وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاناما اور پیپلزپارٹی

جمعه 28 جولائی 2017 پاناما اور پیپلزپارٹی

پاناما لیکس کا ہنگامہ برپا ہوئے تقریباًسوا سال کا عرصہ گزر چکا معاملہ احتجاج سے عدالت وہاں سے جے آئی ٹی اور پھر عدالت عظمیٰ تک پہنچ چکا بلکہ عدالت عظمیٰ نے اس معاملے پر اپنا فیصلہ بھی محفوظ کر لیا اس محفوظ فیصلے سے کون کون غیرمحفوظ ہوا اور کس کس کا مستقبل خطرہ میں پڑا یہ نوشتہ دیوار ہے جب یہ معاملہ شروع ہوا تھا تو اس وقت سراج الحق اور عمران خان کے سواء کسی نے بھی اس معاملہ کو سنجیدہ نہیں لیا بلکہ پیپلزپارٹی تو اس معاملہ کو عدالت عظمیٰ میں لے جانے پر خاصی سیخ پا تھی اور قائد حزب اختلاف کی ہر تقریر میں عمران خان اور سراج الحق معاملہ عدالت عظمیٰ میں لے جانے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنتے تھے لیکن نا سراج الحق نے ہمت ہاری نہ عمران خان نے بیک فٹ پر جا کر کھیلنے کا فیصلہ کیا نتیجہ طویل سماعت کے بعد عدالت اعظمیٰ کے پانچ میں سے دو جج اس فیصلے پر پہنچے کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے اور انہیں نااہل قرار دے دیا جائے اگرچہ تین ججز نے اپنے ساتھیوں کے اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا لیکن نوازشریف کو کلین چٹ انہوں نے بھی نہیں دی تھی اور مزید تحقیق کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا یہ فیصلہ کیا آیا نواز شریف اور اس کے شامل باجا حواریوں نے اس کو نوازشریف کی فتح اور عمران خان کی شرمناک شکست قرار دیا تھا بھنگڑے ڈالے گئے تھے اور مٹھائیاں کھائی اورکھلائی گئی تھیں جہاں نواز شریف اور اس کے حواری اسے اپنی فتح قرار دے رہے تھے وہی پیپلزپارٹی عمران خان پر برس رہی تھی کہ اس نے نواز شریف کی کرپشن پر پردہ ڈال دیا جے آئی ٹی نے کیا کرنا ہے لیکن جے آئی ٹی نے وہ لنکا ڈھائی کہ جس کا راون نے تصور بھی نہیں کیا تھا نواز شریف کی وہ آف شور کمپنیاں اور وہ ملازمتیں جو مستند اور ماہر تحقیقاتی رپورٹروں کی بڑی ٹیم بھی تلاش نہیں کر سکی تھی جے آئی ٹی کے 6جناتی ممبروں نے یہ ساری معلومات ناصرف حاصل کرلیں بلکہ ان کے دستاویزی ثبوت بھی حاصل کر لیے ۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت میں جمع ہوئی اور جب اس پر کارروائی شروع ہوئی تو وہی پیپلزپارٹی جو سراج الحق اور عمران خان کو نوازشریف کا مدد گار ثابت کرنے پر بضد تھے وہی پیپلزپارٹی اور وہی قائد حزب اختلاف اس ساری کاوش کا سہرا اپنے سر پر باندھنے پر بضد ہیں گویانوازشریف کی کرپشن کو نا تو عدالت نے بے نقاب کیا ہے نا جے آئی ٹی نے ثبوت جمع کئے ہیں بس اپنی مرحوم والدہ کی آواز کو نقل کرنے والے بلاول بھٹو زرداری اور واپڈا کے برطرف میٹرریڈر سے قائد حزب اختلاف بننے والے خورشید شاہ سب ہی اس کو پیپلزپارٹی کا کارنامہ قرار دینے اور عوام کو اس کارنامہ کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کو دینے پر مجبور کرنے کے لیے وہ وہ دلائل دے رہے ہیں کہ جن کو سن کر لطیفوں کا گمان ہوتا ہے ۔
این آر او میثاق جمہوریت اور دیگر پردے اب بھی کرپشن کی پردہ داری کے لیے موجود ہیں اگرچہ پرویزمشرف کے این آر او کو عدالت اعظمیٰ غیرقانونی اور اختیارات سے تجاوز لیکن نیا این آر او لانے میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ نیا این آر او بھی عدالت اعظمیٰ میں چیلنج کر دیا جائے اور اس کا فیصلہ آنے تک اس کے فیوض وبرکات سے فائدہ اُٹھایا جائے یا پھر میثاق جمہوریت کی آڑ میں جمہوریت بچانے کے لیے پیپلزپارٹی نوازشریف کا ساتھ دے اور اپوزیشن کی قوت کو پارہ پارہ کرتے ہوئے کرپشن کی پشت پناہ بن جائے اس کا اشارہ اس طرح بھی ملتا ہے کہ نوازشریف کی دختر نیک اختر مریم نواز “مریم صفدر” نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے رابطہ بھی کیا ہے اور انہیں بھائی بھی قرار دیا ہے کیا بھائی بہن کی مدد کو آگے نہیں بڑھے گا جبکہ بلاول کے پاپا تو پاکستان میں پائے بھی نہیں جاتے اور یوں بھی پیپلزپارٹی نے اگرچہ تمام ترقوت کا فیصلہ پاپا ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن کاغذوں میں تو بلاول بھٹوزرداری ہی پارٹی کے اصل قائد ہیں اسطرح زرداری نواز مفاہمت قائم بھی رہے گی کہ دونوں کا انداز سیاست ایک جیسا ہے اداروں سے تصادم دونوں کی فطرت میں شامل ہے بس فرق اتنا ہے کہ نواز شریف جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اداروں سے تصاد م کر کے اپنا ہی نقصان کرتے ہیں اور آصف زرداری اس وقت اداروں کو چیلنج کرتے ہیں جب وہ اقتدار میں نہیں ہوتے کہ چیلنج کرنا اور دبئی یا لندن “علاج” کے لیے چلے جانا اور پھر وہاں غیرمتعین عرصہ کے لیے قیام کرنا آسان ہوتا ہے ان دنوں بھی بلاول پاکستان میں اور آصف زرداری پاکستان سے باہر پائے جاتے ہیں یوں بچوں بچوں کی ٹوئٹ میں نوازشریف کے تحفظ کا سامان بھی ہو سکتا ہے اور پیپلزپارٹی عوام میں کرپشن کے خلاف اپنے “مجاہدانہ” کردار کو کیش کرانے کی کوشش بھی کر سکتی ہے لیکن اس کوشش میں کتنی کامیابی حاصل ہوتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک بلند حوصلہ اسپورٹس مین ہے جس نے اپنے کرکٹ کیرئیر کے ابتدائی ایام کو کبھی سرپر سوار نہیں ہونے دیا اور بلاآخر کرکٹ کا ایک ایسا کھلاڑی ثابت ہوا کہ جو مشکل سے مشکل میچ کا رخ بھی اپنی جانب بدل لیتا تھا اور سراج الحق تو صاف گو آدمی ہے انہوں نے کبھی یہ حقیقت بتانے میں عار محسوس نہیں کیا ہے کہ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اسکول کے دور میں پانچ میل سے زائد فاصلہ پر اسکول میں ننگے پیر جایا کرتے تھے گویا دونوں قائدین ہی اپنی لگن میں سچے ہیں عمران خان اور سراج الحق نے سیاست کے میدان میں جس پامردی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں خصوصاً ان کے لیے جن کے مفادات پشاور ،کراچی،دیربالایا بنی گالہ سے وابستہ نہیں بلکہ دبئی ،برطانیہ ،سوئزرلینڈ،پاناما ،برٹش ورجن آئی لینڈ اور دیگر ممالک سے وابستہ ہیں قوم بیدار ہو چکی وہ جانتی ہے کہ کون کتنا شریف ہے کون کرپشن کا بادشاہ ہے اور کون کرپشن سے زردار بنا ہے ۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر