وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکہ بھارت گٹھ جوڑ

منگل 04 جولائی 2017 امریکہ بھارت گٹھ جوڑ

رنگ بدلتا ہے آسماں کیسے کیسے !احمد آباد گجرات کے فسادات کے بعد امریکہ نے اس وقت کے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے امریکہ میں داخلے سے روک دیا تھا لیکن حالات نے پلٹا کھایا اور نریندر مودی بھارت کا وزیراعظم بن گیا۔ وہ نریندرمودی جس کو امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے دہشت گرد قرار دیتے ہوئے امریکہ میں داخلے سے روک دیا تھا وہی نریندر مودی گزشتہ دنوں وائٹ ہائوس کا مہمان بنا اور اس طرح سے مہمان بنا کہ میزبان نے اس کی کوئی فرمائش رد کرنے کا حوصلہ نہ پایا۔
آج کی دنیا کا اصل حکمران نہ ڈونلڈ ٹرمپ ہے نہ نریندرمودی یا ولادی میرپوٹن بلکہ اصل حکمران کارپوریٹ سیکٹر ہے جو اپنی ان کٹھ پتلیوں کے ساتھ کھیلتا ہے جہاں جس کٹھ پتلی کو جو رقص کرانا ہو کرا دیتا ہے۔ صہ ” رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے”
یہ سارے حکمران جو بظاہر دنیا کی قسمت کے فیصلے کرنے کے مجاز اور مختار ہیں ان کی اصل حیثیت کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں۔بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور کارپوریٹ سیکٹر کے حساب سے سب سے بڑا ملک۔ چین میں چینی کارپوریٹ سیکٹر کو تو عملداری کی اجازت ہے غیر ملکی کارپوریٹ سیکٹر چین میں داخل نہیں ہو پا رہا ہے اگرچہ ایک عرصہ سے اس سیکٹر کی کوشش ہے کہ چین کی معیشت پر قابو پایا جائے لیکن چینی پالیسیوں اور قوانین نے ابھی تک انہیں اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہونے دیا ہے۔
اب ہم اس کارپوریٹ سیکٹر کی عملداری کو دیکھتے ہیں کہ یہ کس طرح سے دنیا کے ہر ادارے پر اثرانداز ہوتا ہے سب سے پہلے ہم ایک سماجی معاملے کو لیتے ہیں مس ورلڈ اور مس یونیورس کا انتخاب ہر سال ہوتا ہے یہ دنیا کی خوبصورت ترین خواتین کے انتخاب کا ایک مقابلہ ہے لیکن اس مقابلے کے نتائج پر بھی کارپوریٹ سیکٹر بھرپور انداز میں اثرانداز ہوتا ہے چین کی خواتین اس مقابلے میں شریک نہیں ہوتیں یوں اس مقابلے میں شریک ممالک میں بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک رہ جاتا ہے۔بھارت کی آبادی کم وبیش 1 ارب35 کروڑ ہے جس کا55فیصد خواتین پر مشتمل ہے اور ان خواتین میں سے 60 فی صدکی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان ہیں جو مس ورلڈ اور مس یونیورس کے مقابلے میں حصہ لینے کی عمر ہے اس طرح سے بھارت کی تقریبا ً35 سے 40 کروڑ خواتین عمر کے اس زمرے میں آتی ہیں اور کسی بھارتی ناری کے مس ورلڈ یا مس یونیورس بننے کے بعد خود کو خوابوں میں اس مقام پر پاتی ہیں اور نتیجتاً ان خواتین میں کاسمیٹکس کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔کاسمیٹکس کا استعمال بڑھتا ہے تو کاسمیٹکس سے وابستہ کارپوریٹ سیکٹر کا بزنس بڑھتا ہے یوں ہر تین ،چار سال بعدکوئی بھارتی ناری اپنے سر پر مس ورلڈ یا مس یونیورس کا تاج سجا کر 40 کروڑ خواتین میں اس تاج کے حصول کی ہوس بڑھا دیتی ہیں اگر یہ سیکٹر ان مقابلوں کو فکس کرتا ہے تو اس فکسنگ میں لگنے والی رقم اضافی منافع کا عشرعشیر بھی نہیں ہوتی اور یہی کیا دنیا کا تقریباً ہر معاملہ ہی فکسنگ پر چل رہا ہے۔ کھیل ہو یا فلم حکومتوں کا قیام ہو یا تختہ اْلٹنا ہر معاملے میں کارپوریٹ سیکٹر پس پردہ رہ کر کردار ادا کرتا ہے۔
چین مغرب کی معیشت اور کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ایک ابھرتا ہوا خطرہ ہے چین نے گزشتہ 20 سال میں جس رفتار سے ترقی کی ہے اس نے مغرب کے کارپوریٹ سیکٹر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسی دوران چین نے مغرب تک آسان اور جلد رسائی کے لیے گوادر کا انتخاب کیا اور گوادر پر بندرگاہ تیار ہو گئی۔آج گوادر اور سی پیک کا کریڈٹ کوئی بھی لے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں جنرل ایوب خان کے کردار کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔گوادر قیام پاکستان کے وقت سلطنت اومان کا حصہ تھا جسے 60 کی دہائی میں ایوب خان نے سلطان اومان سے حاصل کیا تھا۔
گزشتہ دنوں نریندر مودی نے وائٹ ہائوس کی یاترا کی اور ہاتھ جوڑ کر درخواست کی کہ حزب المجاہدین نے کشمیر میں بھارتی فوجوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں خصوصاً برہان الدین وانی نے جس طرح سے مجاہدین کو سوشل میڈیا کے استعمال کی افادیت سے آگاہ کیا اس کے نتیجہ میں آج بھارتی مظالم دنیا کے سامنے آشکار ہو رہے ہیں حزب المجاہدین کا کمانڈر سید صلاح الدین اس طرح سے کمانڈ کر رہا ہے کہ اس کے مجاہدین کی جانب سے اسلامی حصول جہاد کی خلاف ورزی بالکل نہیں ہوتی یوں اسے دہشت گردی قرار دینا ممکن نہیں ہے مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد حقوق انسانی کے بین الاقوامی قوانین کے بھی مطابق ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے بھی بھارت گزشتہ 70 سال سے اقوام عالم سے کیا گیا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ وعدہ خلافی کرتے ہوئے بھارتی آئین میں ایک ناجائز ترمیم (آرٹیکل 370 ) کے ذریعہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے چکا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی قراردادو ں کے مطابق کشمیر آج بھی ایک حل طلب مسئلہ ہے۔بھارت کے کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ کشمیر اس پورے خطہ (پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش)میں پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا مرکز ہے پاکستان ،بھارت اور بنگلہ دیش میں بہنے والے اکثر دریا کشمیر سے ہی نکلتے ہیں اور عالمی دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق تیسری عالمی جنگ کی بنیادی وجہ پانی کے وسائل پر قبضہ ہو گی۔ نریندر مودی کی واشنگٹن یاترا کے دوران ڈونلڈٹرمپ نے میزبان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دیدیا ہے اور ان کے امریکہ میں موجود مبینہ اثاثہ منجمد کر دیئے ہیں جبکہ سید صلاح الدین کے امریکہ تو کیا کشمیر اور پاکستان میں بھی کوئی اثاثہ نہیں ہیں امریکہ کے اس اقدام کا اصل مقصد چائنا پاکستان اکنامک کورویڈور کو ناکام بنانا ہے کہ اس کورویڈور کی تکمیل سے چین کی معیشت جس کی ترقی کی رفتار اس وقت بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے، اس میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور سستی چینی اشیاء￿ کی موجودگی میں مغرب کے کارپوریٹ سیکٹر کی مونوپلی ٹوٹ جائے گی اسی طرح بھارت کو بھی چین کی اس ترقی سے خطرات لاحق ہیں خصوصاً چین سے ملحقہ ریاستوں میں جاری علیحدگی کی تحریکوں پر مزید پروان چڑھنے کا خطرہ ہے یوں چین اور پاکستان کی بیک وقت ناکہ بندی کے لیے سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیا ہے تاکہ اگر پاکستان حزب المجاہدین کی حمایت جاری رکھے تو پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے پابندیاں عائد کر دی جائیں یوں گوادر کی بندرگاہ غیرفعال ہو جائے یا پھر کشمیر کو اقوام متحدہ کے کنٹرول میں دے کر شاہراہ ریشم اور سی پیک سے نکلنے والی سڑکوں کو پاکستان تک محدود کر دیا جائے کہ پاکستان کا براہ راست کوئی بھی حصہ چین کی سرحدوں سے منسلک نہیں ہے۔
صورتحال بہت گھمبیر ہے خصوصاً سید صلاح الدین کے معاملے پر امریکی ردعمل نے ظاہر کر دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریباً تین سو ارب ڈالر کے معاشی نقصان اور کم وبیش 60 ہزار انسانی جانوں کی قربانی کے باوجود امریکہ پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہے جارج ڈبلیو بش کے دورصدارت میں پاکستان کو جو غیرنیٹو اتحادی کا درجہ دیا گیا تھا اب اس کے خاتمہ کی بھی بات ہو رہی ہے یوں پاکستان کو قربانیوں کے باوجود ماسوائے مطالبات کے کچھ نہیں ملا ہے ہر قربانی کے بعد امریکہ کی جانب سے ڈومور کا مطالبہ ہوتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ خارجہ پالیسی پر غور کیا جائے۔ سی پیک منصوبے کو صرف چین تک محدود نہ رکھاجائے بلکہ وسط ایشیائی ممالک کو بھی اس میں شامل کر کے دنیا کے بڑے حصے اور بڑی آبادی کے مفادات اس سے وابستہ کئے جائیں تاکہ آبادی کی بنیادپر کارپوریٹ سیکٹر کے فیصلے اس آبادی کو نظر انداز نہ کر سکیں باقی فیصلہ تو حکمرانوں نے ہی کرنا ہے کہ کوئی متحرک ، حالات حاضرہ اور بین الاقوامی امور پر مہارت رکھنے والا شخص امور خارجہ کا ذمہ دار بنایا جائے یابزرگ لیکن منظور نظر سرتاج عزیز کو ہی مشیر خارجہ برقرار رکھا جائے۔
٭٭…٭٭
اشتیاق احمد خان


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر