وجود

... loading ...

وجود
وجود

ترجیحات

هفته 08 جولائی 2017 ترجیحات

انسان اپنی ترجیحات کا قیدی ہے اور اسی سے اُس کا طرزِ عمل پھوٹتا ہے۔ درست اور غلط کی بحث معروضی کم اور اِن ترجیحات کے تحت زیادہ ہوتی ہیں۔ پاکستان سیاست وصحافت میں یہ عمل مکمل طور پر اسی سے آلودہ ہے۔
یہ ایک پُرانا مسئلہ ہے جس سے پاکستان کی سیاست وصحافت نبرد آزما ہے کہ کرائے کے کچھ دانشوروں اور بھارے کے چند لکھاریوں سے سیاسی خاندانوں کے رخ ورخسار اور نقش ونگار کو ہمیشہ سنوار اجاتا رہا ۔ نوازشریف کے اوپر ایک ایسے شخص کی ملمع کاری کردی گئی ہے جسے وہ خود بھی اپنی نجی زندگی میں نہیں جانتے۔ اللہ کی شان ہے کہ کبھی ہم ان دانشوروں سے یہ سنتے تھے کہ شریف خاندان کی عورتیں متوسط طبقے کی اقدار کی حامل ہیں اور وہ کبھی بھی سیاست کے میدان میں قدم نہ رکھیں گی۔ وہ تو یہ بھی گوارا نہ کرتے تھے کہ مریم نواز کی سیاسی تربیت میں جگنو محسن نے حصہ لیا ۔ کہاں جدیدیت پسند جگنو محسن اور کہاں متوسط طبقے کی اقدار کی حامل مریم بیٹی!!! مریم نواز مگر اب سب کے کان کتر رہی ہیں ،دوسری طرف یہ خیالات رکھنے والے اب نئے خیالات کی قے کررہے ہیں۔ عشق کی بس ایک جست سے اس قصے کو تمام کررہے ہیں۔ اب اُنہیں مریم نواز میں ایک پراعتماد شخصیت کی جھلک دکھائی دینے لگی ہے۔ اُنہیں اُس میں ایک سیاسی فکر کا گہرا رچاؤ نظر آنے لگا ہے۔معلوم نہیں مریم نواز کی سیاسی فکر کیا ہے جس پر وہ یقین رکھتی ہے؟یہ بھی معلوم نہیں کہ اُس کا اپنی ذات پر اعتماد کیسا ہے؟مگر دانشوروں نے اُن کے اندر سے ایسے ایسے کمالات برآمد کرنے شروع کردیے ہیں کہ سائنس کی پوری دنیا اپنے انکشافات اور اکتشافات کے ساتھ حیران رہتی ہوگی۔ نوازشریف کی شخصیت میں مختلف اداوار کے ساتھ جتنی قلابازیاں نظر آتی ہیں، اُس سے کسی سلامتی فکر کے حامل شخص کے لیے یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ اُن کی حمایت ثابت قدمی کے ساتھ کرسکے۔ اس کے باوجود یہ نوازشریف کا نہیں اُن کے گرد حلقہ زن لشکر کے کمالات ہیں کہ وہ یہ ممکن کر پاتے ہیں۔ اب یہ ہنر محترمہ مریم نواز کے لیے بھی آزمایا جارہا ہے۔ مگر ا س میں قباحتیں بہت ہیں۔
یہ ایک نیا پاکستان ہے، جس میں اندھے اعتماد کی گنجائش کم سے کم ہورہی ہے۔ ذرائع ابلاغ خریدے جاسکتے ہیں مگر متوازی ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کے برقی مراکز ایف آئی اے سے بھی خوف زدہ ہونے کو تیار نہیں۔یہاں تضادات عریاں کردیے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کا تجربہ کچھ اور ہے۔ اب مریم نواز کے حوالے سے جو کہانیاں گھڑی جارہی ہے اُن میں سے کون سی کہانی دودن بھی ٹہر سکی ۔ جے آئی ٹی کے سامنے اُن کی آمد کو اگر ایک بڑا سیاسی واقعہ بنانے کی کوشش نہ کی جاتی تو اُنہیں اُس تنقید کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑتا جو اس موقع پر سامنے آئی۔ سیاست میں موقع کو سمجھنے کی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ ہمیشہ اُلٹی گنگا بہانے سے وہ اُلٹی نہیں بہنے لگتی۔ چنانچہ اب مریم نواز جن گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ آئی تھیں ، اُس کی نمبر پلیٹوں پر سوالات کا سامنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں تبدیل کرنے میں حکمت کیا تھی؟ یہ طبقہ آخر سیدھے طریقے سے کوئی کام کیوں نہیں کرپاتا ؟ ان میں قانون پسندی کا اعتماد کیوں نہیں پایا جاتا؟کیوں ایک شان وشکوہ، ایک کرّوفر ، لاؤ لشکر اور رعب داب ان کی زندگی کا ناگزیر عامل بن چکا؟حیرت ہے کہ کچھ لوگ مریم نواز اور بے نظیر بھٹو کے درمیان بھی ایک موازنہ کرنے لگے ہیں۔اس بدنصیب قوم کے مقدر میں کیا کیا کھکیڑ رکھی ہے۔ اور اُسے کن کن موضوعات پر غور کرناپڑتا ہے جسے سوچ کر بھی کراہیت ہوتی ہے۔ مگر پھر بھی ان دونوں خواتین میں اگر کوئی چیز مشترک ہوسکتی ہے تو وہ یہی شان وشکوہ ہو سکتا ہے۔ ایک بالاتر مخلوق ہونے کا گمان جو حکمران اشرافیہ کا مشترک احساس ہے۔ روئیداد خان کی کتاب ’’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘‘ کے اوراق ایک بار پھر پلٹتے ہیں۔ایوب کابینہ سے نکال باہر کیے جانے کے بعد روئیداد خان اُن سے ملنے دوسری بار اُن کے گھر گئے تب کیا ماجرا ہوا، خود اُن کی ہی الفاظ میں پڑھیے:
’’چند روز بعد جب میں دوبارہ ذوالفقار علی بھٹو سے اُن کے گھر پر ملا تو اُن کی حالت سنبھل چکی تھی، وہ اپنے گھر کے
برآمدے میں بیٹھے اپنے کاغذات ترتیب دے رہے تھے۔ اتنے میں اُن کی کم عمر بیٹی (بے نظیر) اُن کے پاس آئی
اور اردو میں اُن سے پوچھنے لگی:پاپا کیا اب ہم بھی عوام بن گئے ہیں؟‘‘
محترمہ مریم نواز جس طرح جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئیں کیا یہ انداز دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی بھی جمہوری حکمران خاندان اپنا سکتا ہے؟مگر ان کا اندازِ فکر وعمل مختلف ترجیحات سے پھوٹتا ہے۔ اس لیے یہ سوال بھی واجب قراد نہیںدیا جائے گا۔ مگرجے آئی ٹی کی کھکھیڑ سے بس یہی تاثر حکمرانوں کو پریشان رکھتا ہے کہ کہیں وہ بھی عوام نہ بن جائیں۔ایسی ہی اندیشوں بھری گفتگو 12اکتوبر 1999 کے بعد مریم نواز کی زبان سے سنی گئی تھی۔ نوازشریف جب22 ؍ نومبر کو عدالتی پیشیوں کے بعد لانڈھی جیل لائے گئے تو اُن کی ملاقات اُن کے اہلِ خانہ سے بھی کرائی گئی تھی۔ ایک صحافی کے طور پر وہ منظر میں نے دیکھا تھا، جیل تک رسائی پانے کے بعد جو مناظر نظرآئے وہ آج بھی آنکھوں کے سامنے گھومتے ہیں۔والدہ ، بیگم، دونوں بیٹیاں اور نواسا ، نواسی ایک ساتھ نوازشریف سے ملنے وہاں پہنچے تھے۔ مریم نواز جب اپنے والد سے ملی تو اُن کا ذہن کیسے کام کررہا تھا؟اور اُن کے خاندان کے باقی افراد کیا کررہے تھے؟یہ ایک بالکل الگ کہانی اور مختلف تجزیے کا موضوع ہے۔ مگر تب بھی مریم نواز اپنے ہاتھ میں بھاری مالیت کی گھڑی اور ہیرے کی انگوٹھیاں پہن کر آئی تھیں۔ ایک شاہانہ رہن سہن اس مزاج کے لوگ کبھی اور کسی بھی حال میں ترک نہیں کرسکتے۔ بس یہی ایک مشترک چیز ان دونوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں کوئی چیز بھی مشترک نہیں۔
مریم نواز کے حوالے سے پھر بھی یہ کہا جارہا ہے کہ جے آئی ٹی میں اُن کی پراعتماد پیشی سے سیاسی طور پر اُن کی ’’لانچنگ‘‘ ہو گئی۔ کیا یہی وہ موقع رہ گیا تھا جہاں سے اُن کی لانچنگ کی جاتیں؟ یہ کیسا طرزِ فکر ہے کہ مبینہ بدعنوانیوں اور ایک معاملے پر پورے خاندان کی طرف سے اعلانیہ الگ الگ موقف پر اُٹھنے والے سوالات کی تحقیقات کے عمل میں ’’سیاسی امکانات‘‘ تلاش کیے جائیں۔یہ ایک خاص طرح کی ذہنیت ہے۔آصف علی زرداری نے گزشتہ دنوں کہا کہ نوازشریف کو میرا مشورہ یہ تھا کہ وہ وزیر اعظم نہیں صدر بنیں اگر وہ میرا مشورہ مان لیتے تو آج اس حال میں نہ ہوتے۔ صدر کو مقدمات سے آئینی تحفظ ہوتا ہے۔ اس کامطلب کیا ہے؟ بدعنوانی جاری رہے گی، مسئلہ اس کے اثرات سے بچنے کا ہے۔ سیاست دان نہیں ، ایک جرم پسند ذہن ایسے سوچتا ہے۔ یہ دونوں کیسے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ سیاسی محاذ پر دونوں جماعتوں کی قیادت اسی طرزِ فکر میں مبتلا دکھائی دیتی ہے۔ مریم نواز کے لیے جے آئی ٹی میں پیشی پر وضع کیے گئے دلائل دراصل زرداری زدہ ذہن رکھتے ہیں۔
اس ذہن سے مریم نواز کی پیشی پر وہی مناظر تخلیق کیے جاسکتے تھے جو ہوئے مگر ا س پر برعکس طورپر وہی دلائل آنے تھے جو آرہے ہیں کہ پاکستا ن کی سیاست وصحافت ایک بڑے بازار میں رہ کر تاجرانہ طور پر اسی طرح بروئے کار آتی ہے۔انسان کا طرزِ فکر وعمل اُس کی ترجیحات کی قید میں ہے اور ہماری ترجیحات میں کہیں پر بھی درست اور غلط کا کوئی تناظر سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
شہدائے بلوچستان وجود جمعرات 09 مئی 2024
شہدائے بلوچستان

امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں وجود جمعرات 09 مئی 2024
امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں

بی جے پی اور مودی کے ہاتھوں بھارتی جمہوریت تباہ وجود جمعرات 09 مئی 2024
بی جے پی اور مودی کے ہاتھوں بھارتی جمہوریت تباہ

مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر