وجود

... loading ...

وجود
وجود

آڈٹ اور بد عنوانی کی سر پرستی

پیر 21 اگست 2017 آڈٹ اور بد عنوانی کی سر پرستی

پاناماکیس کی سماعت کے دوران میں عدالت عظمیٰ نے پاکستان کے احتساب اداروں کی تباہی و بربادی کا ذکر انتہائی دل گیر انداز میں کیا۔جے آئی ٹی کی تفتیش اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد احتساب عام اور انصاف سرِ عام ہونے کا جو آغاز ہو ا ہے ُاس سے اِس امید کا چراغ روشن ہوا ہے کہ ملک میں انصاف اور احتساب کی روش ہر آنے والے دن کے ساتھ ساتھ مضبوط ہو تی چلی جائے گی ۔ماہرین اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا کہنا ہے سرکاری محکموں اور اداروں کے مالی معاملات اور حسابات کی چھان بین کرنے والوں کا احتساب بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ایسا کرنے سے سرکاری اداروں اور محکموں کے مالیاتی اُمور کو ڈسپلن میں لانے کے ساتھ کرپشن کو کنڑول کرنے میں بھی مدد ملے گی ۔
ہمارے ہاں جب بھی نئی پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے تو قومی اور صوبائی پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کا قیام عمل میں آنے کے بعد منتخب ہونے والے نئے چیئر مین سرکاری اداروں اور بیوو کریسی کے احتساب کی نوید سناتے ہیں ۔ پی اے سی( پبلک اکاؤنٹس کمیٹی) کی میٹنگز میں آڈٹ پیروں کو بنیاد بنا کر کرپشن اور بد عنوانی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔پی اے سی کا ہر منتخب ہونے والاچیئر مین اپنے انتخاب کے فوراً بعد قومی خزانے کے خائنوں کو گرفت میں لانے کا نعرہ لگا کر سیاست میں مشغول ہوجاتا ہے ۔ ایسا ہمارے ہاں کئی دہائیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ لیکن ہم مایوس نہیں کہ مایوسی گناہ ہے۔ شاید ہماری پبلک اکاوئنٹس کمیٹیوں کے چیئر مینوں کو اپنی مصروفیات سے فراغت مل جائے اور وہ آڈٹ کرنے والے عملے کی کارستانیوں کا جائزہ بھی لیں ۔کیونکہ اس وقت سرکاری اداروں اور محکموں کا آڈٹ کرنے والے ادارے بدعنوان افسران اور اہلکاروں کے لیے سونے کی چڑیا بن چکے ہیں ۔جس طرح ہمارے ہاں بیورو کریسی نے پورے ملکی نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے اسی طرح آڈیٹر جنرل اور اکاؤنٹنٹ جنرل کے محکموں نے پوری بیورو کریسی کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔
’’ مالیاتی محتسبوں ‘‘ کی کرپشن کی کہانی کی کئی پرتیں ہیں ۔ وفاقی اور صوبائی محکموں کے مالیاتی اموراور حسابات کی جانچ پڑتال کے لیے علیحدہ علیحدہ محکمے قائم ہیں ۔بعض محکموں میں دوہرے آڈٹ کا نظام قائم ہے۔آمدنی والے اداروں میں ڈیپارٹمنٹل آڈٹ سسٹم( انٹر نل آڈٹ) ،پری آڈٹ کے ساتھ ساتھ ’’ ایکسٹرنل آڈٹ سسٹم ‘‘بھی رائج ہے۔وفاقی اداروں میں آڈیٹر جنر ل اور صوبائی اداروں میں اکاؤنٹنٹ جنرل کے اہلکار آڈٹ کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔
آڈٹ کے لیے مختلف ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں جو سارا سال مختلف علاقوں میں جا کر محکموں اور سرکاری اداروں کی آمدنی اور اخراجات کے معاملات کی چھان بین کرتی ہیں ۔پہلے پہل ایک ٹیم میں ایک آڈٹ آفیسر ، دو جونئیر آڈیٹر اور ایک درجہ چہارم کا ایک ملازم شامل ہوتا تھا۔ لیکن آجکل ایک سینئر آڈیٹر کے ساتھ جونیئر آڈیٹر کو بھیج کر کام چلا یا جانے لگا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ ٹیموں کی تشکیل کے مرحلے سے ہی کرپشن کا آغاز ہوجا تا ہے۔’’مجاز اتھارٹی ‘‘ اکثر اوقات ایسے من پسند افراد پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دینے کو ترجیح دیتی ہے جو فیلڈ میں آڈٹ کی ’’چھری ‘‘ چلاتے وقت نہ صرف خود مال بناسکتے ہوں بلکہ اس میں ’’اوپر ‘‘ والوں کو بھی حصہ دار بنانے کا فن جانتے ہوں ۔
آڈٹ ٹیم اپنے فرائض کی ’’انجام دہی‘‘ کے لیے کسی دفتر میں پہنچتی ہے تو پورے دفتر میں گویا ایمر جنسی نافذ ہو جاتی ہے۔ٹیم کے قیام و طعام کے لیے ہنگامی بنیادوں پر وی آئی پی انتظامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ سرکاری دفاتر میں ان خصوصی مہمانوں کی خدمت بجا لانے کے لیے چھوٹے سے چھوٹے اہلکار سے لے کرافسران تک سب ہی تیار ہوتے ہیں ۔اور ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو۔حالانکہ آڈٹ کے عملے کو اپنے محکمے کی طرف سے ٹی اے ڈی اے سمیت ہر قسم کی مراعات حاصل ہوتی ہیں ۔لیکن پھر بھی آڈٹ ٹیم متعلقہ دفتر کے لیے ’’ پیرا سائیٹ ‘‘ ثابت ہوتی ہے۔
یہ لوگ اپنی آمد کے ایک دو رو ز بعد تک خوب رنگ دکھاتے ہیں ۔ریکارڈ پر طرح طرح کے اعتراضات لگائے جاتے ہیں اور زیادہ تعداد میں سخت سے سخت آڈٹ پیراجات بنائے جانے کی دھمکیاں اور اشارے دیے جاتے ہیں ۔ان ہتھکنڈوں سے متعلقہ دفتر کے اہلکار اور افسران پریشان ہو جاتے ہیں اور پھر سرکاری رقوم میں کی گئی خرد برد اور مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کے خوف سے آڈٹ ٹیم کی ہر خواہش کے احترام کا عندیہ دے دیا جاتا ہے۔آڈٹ کے عملے سے صرف نچلے اور درمیانے درجے کے ملازمین ہی خوف زدہ نہیں رہتے بلکہ اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعینات بڑے اور طاقتور افسران بھی ا ن سے خوفزدہ رہتے ہیں ۔اس دوران متعلقہ محکمہ کے اہلکاروں کی جانب سے دانستہ طور پر ایسی کوششیں بھی کی جاتی ہیں کہ آڈٹ ٹیم کو ریکارڈ ملاحظہ کرنے کا زیادہ موقع نہ ملے۔ٹیم کو سیر کے لئے صحت افزا مقام پر لے جانے کے ساتھ ساتھ مختلف مشاغل میں الجھا دیا جاتا ہے۔ بعض چالاک آڈیٹر حضرات چھوٹے عملے سے رابطہ قائم کرکے ان سے معلومات حاصل کرکے عملے کو بلیک میل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔لیکن اسی دوران ان کی متعلقہ اہلکاروں کے ساتھ انڈرا سٹینڈنگ ہو جاتی ہے۔پیچیدہ اور سنگین نوعیت کے آڈٹ پیراجات پر ’’ معاملہ ‘‘ طے ہو جاتا ہے اور انہیں آڈٹ رپورٹ سے نکال دیا جاتا ہے۔اور ان کی جگہ برائے نام آڈٹ پیرا جات شامل کرکے رپورٹ کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے۔ٹیم کی واپسی کا وقت جیسے جیسے قریب آتا جاتا ہے ان کی ڈیمانڈز میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔اور یوں آڈٹ کا وقت ختم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی بہت سی مرادیں پوری ہو جاتی ہیں ۔اور کام ختم کرکے گھروں کو لوٹتے وقت ان کے ہمراہ بڑی مقدار میں خشک فروٹ،میوہ جات، کپڑے، شہد کی بوتلیں اور دیگر تحائف ہمراہ ہوتے ہیں اور یوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک دفتر کے آڈٹ کا پہلا مرحلہ مکمل ہوجاتا ہے۔
دوسرے مرحلے پرآڈٹ رپورٹ موصول ہونے پر محکمہ کے افسران اور اہلکار اعتراضات کا جواب دیتے ہیں ۔اسی دوران اگر دوبارہ آڈٹ ٹیم آجائے تو محکمے تیار کر دہ جواب دیکھ کر پیرا ختم ( ڈراپ) کر دیا جاتا ہے۔اس موقع پر بھی خصوصی خدمت کا عمل دُہرایا جاتا ہے۔باقی بچ جانے والے آڈٹ پیراجات کے لیے ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی ( D.A.C ) کا اجلاس ہوتا ہے۔ میٹنگ سے پہلے ایک آڈٹ آفیسر پیرا جات سے متعلقہ ریکارڈ کی پڑتال یا تصدیق کرتا ہے۔اور اکثر اوقات ویریفیکیشن کے دوران ہی ’’ مک مکا ‘‘ ہو جاتا ہے۔دوسرے دن اجلاس کے دوران آڈٹ ڈیپارٹمنٹ کا نمائندہ خاموش ہو جاتا ہے اور میٹنگ میں محکمہ کے جواب کو درست تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ جو آڈٹ پیراجات ڈراپ نہ ہوں وہ اگلے اجلاس تک باقی کر دیے جاتے ہیں ۔ یا پھر ’’ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ‘‘ کو بھیج دیے جاتے ہیں ۔پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاسوں میں بھی یہی صورتِ حال رہتی ہے ۔
یہ ہمارے ہاں رائج آڈٹ سسٹم کی ایک معمولی سی جھلک تھی۔جبکہ آڈٹ کے محکموں کے عملے کی کارستانیوں اور ستم ظریفی کی کہانیوں کا سلسلہ خاصا طویل اور تکلیف دہ ہے۔اکاؤنٹنٹ جنرل اور مختلف اضلاع میں قائم ضلعی دفاتر خزانہ صرف آڈٹ کے معاملات ہی میں مال نہیں بناتے بلکہ ، کنٹیجنسی بلز، سرکای ملازمین کی تنخواہوں ، بقایا جات ، جی پی فنڈ اور پنشن وغیرہ کے مراحل میں بھی ان لوگوں کی ’’ چاندی ‘‘ ہی رہتی ہے۔یہ شکایات اب تصدیق کے مراحل سے گزر کر ایک حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں کہ ضلعی دفاتر خزانہ میں کوئی بھی کام مٹھی گرم کیے بغیر نہیں ہوتا۔
سرکاری اداروں میں بڑھتے ہوئے اخراجات، خرد برد ، مالی بے ضابطگیوں اور خسارے کی ایک بڑی وجہ آڈٹ اور اس سے متعلقہ محکموں میں پایا جانے والا کرپشن کا وائرس ہے جو اب ناقابلِ علاج ہوتا جا رہا ہے۔اگر آڈٹ کرنے والا عملہ دیانتدار، فرض شناس ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ سرکاری اداروں کے فنڈز اور حسابات میں خورد برد اور بد عنوانیوں کا سدِ باب نہ ہو سکے۔لیکن ہمارے ہاں آڈٹ کرنے والے محکموں میں کرپشن آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ان محکموں کے اہلکاروں کی حرکتیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ دوسروں سے مال بٹورنا،اپنی جیبیں بھرنا،ٹی اے ڈی اے وصول کرکے سرکاری گاڑیوں کا بے دریغ ناجائز استعمال کرنا، سرکاری دفاتر اور ریسٹ ہاؤسسز میں قیام کرکے ہوٹلوں میں رہائش کے جعلی بل تیارکرکے قومی خزانے سے رقم وصول کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔
آخر میں ہم قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور صوبائی اسمبلیوں کی پبلک اکاونٹس کمیٹیوں کے چیئر مینوں کی طرف رجوع کرتے ہوئے انہیں یہ مشورہ دینے کی جسارت کریں گے کہ اپنی اپنی پی اے سی کے کسی آئندہ اجلاس میں آڈٹ کے محکمے کے احتساب کا نعرہ بھی بلند کریں ،یقین کریں کہ بہت سی کرپشن ختم ہو جائے گی۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر