وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکا تورا بورا میں داعش کولے آیا!

هفته 08 جولائی 2017 امریکا تورا بورا میں داعش کولے آیا!

افغانستان کے صوبے ننگرہار کے پہاڑی علاقے تورا بورا پر گزشتہ دنوں داعش کے قبضے نے امریکا کے کے خطے میں جاری معاملات کی بہت سی پرتیں کھول کر رکھ دی ہیں۔صورتحال انتہائی دلچسپ ہے۔ ذرائع کے مطابق افغانستان میں موجود داعش کے جنگجو گزشتہ دوبرسوں سے تورا بورا کے علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے کی تگ ودو میں تھے لیکن افغان طالبان کی زبردست مزاحمت کے سامنے ان کی کچھ نہ چل سکی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکاکو آگے بڑھنا پڑا۔اب ایک طرف امریکا کی فضائی سپورٹ انہیں حاصل تھی تو دوسری جانب افغان فوج اور ازبک ملیشیا نے طالبان کے خلاف مورچہ سنبھالا ہوا تھا گزشتہ ہفتے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب یہ تینوں فریق ایک ساتھ مصر وف عمل ہوئے جیسے ہی داعش کی جانب سے تورا بورا کے علاقے کی جانب پیش قدمی ہوئی، افغانستان میں موجود امریکی فضائی بمبار طیاروں نے طالبان کے ٹھکانوں پر شدید بمباری شروع کردی تو دوسری جانب زمین پر موجود افغان فوج اور ازبک ملیشیا بھی حرکت میں آگئی جس کے نتیجے میں افغان طالبان کو علاقے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ کابل حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس علاقے میں موجود نئے افغان طالبان کمانڈر علاقے کی جغرافیائی صورتحال سے زیادہ واقف نہیں تھے جبکہ انہیں راستوں کا بھی زیادہ علم نہیں تھا جسے افغان طالبان نے یکسر مسترد کرکے داعش کے تورا بورا پر قبضے کو امریکا اور کابل کی اشرف غنی انتظامیہ کی مشترکہ کارستانی قرار دے دیا ہے۔ دوسری جانب اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے اشرف غنی انتظامیہ نے افغان طالبان سے علاقے میں داعش کے خلاف مدد مانگ لی تاکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکے۔اس سارے معاملے میں جو بات عیاں ہوئی ہے وہ اسی صورتحال کو بیان کررہی ہے جو امریکا نے شام اور عراق کے حوالے سے اختیار کررکھی ہے۔
جس وقت عراقی مجاہدین نے امریکا کی کمر توڑ ی تو سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق عراق کو ایران کے حوالے کرنے کے لئے میدان کھلا چھوڑا گیاتاکہ خطے کو مزید تباہی سے دوچار کردیا جائے۔ جب بغداد میں ایران نواز عراقی انتظامیہ نے پیر جما لیے تو شمالی عراق سے داعش ایک آندھی طوفان کی طرح اٹھی اور جنوبی عراق کی جانب زبردست پیش قدمی شروع کردی۔یہ یلغار اس قدر شدید تھی کہ نئی عراقی انتظامیہ کے تحت تشکیل دی جانے والی عراقی فوج اور ایران نواز شیعہ ملیشیا ئوںکے قدم اکھڑگئے اور وہ الٹے پائوں بھاگنا شروع ہوگئے الغرض ایسا محسوس ہونے لگا جیسے داعش کی یہ آندھی جلد ہی تمام مشرق وسطیٰ کو لپیٹ لے گی لیکن پھر اچانک بغداد سے شمال کی جانب واقع صوبہ انبار کے قریب آکر یہ طوفان تھم گیا۔ یہی صورتحال شمالی شام کے علاقے میں رونما ہوئی جس کی وجہ سے شام کی باقاعدہ فوج کو شمالی شام کے اہم ترین علاقے سے ہاتھ دھونا پڑ گئے اور اس کے بعد اسلام کے نام پر عجیب وغریب معاملات ظہور پذیر ہونے لگے۔ داعش نے اپنا نام اسلامی ریاست برائے شام وعراق رکھا تھا جس کا مخفف داعش اور انگریزی میں ISISبنتا ہے۔ دہائیوں کے ستائے ہوئے مسلمانوں نے جس وقت ’’اسلامی خلافت ‘‘کا نام سنا تو بہت سے ملکوں کی عسکریت پسند اسلامی تنظیموں نے اس میں اپنے لیے بے پناہ کشش پائی اور افغانستان تک اس کے اثرات پڑنے لگے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس تنظیم کو اتنی قوت اچانک کہاں سے ملی جس نے عراق اور شام کی فوجوں کو بھگا دیا، کون اس کے پیچھے ہے؟ اصل اور حقیقی مقاصد کیا ہیں؟ کس کو سب سے زیادہ اس کا نقصان ہے اور کون فائدے میں ہے؟ شمالی عراق اور شمالی شام کے علاقوں کو قبضے میں لینے کے بعد جس وقت اس تنظیم نے عراق اور شامی جغرافیائی سرحدوں کو ختم کیا تو بہت سے دور اندیش دماغوں کے سامنے حقیقی منصوبہ کھلنا شروع ہو گیاکیو نکہ چند برس پہلے سے ہی امریکا میں ’’نئے مشرق وسطی‘‘ یا گریٹر مشرق وسطیٰ کے حوالے سے آوازیں اٹھنا شروع ہوچکی تھیںاس پر بہت کچھ مشرق اور مغرب میںلکھا بھی جانے لگا، نئے امریکی صہیونی منصوبے کے مطابق نقشے بھی سامنے آنے لگے جس میں تمام مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں افغانستان اور پاکستان کی بھی قطع و برید دکھائی گئی۔
یہ وہ وقت تھا جب عالم عرب کے دوراندیش دماغوں نے سمجھ لیا تھا کہ داعش کے وجود میں آنے کے اصل مقاصد کیا ہیں ایک ایسی تنظیم جس کے وجود اور افکار سے دنیا تو دور کی بات خود عالم عرب میں پہلے کوواقف نہیں تھا، کا اچانک وجود میں آجانا اور پھر طوفانی یلغار کرنا آخر کس کے مقاصد کے لیے تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی تھی باقی سب کچھ دنیا کو دھوکا دینے کے مترادف تھا کہ امریکا عراق اور شام میں داعش کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ دنیا کو آج تک سعودی عرب اور قطر کے اختلافات کی حقیقی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہے اور نہ ہوسکے گی۔۔!!! جبکہ جو بات دنیا کو بتائی جارہی ہے وہ حقیقی نہیں اصل معاملات کچھ اور ہیں۔۔۔ جو جلد سامنے آجائیں گے۔امریکا اور اسرائیل اس وقت عربوں کو لڑائو اور انہیں آہستہ آہستہ اسرائیلی کیمپ کی جانب دھکیلو کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایک وقت تھا جب تمام عرب ممالک اسرائیل کے خلاف متحد تھے اور آج صورتحال یہ ہے کہ کچھ اسرائیل کے اعلانیہ اتحادی ہیں اور کچھ نے خاموشی سے اس کی خطے میں بالا دستی قبول کرلی ہے جبکہ آپس میں بری طرح علیحدہ چکے ہیں۔ اسی لیے سعودی عرب کی قیادت میں بنایا جانے والا عسکری اتحاد بھی جلد ہوا میں تحلیل ہوتا محسوس ہورہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکا پر مسلط صہیونی لابی نے قطر اور سعودی عرب کے تنازعے کی آڑ میں بھی تقریبا ڈیڑھ سو بلین ڈالر کما لیے ہیںپہلے سعودی عرب کے ساتھ 110بلین ڈالر کے اسلحے کی فروخت کا معاہدہ کیا اس کے بعد جس قطر کے خلاف امریکی صدر ٹرمپ نے بیانات دیئے تھے اسی قطر کو 15بلین ڈالر کے ایف 15طیاروں کی فروخت کا بھی معاہدہ کرلیا اور آج امریکی بحریہ قطر کی بحریہ کے ساتھ مل کر علاقے کے پانیوں میں جنگی مشقیں بھی کررہی ہے۔۔۔ یا عجب۔۔!!
حقیقت یہ ہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران عربوں اور باقی مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے والے ڈونالڈ ٹرمپ کو وال اسٹریٹ کے صہیونی ’’گاڈ فادروں‘‘یا صہیونی بینکروں نے سعودی عرب بھیجا تھا ان کے ساتھ وائٹ ہائوس میں اسرائیلی موساد کاخاص بندہ اور ٹرمپ کا
یہودی داماد جیرڈ کوشنرJared Kushner بھی تھامقصد عربوں کو ایک طرف لڑا کر ان کی ثروت پر مزید ہاتھ صاف کرنا اور ان غلط فہمیوں کی آڑ میں دیگر عرب ملکوں کو اسرائیل کے مزید قریب کرنا تھا تاکہ عرب حکمران اپنے اقتدار کو خطرے میں دیکھ کر اسرائیل کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس سودے بازی میں وائٹ ہائوس میں موجود وال اسٹریٹ کے نمائندے اور ٹرمپ کے یہودی اقتصادی مشیر گولڈمین گیری کوہن Goldman’s Gary Cohn نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔یہ وہی وال اسٹریٹ ہے جہاں سے روزانہ تیل کی نئی قیمت جاری کی جاتی ہے۔ جس طرح لندن کے اکنامک زون سے روزانہ کی بنیاد پر سونے کی قیمت جاری ہوتی ہے اور یہ دونوں اسٹیشن صہیونی بینکروں کے ہاتھ میں ہیں۔جہاں تک ٹرمپ کے اس دعوے کی بات ہے کہ امریکی عوام کو اس سودے بازی سے ہزاروں نوکریاں ملیں گی تو یہ اپنی جگہ ایک دھوکہ ہے۔ یہ سارا پیسہ وال اسٹریٹ کے صہیونی گاڈ فادروں کی جیب میں جائے گا امریکی عوام کی حالت اس سے سدھرنے والی نہیںاور نہ ہی یہ اقدام امریکا کے لیے اٹھایا گیا تھا۔خطے میں امریکی پالیسی کبھی نہیں بدلی اور نہ کسی کے وائٹ ہائوس آنے جانے سے اس پر کوئی اثر ہوتا ہے یہ پالیسیاں وال اسٹریٹ کے بینکرز یا گاڈ فادر بناتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ دنیا کے سامنے ایک چہرے کی مانند ہے جو ان پالیسیوں پر عملدرآمد کراتی ہے۔ آج بھی ایران کے معاملے میں باراک اوباما کی پالیسی جاری ہے جس نے ہر صورتحال سے صرف نظر کرکے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایران جوہری صلاحیت کی شکل کمال کو پہنچ جائے گا۔۔ اسے کبھی وہاں تک پہنچنے ہی نہیں دیا جائے گا کیونکہ خطے میں اسرائیل موجود ہے۔جہاں تک عربوں کی بات ہے تو جھگڑے کی بنیاد رکھنے کے لیے دوحہ میں اخوان المسلمون اور حماس کے دفاتر قائم کرنے کا عندیہ بھی امریکا کی جانب سے آیا تھا جبکہ نائن الیون کے ڈرامے کے بعد قطر میں سینٹ کام کا ہیڈکوارٹر بھی قائم کرلیا گیا تھا۔دجالی صہیونیت کے عالمی سیسہ گر اچھی طرح جانتے ہیں کہ مصر اور دیگر عرب ملک اخوان المسلمون کی انقلابی فکرسے خوفزدہ ہیںمقبوضہ فلسطین کی تحریک آزادی حماس نے چونکہ اخوان کے فکری بطن سے ہی جنم لیا ہے اس لیے بھی جھگڑے کی بڑی وجہ بنایا جائے گا اور پھر بظاہر جو تنازعہ کھڑا ہوا اس کی وجوہات اب سب کے سامنے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ کیا عربوں اور ایران کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی؟ کہ کس طرح عالمی صہیونیت نے خطے کے ممالک کو مسلک اور قومیت کے نام پر علیحدہ علیحدہ کر دیا ہے اور ان کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کرانہیں مزید کمزور کررہے ہیں۔ریاض میں کھڑے ہوکر ایران کو دہشت گردی کا منبع کہنے والے ٹرمپ نے واپس جاکر ایران کے حوالے سے کیا اقدام کئے؟ قطر کے خلاف بولنے والے ٹرمپ نے اسے کیوں اسلحہ فروخت کیا؟ یہ بات افغانستان کے طالبان کے دماغوں میں بہت پہلے سے پڑچکی تھی کہ داعش کس کے اشاروں پر قائم کی گئی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ’’کامیاب تجربے‘‘ کے بعد امریکا اپنے اس آخری ترپ کے پتے کو افغانستان کی بساط پر کھیلنے کا ارادہ رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ داعش کو سب سے پہلے تورا بورا کے محفوظ مقام تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے یہ وہی علاقہ ہے جہاں پر کبھی القاعدہ کے جنگجو مقیم تھے اور جن سیلڑای لڑتے ہوئے سینکڑوں امریکی کمانڈوز اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔امریکا اور اس کے صہیونی دجالی اتحادی افغانستان میں اسی داعش کو افغان طالبان کے خلاف اپنی پراکسی کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ جس کی وجہ زیادہ گہری نہیں سب جانتے ہیں کہ امریکا افغانستان میں بری طرح پٹ چکا ہے۔ اس صورتحال نے امریکا میں موجود صہیونی بینکروں کو دیوالیہ کی حد تک پہنچا دیا ہے کیونکہ جنگ امریکی اور یورپی صہیونی بینکروں کے لیے ایک فائدے مند بزنس ہے اسی مقصد کے لیے دنیا میں بڑی بڑی جنگیں کروائی جاتی ہیں۔ لیکن افغانستان کی منڈی میں یہ کاروبار افغان طالبان کی وجہ سے بری طرح پٹ چکا ہے۔ جس کے ازالے کے لیے اب خاموشی کے ساتھ داعش کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ افغانستان کی اشرف غنی انتظامیہ محض ایک کٹھ پتلی ہے جبکہ افغان فوج کی ہائی کمان اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس بھارت نواز ایجنڈے پر امریکی اشاروں پر کام کرتی ہے اس لیے افغان فوج کا داعش کے خلاف افغان طالبان کی مدد کرنا یا مدد مانگنا محض ایک لطیفہ ہے جسے افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت اچھی طرح سمجھتی ہے۔ داعش کا تورا بورا پر قبضہ مستحکم کرانے سے امریکا کی منشا یہ ہے کہ افغان طالبان کو امریکی شرائط پر مذاکرات کی میز پر لایا جائے تو دوسری جانب پاکستان کے اندر دہشت گردی کی وارداتوں کو مزید ہوا دی جائے۔ اس لیے خطے میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کے دفاعی اداروں کو انتہائی دور اندیشی سے معاملات کا جائزہ لینا ہوگاکیونکہ ملک کے اندر موجودسیاسی بحران ان اداروں کی توجہ ہٹانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ ان بڑے عا لمی تغیرات میںدانشمندانہ فیصلے وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر