نظام قائم ہونے کے بعد ضلعی اسمبلی کا فلور ہماری دسترس میں ہے، جہاں ہم اپنے تمام تر مسائل کو آسانی سے زیرِغور لاسکتے ہیں ۔
ڈاکٹر حضرت بلال کہتے ہیں کہ تھل لاموتی اور مانکر کو حال ہی میں سب ڈویژن بھی بنادیا گیا ہے جس سے ترقی کی راہیں مزید ہموار ہوگئی ہیں ، مگر ایک شکوہ جو ہمیشہ قدرتی مناظر سے سجے پسماندہ علاقوں کے باشندوں کا حکومت وقت سے رہتا ہے کہ، اْن کو کہیں نہ کہیں ضرور نظرانداز کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ تھل، لاموتی اور کْمراٹ کو، قدرتی جھیلوں ، آبشاروں اور چشموں سے مالامال سیاحتی علاقے ہونے کے باوجود خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ فوٹو: گل حسین اور وہاں کے باشندے اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم رکھے گئے ہیں ۔
اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ دیربالا کی ضلعی حکومت اور انتظامیہ بالائی سیاحتی علاقوں بالخصوص کمراٹ اور باڈگوئی کی خستہ حال سڑکوں پر خصوصی توجہ مرکوز رکھے تو دیر بالا کی سیاحت مزید پروان چڑھے گی، جس سے نہ صرف مقامی افراد کو روزگار کے بہتر مواقع میسر آئیں گے بلکہ ملکی معیشت بھی مستحکم ہوگی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر تیارہوگی اگرحکومت ا س حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کررہی ہوتی تو شاید آج حکومت کی توجہ اس طرف دلانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر