وجود

... loading ...

وجود
وجود

’’اساں قیدی تخت لہور دے‘‘

بدھ 05 جولائی 2017 ’’اساں قیدی تخت لہور دے‘‘

اساں قیدی تخت لہور دے کو جنوبی پنجاب میں مزاحمتی و انقلابی نعرے کا درجہ حاصل ہے ، یہ نعرہ دراصل جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے اظہار اور تخت لہور سے بیزاری کا ذریعہ ہے ، یہ حقیقت ہے کہ یہ نعرہ لگانے والی جماعتیں یا تنظیمیں کبھی بھی صرف اسی بنیاد پر عوام سے ووٹ نہیں لے پائیں ، اس کے باوجود یہ نعرہ اس خطے میں پائی جانے والی محرومی کا’’ترجمان‘‘ ہے، ایسا ہی ایک قیدی پنجاب کے حکمرانوں یعنی تخت لہور کی قید میں رہا ، پاکستان کی سیاست میں اپنی جداگانہ پہچان رکھنے والے ’’بابائے جمہوریت ‘‘نوابزادہ نصر اللہ خان اور آمریت کے ’’باغی‘‘ مخدوم جاوید ہاشمی کی سرزمین سے تعلق رکھنے والاجمشید خان دستی اپنی طرز کا الگ ہی سیاست دان ہے ، جمشید دستی کو مسلمانوں کا ’’جے سالک‘‘ بھی کہا جاتا ہے جس کا عملی مظاہرہ وہ کئی بار کرچکا ہے،جمشید خان دستی نے عملی سیاست کا آغاز 2002میں نوابزادہ نصر اللہ خان کے نام سے منسوب ضلع کونسل مظفر گڑھ کی مقامی سیاست سے کیا ، جمشیددستی کوبابائے جمہوریت کے فرزندنوابزادہ افتخار احمد نے اپنے گروپ کے ٹکٹ پر ضلع کونسل مظفر گڑھ سے لیبر کونسلر منتخب کروایا ، اس زمانے میں ملک سلطان ہنجراء ضلع ناظم تھے جنرل مشرف کا طوطی بولتا تھا، جمشید دستی بظاہر لیبر کونسلر منتخب ہوا لیکن اس کے ارادے ’’خطرناک‘‘ تھے ، اس نے عملی سیاست میں قدم رکھتے ہی مزدوروں کی تحریک میں جان ڈالنے کا فیصلہ کیا اور اس علاقے کی ٹیکسٹائل اور شوگر ملز میں مالکان اور انتظامیہ کی جانب سے مزدوروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویہ کے خلاف آواز بلند کرنے کا سلسلہ شروع کیا ، جمشید دستی بطور لیبرکونسلر مزدوروں کی تحریک کو ’’لیڈ ‘‘ کرنے لگا ، دھرنے ، جلسے ، جلوس اور ریلیاں اس کی پہچان بن گئیں ، اسی دور میں ضلع ناظم کے خلاف اسلام آباد تک احتجاجی مارچ کیا ، اپنی طرز کے مختلف سیاست دان کے خلاف اسی دور میں پہلا مقدمہ درج ہوا ،پھر کیا تھا مقدمات ، گرفتاری اور رہائی ، احتجاج اور دھرنا جمشید دستی کی پہچان بن گیا ، یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جمشید دستی سیاست میں آنے سے پہلے صحافت بھی کرتا رہا ہے بلکہ سیاست دان بننے کے بعد بھی کچھ عرصہ صحافی رہا ، میرے بڑے اور شفیق بھائی رانا امجد علی امجد جیسے کہنہ مشق صحافی کا شاگرد رہاہے ، یہ اور بات کہ وہی رانا امجد اب اسی شاگرد کی سیاسی پارٹی میں سیکرٹری اطلاعات کے طور پر کام کررہے ہیں ، 2002کی مقامی حکومت نے اپنی 3سالہ مدت پوری کی تو جمشید دستی 2005کے الیکشن میں اپنی آبائی یونین کونسل نمبر 35مظفر گڑھ سٹی سے ناظم منتخب ہوا ، انقلابی ذہن رکھنے والے دستی نے اپنی یونین کونسل میں نکاح ، شادی ، فوتیدگی اور پیدائشی سرٹیفکیٹ پر عائد سرکاری فیس ختم کردی ، یہ ایسا قدام تھا جس نے جمشید دستی کو سیاست دان بننے میں بہت زیادہ مدد کی، پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کا طوطی بولتا تھا ، ان کو پیپلز پارٹی کا ناظم کہاں قبول تھا حکومت پنجاب نے پیپلز پارٹی کے ضلع ناظم مظفر گرھ عبدالقیوم جتوئی کا جینا دوبھر کردیا تو ضلع ناظم نے جمشید دستی کوضلعی اسمبلی کی صدارت کے لئے پینل آف چیئر مین منتخب کرکے اپنی غیر موجودگی میں عملی طور پر ضلعی نظامت سپرد کردی ،جمشید دستی نے اس دور میں بھی ہنگامہ خیزی جاری رکھی یہاں تک کہ 2008آن پہنچا ، پیپلز پارٹی نے حلقہ این اے 178سے جمشید دستی کو ٹکٹ دے دیا، اب اس کے مدمقابل بابائے جمہوریت کے فرزند نوبزادہ افتخار احمد تھے ، یہ وہی ہیں جن کے ٹکٹ پر پہلی بار دستی لیبر کونسلر منتخب ہوا تھا اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ دستی نے اپنے ’’محسن‘‘ کو 20 ہزارووٹوں کے بھاری مارجن سے شکست دی ، جمشید دستی قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا تو اس کے جوہر مزید نکھرے اس نے عوامی خدمت کا سلسلہ مزید تیز کردیا ،چندہ اکٹھا کرکے اپنے علاقہ کے مزدوروں ، طلبا و طالبات اور غریبوں کے لئے بینظیر بھٹو شہید فری بس سروس شروع کرادی، اس کار خیر میں اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی حصہ لیا اور 4بسوں کا تحفہ دیا اس طرح ان بسوں کی تعداد بڑھ کر 5ہوگئی جو آج بھی عوام کو مفت سفری سہولت مہیا کررہی ہیں ،اس دوران اسے جعلی ڈگری کیس میں نااہلی کا سامنا بھی کرنا پڑا ، نااہل ہونے کے بعد ایک بار پھر ضمنی الیکشن جیت کو جمشید دستی نے نظام کے منہ پر ’’طمانچہ‘‘ رسید کیا ، عوام نے عدالتی فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر دستی کو ایک بار پھر اسمبلی میں پہنچا دیا ، جس طرح زخمی شیر زیادہ خطرناک ہوتا ہے ایسے ہی دستی نے بھی اسمبلی میں آنے کے بعد اپنی تمام تر توجہ عوامی خدمت پر مرکوز کردی، اس کا حلقہ انتخاب آج بھی پاکستان بھر میں واحد دیہی حلقہ ہے جہاں 100فیصد گائوں ، دیہاتوں اور گھروں میں بجلی اور سوئی گیس کی سہولت دستیاب ہے ، علاقے کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سرکاری ، نیم سرکاری ، خود مختار یا نجی کمپنیوں میں روز گار دلوانے میں جمشید دستی نے اہم کردار ادا کیا، ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے خان گڑھ کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ تھا جسے خانگڑھ بائی پاس کے نام سے قلیل عرصے میں خطیر رقم سے مکمل کروایا ،جمشید دستی کی خوبی ہے کہ وہ ایماندار اور کارکن دوست سیاست دان ہے ، دستی سے ذاتی تعلق کی بنیاد پر بڑی ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ترقیاتی کاموں میں کمیشن نہیں لیتا اس کو کمیشن کی آفر کرنے والے کئی ٹھیکیدار اور کنسٹرکشن کمپنیاں بلیک لسٹ کی جاچکی ہیں ، پیپلز پارٹی کے دور میں شائد واحد سیاست دان دستی تھا جو کرپشن کی بہتی گنگا میں ’’ڈبکیاں‘‘ لگانے سے بچا رہا ، 2013کے الیکشن میں جمشید دستی نے دو قومی حلقوں این اے 177اور 178سے آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیا اور سابق گورنر غلام مصطفیٰ کھر کے بھائی اور سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے والد نور ربانی کھر کو ہرایا ، 177کی سیٹ چھوڑ کر اپنی آبائی سیٹ سے حلف اٹھایا ، قائد ایوان کے لئے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اعتماد کا ووٹ دیا ، دو سال تک ن لیگ کے ساتھ ’’معاشقہ‘‘ چلتا رہا تاہم وزیرا عظم کے شاہانہ طرز سیاست سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوام راج پارٹی بنائی ، ضمنی الیکشن میں اپنے بھائی جاوید دستی کو ٹکٹ دیا عوام کو ’’موروثی‘‘ سیاست پسند نہ آئی تو انہوں ’’جاگیر دار‘‘ نور ربانی کھر کو اپنا نمائندہ چن کر اسمبلی میں بھیج دیا، جمشید دستی کی سیاست سے لاکھ اختلاف کریں لیکن ایک بات یقینی ہے وہ یہ کہ وہ کرپٹ نہیں وہ کارکن دوست عوامی سیاست دان ہے ، اب جس ’’ جرم‘‘ میں وہ جیل کی سلاخوں میں ن لیگ کی موجودہ حکومت کا پہلا سیاسی قیدی بن کر دن کاٹ رہا تھا ، اس میں اس کا جرم صرف اتناتھا کہ اس نے نور ربانی کھر کے حلقہ انتخاب کے عوام کے لئے نہری پانی سرکار کی اجازت کے بغیر کھولا تھا، اس حلقہ کو جاننے والے اچھی طرح بتا سکتے ہیں کہ اس علاقہ میں لوگوں کا ذریعہ کھیتی باڑی اور غلہ بانی ہے جب فصلیں پانی کی قلت سے سوکھ اور جانور مررہے ہوں تو پھر اتنی سی ’’بغاوت‘‘ تو بنتی ہے ، یہ بھی محض اتفا ق ہے کہ پاکستان کے 70 فیصددیہی لوگوں اور سیاست دانوں کی اکثریت پانی چوری میں ملوث ہے ، ان کے خلاف تو کبھی اس طرح کے مقدمات قائم نہیں کئے گئے ، جس شخص نے عوام کی خاطر مائنر (نہر سے چھوٹاکھال)کا تختہ اٹھایا ہو اس کے خلاف مقدمے کا درج ہونا اور برق رفتاری سے پولیس کا گرفتار کرنا سمجھ سے بالا تر ہے، طاقتور وں کی ’’انگلی‘‘ پر سیاست کرنے والوں کو پولیس پوچھتی تک نہیں جو ریاستی اداروں پر حملوں اور ملکی نظام کو تہہ و بالا کرنے والوں کی انگلیوں پر ناچتی ہے وہ ایک عوامی سیاست دان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرے تو اس کی مذمت کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے،ظلم یہ ہے کہ پانی چوری پر 7اے ٹی اے یعنی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت بھی پرچہ درج کرلیا گیا ہے ،جمشید دستی ایک بہادر آدمی ہے اس کے سا تھ جو سلوک کیا جارہا تھا وہ قابل مذمت ہی نہیں بلکہ ہمارے نظام کے لئے باعث شرم بھی ہے ، 8جون کو گرفتار ہونے والے منتخب ایم این اے کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اس قدر تاخیر کردی کہ پنجاب حکومت کو مزید وقت مل گیا اور اس نے اپنا غصہ دستی پر نکالنے کا کام شروع کردیا، یہ بھی اتفاق ہے کہ جس دن جمشید دستی کی روتے ہوئے ہاتھ باندھ کر چیف جسٹس سے اپیل کی ویڈیو منظر عام پرآئی اسی روز ملتان میں میرے پاس بیٹھے دستی کی تصویر بھی فیس بک انتظامیہ نے میری یاد دہانی کے لئے میری وال پر شیئر کی ، ایک قومی اخبار نے کچھ عرصہ کے لئے مجھے ملتان بھیجا گزشتہ سال بالکل اسی دن جمشید دستی اور رانا امجد میرے دفتر تشریف لائے تھے اور یہ بھی محض اتفاق ہے کہ دستی نے اسی روز پنجاب حکومت کی جانب سے انتقامی کاررائیوں بارے مجھے بتایا تھا،صرف 22دنوں میں جمشید دستی کو 3اضلاع کی 3جیلوں میں منتقل کیا گیا یوں لگتا ہے جیسے وہ خطر ناک ’’دہشت گرد‘‘ ہو ، گرفتاری کے بعد ملتان جیل میں قید کیا گیا یہاں مخدوم جاوید ہاشمی ، شاہ محمود قریشی نے ملاقا ت کی ، شیخ رشید نے ملاقات کے لئے جانا تھا تو اسی رات ڈی جی خان جیل منتقل کردیا گیا ، اس کی پارٹی نے یہاں بھی احتجاج شروع کردیا یہاں تک کہ عید الفطر والے دن بھی ہزاروں لو گوں نے اس کی رہائی کے لئے مظاہرہ کیاپھر اسے سرگودھا منتقل کردیا گیا ، حکمرانوں کو حکومت سے نکلوانے میں ہمیشہ مشیروں کا ہاتھ رہا ہے ان کومشورہ دینے والے اور اس پر عمل درآمد کرنے والے حکمرانوںکے دوست نہیں ہوسکتے ، جمشید دستی کو بھتہ خوری، ڈکیتی ، احتجاجی سیاست کی بنیاد پر قید کیا جاتا تو شائد کوئی مسئلہ نہ بنتا مگر ان کو عوام کے لئے پانی کی ’’ ڈکیتی‘‘ کے جرم میں پابند سلاسل کیا گیا ، یہ قید جمشید دستی کے لئے ’’رحمت‘‘ ثابت ہوگی ، ایک حلقے کا ایم این اے اب جنوبی پنجاب کا نمائندہ بن کر ابھرے گا ، اس پر تخت لہور کو ’’قیدی‘‘ اہلیان جنوبی پنجاب کو نوابزادہ نصر اللہ خان اور مخدوم جاوید ہاشمی کاسیاسی ’’وارث‘‘ مبارک ہو۔
٭٭…٭٭

 


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر