وجود

... loading ...

وجود
وجود

آئیں ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی اور تاریخ پر نظر ڈالیں

منگل 05 ستمبر 2017 آئیں ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی اور تاریخ پر نظر ڈالیں

اس سے قبل تو امریکی بار بار ڈو مور کا کہا کرتے تھے اور ہمارے ملک کے پٹھو حکمران اس پر عمل بھی کرتے تھے جس کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی بڑھی۔ مگر اب کے صدر امریکا نے ڈونلڈ ٹرمپ نے کھل کر پاکستان کو دھمکی دی ہے۔ پہلے ایک فون کال پر ہمارے کمانڈو نے امریکا کے نو کے نو مطالبات مان کر موجودہ دہشت گردی کی بنیاد رکھی اور افغان طالبان کی جائز اسلامی حکومت کو ختم کیا گیا جو پاکستان کی دوست اور بھارت کی مخالف تھی جس سے پشتونستان کا مسئلہ د ب گیا تھا اور ہماری مغربی سرحد تاریخ میں پہلی مرتبہ محفوظ ہو گئی تھی۔ مگر اب کے بہادر سپہ سالار نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ ہمیں امریکا کی امداد کی ضرورت نہیں۔ ہم امریکا کی افغانستان کی جنگ کو پاکستان میں کسی صورت بھی نہیں لا سکتے۔ ہم نے دنیا کے تمام ملکوں سے زیادہ دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہے ہمارے70 ہزار شہری اور فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ ہمارے ملک کا 150 ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ آپ پھر بھی ڈو مور کی رٹ لگا کر دھمکی دے رہے ہیں۔ بلکہ ہم آپ سے اور دنیا سے مطالبہ ہم کرتے ہیں کہ ہماری قربانیوں کا اعتراف کریں۔اس بار ملک کے وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وزیر خارجہ نے امریکا کا دورہ بھی منسوخ کیا اور امریکی نائب وزیر کو پاکستان کا دورہ کرنے سے روک دیاگیا جو کہ بلاشبہ پاکستان کے عوام کی ترجمانی ہے۔ ملک کے کونے کونے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی کے خلاف عوام نے مظاہرے شروع کردیے جو اب بھی جاری ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان نے پورے ملک میں 6ستمبر کو یوم دفاع کے موقع پر لاکھوں نوجوانوں کے احتجاج کے ساتھ ٹرمپ کی دھمکی کا جواب دینے کا اعلان کیا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیںکہ مغربی دنیا ایک اسلامی ایٹمی ملک پاکستان کوبرداشت کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں۔ ویسے بھی امریکا صلیبی ورلڈ پاور ہے ۔ وہ کب ایک مسلمان ملک کو پھولتا پھلتا دیکھ سکتا ہے۔ اسی لیے اندرون خانہ دوستی کے بہانے پاکستان کو توڑنے کی سازشیں کرتا رہتا ہے۔اس نے گریٹ گیم کے تحت پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو کمزور کرنے اور اس کے حصے بخرے کرنے کی اسکیم میں بھارت سے دفاعی معاہدہ بھی کر لیا ہے۔ جس میں پشتونستان ، جناح پوراور گریٹر بلوچستان وغیرہ بنانا شامل ہیں۔ بھارت کوایٹمی سپلائر گروپ کا ممبر بھی بنانے کی بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔ امریکاکے پینٹاگون اور امریکی تھنک ٹینک نے بہت پہلے پاکستان کی تقسیم کے نقشے بھی جاری بھی کیے تھے۔ جس کا ہمارے مقتدر حلقوں کو ہم سے زیادہ علم ہے۔ اس لیے وہ سوچ سمجھ کر قدم اُٹھائیں گے۔ گو کہ چین نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے مگر اس وقت پاکستان کو ورلڈ آڈر والے امریکاکے صدر نے کھلم کھلا دھمکی دی ہے۔ اس لیے حفظ ِماتقدم کے طورپر سب سے پہلے پاکستان کوچین اور روس سے دفاعی معاہدے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دوست ملکوں جس میں عرب ملک، ترکی اور ایران شامل ہے سے تعلقات کو مستحکم کرنا چاہیے۔افغانستان کو بھارت نے پاکستان بننے سے بہت پہلے سے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے ۔
اس کی تاریخی وجہ ہندوستان پر افغانستا ن سے بادشاہوں کے حملے تھے۔ ہندوستان نے یہ ڈاکٹرائن بنایا ۔اوّل کہ ایک تو افغانیوں کو قومیت کے زہر سے مسلح کیا جائے کہ وہ مسلمان ہونے کے بجائے اپنی قومیت پر فخر کریں۔ دوم کہ اس سے قبل کے وہاں سے ہندوستان پر حملے ہوں ان کی ترقیاتی کاموں کے نام سے مدد جاری رکھ کر دل جیتے جائیں تاکہ وہ وہیں رُکے رہیں اور ہندوستان پر یلغار نہ کریں۔اسی لیے جب پاکستان بنا تھا تو افغانستان نے سرحدی گاندھی عبدالغفار خان صاحب (جسے افغان پٹھان بابائے پشتونستان کہتے تھے )کی شہہ پرپاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پشتونستان کا مسئلہ کا کھڑا کیے رکھا۔ بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی کے بھارت نوازولی خان صاحب کی شہہ پر پشتون زلمے کو افغان حکومت نے فوجی ٹریننگ دی اور پاکستان توڑنے کی کوشش کی۔ جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اسی نیشنل عوامی پارٹی کے سیکرٹری اجمل خٹک نے افغانستان میں خود ساختہ جلاوطنی کے دوران کہا تھا کہ وہ سرخ ڈولی میں بیٹھ کر پاکستان آئے گا۔ اسی لیے بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر غداری کا مقدمہ قائم کیا تھا جسے بھٹو دشمنی میں ڈکٹیٹر ضیا الحق نے ختم کیا تھا۔ حوالہ نیشنل عوامی پارٹی کے منحرف کارکن جمعہ خان صوفی کی کتاب’’ فریب ِناتمام‘‘ )پاکستان بننے کے بعد افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت قائم ہونے تک ہمارے پڑوسی مسلمان ملک افغانستان نے پاکستان توڑنے کی بھارتی کوششوں میں شامل رہا۔
جب خیبر پختونخواہ میں اسفند یار ولی خان صاحب کی نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت تھی تو ولی خان کے بیٹے نے اپنی خاندانی پاکستان دشمنی نبھاتے ہوئے امریکا کادورہ کیا تھا اور لگتا ہے کہ کوئی خفیہ معاہدہ کیا تھا۔ اس پر اخبارات میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس کے مندرجات میڈیا کو بتائے جائیں مگر ایسا نہیں ہوا۔ البتہ بیگم نسیم ولی خان نے اپنی پریس کانفرنس میں اسفند یار ولی پر الزام لگایا تھا کہ اس نے پشتون قوم کو ڈالروں کے عوض فروخت کیا ہے۔ آزادذرائع کے مطابق لگتا تھا کہ شاید امریکا اس معاہدے میں اس بات پر رضا مند ہوا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان انگریزوں کی قائم کردہ سرحدڈیو ررنڈ لائن ختم کر کے افغانستان کی پشتون آبادی کو خیبر پختونخواہ کے ساتھ ملا دیاجائے ۔ اس طرح مردہ گھوڑے میں جان ڈالتے ہوئے سرحدی گاندھی بابائے پشتونستان عبدالغفار خان کے خواب کو پورا کر کے پشتونستان بنا دیاجائے ۔ اس بنا پر اسفند یار ولی خان نے امریکا کی افغانستان میں طالبان کی قائم شدہ اسلامی حکومت کو ختم کرانے کی امریکا کو مدد کی یقین دہانی کرائی تھی۔اپنے لوگوں کو فاٹا میں ٹریننگ دلائی۔ جب امریکا اور بھارت مل کر فاٹا میں اسفندیار ولی کے لوگوں کو ٹریننگ دے رہے تھے تواس وقت پرویز مشرف کومیجر جنرل شاہد عزیز صاحب نے خبردار بھی کیا تھا۔ اس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کب تک‘‘ میں کیا ہے۔ (جاری ہے)


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر