وجود

... loading ...

وجود
وجود

کالاباغ ڈیم مرحوم

اتوار 27 اگست 2017 کالاباغ ڈیم مرحوم

صوفیائے کرام کی سرزمین سندھ کے ایک بڑے شہر سکھر میں شیر دریا ’’ سندھ ‘‘ کے جوشِ طرب ، ہُمھمہ اور لہروں کی جولانیوں کے پہلومیں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف قومی اتفاق ِ رائے کے بغیر کسی ایسے ڈیم کی تعمیر کی حمایت نہیں کرے گی جو سندھ کو منظور نہیں ۔‘‘ تحریک انصاف کی جانب سے شاہ محمود قریشی کا اعلان ایک ایسی جماعت کے صائب موقف کا اظہار ہے جو چاروں صوبوں کی یکجہتی کو مضبوط وفاق کی ضمانت سمجھتی ہے ۔
لیکن ہمارے ہاں اس بیان یا موقف پر بعض سیاستدان خصوصاً پی ٹی آئی کے مخالفین خوب وادیلا کریں گے ۔ میڈیا سے وابستگان کا ایک گروپ بھی اس ’’ نان ایشو ‘‘ کو ’’ ایشو ‘‘ بنانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا ۔ ہم یہ قیاس ماضی کے تجربات کی روشنی میں کر رہے ہیں ۔ کیونکہ کالاباغ ڈیم ایک خالصتاً فنی اور تکنیکی معاملہ ہونے کے باوجود ہماری سیاست کا ہارٹ ایشو رہا ہے ۔ ماضی میں پنجاب، کے پی کے اور سندھ کے سیاستدانوں نے کالاباغ ڈیم کے نعرے پر بھر پور سیاست کی ۔ نوے کی دہائی میں نوازشریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں اس ڈیم کی تعمیر کا یکطرفہ طور پر اعلان بھی کر دیا تھا ۔ ان کے اس اعلان سے نہ صرف چاروں صوبوں کے درمیان اتحاد ویک جہتی کی فضا کو نقصان پہنچا تھا بلکہ مسلم لیگ کی حکومت کو خیبر پختونخواہ میں اپنی اتحادی جماعت اے این پی کی مفارقت کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا تھا ۔ اُس وقت سے لے کر اب تک کالاباغ ڈیم کا منصوبہ انتہائی متنازع چلا آ رہا ہے ۔ نواز شریف کے یکطرفہ اعلان سے اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف سب سے توانا آواز سندھ سے بلند ہوئی تھی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو مرحوم پنجاب میں اس معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھتی تھیں لیکن سندھ کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی اس کی مخالفت شروع کر دیتی تھیں ۔ بعد میں اس تنازع نے اس قدر طول پکڑا کہ تین صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں اس کے خلاف قراردادیں منظور ہوئیں ۔ایسی صورتحال میں اب کالاباغ ڈیم کسی صورت میں بھی تعمیر نہیں کیا جا سکتا ۔ کوئی بھی منصوبہ کتنا ہی مفید کیوں نہ ہو اُسے وفاق کی قیمت پر پایہ تکمیل تک پہنچانا دانشمندی نہیں ہوگی ۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان چار عشروں سے جاری معرکے میں کبھی بھی کسی جانب سے مفاہمت کی راہ ہموار کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران خان پنجاب سے تعلق رکھنے کے باوجود کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حامی نہیں ہیں ۔ ایسا کہنے والے حقائق کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں ۔ عمران خان کیا کوئی بھی ، سیاستدان، رہنما یا حکمران قومی اتفاق رائے کے بغیر اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تو درکنار اس کے حق میں آواز بھی بلندنہیں کرسکتا ۔
عمران خان اور ان کی جماعت نے ہمیشہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لیے صوبوں کے درمیاں ہم آہنگی اور اتفاق رائے کی بات کی ہے ۔ حالانکہ کالاباغ ڈیم کی مجوزہ سا ئیٹ ’’ پیر پیائی ‘‘ عمران خان کے آبائی حلقہ انتخاب این اے 71 ( میانوالی ون ) کا حصہ ہے ۔ ان کے حلقہ انتخاب کے لوگوں نے ہمیشہ اس ڈیم کی تعمیر کے حق میں آواز اُٹھائی ہے ۔لیکن سیاسی مفادات کے بر عکس عمران خان اس سلسلہ میں وفاق کی سطح پر اتفاق ِ رائے کی بات کرتے ہیں ۔
ماضی میں خیبر پختونخواہ اور سندھ میں کالاباغ ڈیم کے خلاف مہم میں خاصی شدت رہی ہے ۔ پختونخواہ کے بعض علاقوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور عوام یقین کی حد سے بھی بڑھ کر اس ڈیم کو اپنے صوبے کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مہم جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دست راست جنرل فضل حق نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں شروع کی تھی جس کی وجہ سے اس منصوبے پر جاری کام روک دیا گیا تھا ۔ اس کے بعد عوامی نیشنل پارٹی نے اس کی مخالفت کو اپنا نعرہ اور نصب العین بنا لیا تھا ۔ اسی روز سے کالاباغ ڈیم کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں میں اے این پی کے رہنماؤں کی آواز سب سے زیادہ بلند آہنگ ہوتی ہے ۔ سندھ دھرتی کے بعض سیاستدانوں اور دانشوروں نے کالاباغ ڈیم کو پنجاب کے مفاد میں سمجھتے ہوئے اسے سندھ مخالف قرار دینا شروع کر رکھا ہے ۔ اس وقت خیبر پختونخواہ اور سندھ میں مسلم لیگ ن سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت اس منصوبے کی حمایت کی جرات نہیں کر سکتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کی سیاسی قیادت نے صورتحال کا مقابلہ رواداری اور دانشمندی سے کرنے کی بجائے اسے سیاسی نعرہ بنا لیاتھا ۔ جس سے بلاوجہ اس تاثر کو فروغ ملا کہ کالاباغ ڈیم صرف پنجاب کے مفاد میں ہے یہ نوشہرہ کو ڈبو دے گا اور سندھ کے ڈیلٹا کی زمینوں کو سیم و تھور زدہ بنا دے گا ۔آبی حیات کو تباہ کردے گا ۔ یہی وجہ ہے آج تمام سندھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف یک زبان ہیں ۔
اس صورتحال کاگہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ ڈیم کی نہیں پنجاب کی سیاسی اور سرکاری اشرافیہ کی مخالفت ہے اور اس کی وجہ پانی نہیں سیاسی محرومیاں ہیں ۔ اور یہ کہنا بھی بے جا اور غلط نہیں کہ یہ ہمارے فوجی حکمرانوں کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کا ردعمل ہے ۔ اسی وجہ سے یہ سارا معاملہ تکنیکی سے زیادہ سیاسی بنا ہوا ہے ۔ اس لیے اس کا سیاسی حل تلاش کرنا ضروری ہے ۔
ہمارے ہاں مختلف حکومتوں کی جانب سے ملک میں جاری توانائی کے بحران کو حل کرنے اور آبی ذخائر کے منصوبوں کے تعمیر کے اعلانات سامنے آتے رہتے ہیں ۔ لیکن کسی نے اس حوالے سے صوبوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔
ہمارا موقف ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی ذی ہوش اور محب وطن سیاستدان ایسا نہیں کہے گا اورنہ سوچے گا کہ پاکستان ترقی نہ کرے اور آبی ذخائر تعمیر نہ ہوں ۔ وطن عزیز کی اقتصادی ، زرعی اور معاشی صورتحال بہتر نہ ہو ۔ لیکن وطن عزیز کی بہت بڑی تعداد اس امر پر ضرور فوکس رکھتی ہے کہ ہر کام ہم آہنگی اور اتفاق رائے سے ہو ۔ کالاباغ ڈیم پاکستان کے لیے انتہائی ناگزیر تو قرار دیا جا سکتا ہے ۔ لیکن بھاشا ، اکوڑی اور اسکردو ڈیم کی اہمیت سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ۔ کیا ضروری اور مناسب نہیں ہے کہ جن ڈیموں کی تعمیر پر اتفاق رائے ہے انہیں فوقیت دی جائے ۔ اور جو متنازع ہیں انہیں حالات کی سازگاری اور موافقت تک پس پشت ڈال دیا جائے ۔ یہاں پیپلز پارٹی کے طرز عمل کا ذکر بھی ضروی نظر آرہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں جب اس منصوبے کے لیے مختص کیے جانے والے فنڈز کو زیرو کیا گیا تھاتو راجہ پرویز اشرف نے پانی و بجلی کے وفاقی وزیر کی حیثیت سے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ کالاباغ ڈیم کو دفن کر دیا گیا ہے ‘‘ ۔اس قسم کا غیر ذمہ دارانہ طرزعمل جہاں ذہنی بالیدگی اور بلوغت کی سطح کا آئینہ دار ہوتا ہے وہاں مختلف نوعیت کے مسائل کی وجہ جواز بھی بنتا ہے فریقین کی جانب سے اسی قسم کے رویوں نے کالاباغ ڈیم سائٹ کو کالاباغ ڈیم کے مزار میں تبدیل کردیا ہے ۔
کالاباغ ڈیم ایک کثیر المقاصد فنی منصوبہ ہے اس کے تمام پہلوؤں پر غور و خوض کیا جائے، اس مقصد کے لیے وفاق کی تمام اکائیوں کے درمیاں ڈائیلاگ شروع کیا جانا چاہیے ۔ یہ ڈائیلاگ مختلف جہتوں اور وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے ۔ سیاستدان سیاستدانوں کے ساتھ ، طلباء طالبعلموں کی سطح پر ، دانشور اور اہل قلم اپنے شعبے میں مذاکرات کو پروان چڑھائیں ۔ اس طرح سے ہمارے ہاں وفاق کی اکائیوں کے درمیان رواداری اور برداشت کو فروغ ملے گا ۔اور اس کے مثبت اثرات دیگر شعبہ ہائے زندگی پر بھی مرتب ہوں گے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر