وجود

... loading ...

وجود
وجود

بجلی تیار کرنے کے نئے منصوبے ابتدائی مراحل ہی میں مشکلات کاشکار

جمعرات 15 جون 2017 بجلی تیار کرنے کے نئے منصوبے ابتدائی مراحل ہی میں مشکلات کاشکار

حکمران پاکستان مسلم لیگ ن اپنے قائد نواز شریف کی ہدایت اور پارٹی منشور کے مطابق ملک میں بجلی کی قلت پر قابو پانے کیلئے ایک کے بعد ایک نئے بجلی گھروں کے قیام کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی ان میں سے بعض کی تکمیل کے ساتھ ہی ان میں پیداوار شروع کرنے کے دعوے کررہی ہے ، پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے نئے بجلی گھروں کے قیام ان کی تکمیل اور ان میں پیداوار شروع ہوجانے کے حوالے سے یہ دعوے کچھ غلط بھی نہیں ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ 4 سال کے دوران موجودہ حکومت نے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنے اور لوڈ شیڈنگ میں کمی کرنے کیلئے بجلی تیار کرنے کے کئی بڑے منصوبے مکمل کئے ہیں ،گزشتہ 4سال کے دوران موجودہ حکومت نے ملک میں لوڈ شیڈنگ پر کنٹرول کرنے اور عوام کو بلاتعطل بجلی فراہم کرنے کے وعدے پورے کرنے کیلئے بجلی تیار کرنے کے کم و بیش ایک درجن نئے منصوبوں کی منظوری دی ہے جن میں سے جیسا کہ میں نے اوپر لکھاہے کہ بعض مکمل ہوچکے ہیں اور ان سے بجلی کی پیداوار بھی شروع ہوچکی ہے۔لیکن حکومت کے ناقدین کاکہناہے کہ حکومت نے سستی شہرت حاصل کرنے اور بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے عوام کے غم وغصے کو کم کرنے کیلئے بعض منصوبوں کا بہت جلد بازی میں افتتاح کردیاہے جس کی وجہ سے ان میں سے کئی بجلی گھر بجلی کی پیداوار شروع کرنے کے ابتدائی مراحل ہی میں مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔حکمران پاکستان مسلم لیگ ن اپنے قائد نواز شریف کی ہدایت اور پارٹی منشور کے مطابق ملک میں بجلی کی قلت پر قابو پانے کیلئے ایک کے بعد ایک نئے بجلی گھروں کے قیام کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی ان میں سے بعض کی تکمیل کے ساتھ ہی ان میں پیداوار شروع کرنے کے دعوے کررہی ہے ، پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے نئے بجلی گھروں کے قیام ان کی تکمیل اور ان میں پیداوار شروع ہوجانے کے حوالے سے یہ دعوے کچھ غلط بھی نہیں ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ 4 سال کے دوران موجودہ حکومت نے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنے اور لوڈ شیڈنگ میں کمی کرنے کیلئے بجلی تیار کرنے کے کئی بڑے منصوبے مکمل کئے ہیں ،گزشتہ 4سال کے دوران موجودہ حکومت نے ملک میں لوڈ شیڈنگ پر کنٹرول کرنے اور عوام کو بلاتعطل بجلی فراہم کرنے کے وعدے پورے کرنے کیلئے بجلی تیار کرنے کے کم و بیش ایک درجن نئے منصوبوں کی منظوری دی ہے جن میں سے جیسا کہ میں نے اوپر لکھاہے کہ بعض مکمل ہوچکے ہیں اور ان سے بجلی کی پیداوار بھی شروع ہوچکی ہے۔لیکن حکومت کے ناقدین کاکہناہے کہ حکومت نے سستی شہرت حاصل کرنے اور بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے عوام کے غم وغصے کو کم کرنے کیلئے بعض منصوبوں کا بہت جلد بازی میں افتتاح کردیاہے جس کی وجہ سے ان میں سے کئی بجلی گھر بجلی کی پیداوار شروع کرنے کے ابتدائی مراحل ہی میں مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ملک میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ ظاہر کرنے کیلئے بجلی کے جن منصوبوں کا انتہائی جلد بازی میں افتتاح کیاگیا ان میں تا زہ ترین مثال بھکی پاور پروجیکٹ کی ہے وزیرا عظم نواز شریف نے 19 اپریل کو بلند بانگ دعووں کے ساتھ اس پروجیکٹ کا افتتاح کرتے ہوئے بڑے فخر سے اسے اپنی حکومت کا ایک بڑا کارنامہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس پروجیکٹ سے ملک میں لوڈ شیڈنگ پر کنٹرول میں نمایاں مدد ملے گی لیکن ابھی فضائوں میں وزیر اعظم کے اس دعوے کی گونج باقی ہی تھی کہ اس پروجیکٹ نے اپنے افتتاح کے صرف ایک ماہ بعد ہی کام کرنا بند کردیا،وزیر اعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ پروجیکٹ تکمیل کی مقررہ مدت سے بہت پہلے مکمل کرکے حکومت نے ایک کارنامہ انجام دیا ہے اور حقیقتاً تھا بھی ایسا ہی لیکن جلد بازی میں مکمل کیاگیا ۔یہ پروجیکٹ پیداوار شروع کرتے ہی مشکلات کا شکار ہوکر بند ہوگیا۔ افتتاح کے فوری بعد اس پروجیکٹ کے کھولے گئے پہلے ٹربائن میں ٹیکنیکل اور میکانیکل خرابیاں پیداہوگئیںاور اس طرح یہ پروجیکٹ بالکل بند ہوگیا یعنی اس سے بجلی کی پیداوار کاسلسلہ ختم ہوگیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھکی پاور پروجیکٹ چلانے کی ذمہ داری حکومت کے چہیتے ایک ایسے سرکاری نان ٹیکنیکل افسر کے سپرد کی گئی جسے اس پروجیکٹ کے بارے میں الف بے کا بھی علم نہیں تھا اور اسے 20 لاکھ روپے ماہانہ کی پرکشش تنخواہ کے علاوہ بھاری مراعات اور دیگر سہولتیں بھی فراہم کی جارہی ہیں،ذمہ دار افسر کی نااہلی یا اس شعبے سے اس کی ناواقفیت کی وجہ سے اب یہ پروجیکٹ جس سے نیشنل گرڈ کو717 میگا واٹ بجلی فراہم کی جانی تھی بالکل بند پڑا ہے۔پاکستانی اورچینی انجینئر اس پروجیکٹ میں پیدا ہونے والی خرابی کاپتہ چلانے اور اسے ٹھیک کرکے دوبارہ چلانے میں ناکام ہوچکے ہیں اور اب اطلاعات کے مطابق اس کی خرابی کاپتہ چلانے اور اس کی مرمت کرکے قابل استعمال بنانے کیلئے جرمنی سے انجینئر بلانے کافیصلہ کیاگیاہے۔ اس حوالے سے ایک دوسری مثال حویلی بہادر شاہ گیس ٹربائن پروجیکٹ کی ہے جسے ایل این جی سے چلایاجانا تھا اس پروجیکٹ سے سسٹم میں 385 میگاواٹ بجلی شامل ہونے کی توقع تھی لیکن یہ پلانٹ بھی پیداوار کے ابتدائی مراحل ہی میںمشکلات کاشکار ہوکر بند ہوگیا، اطلاعات کے مطابق ا س پروجیکٹ کے بند ہوجانے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ پلانٹ بہت زیادہ جدید تھا ۔اس سے قبل پنجاب کے علاقے گوجرانوالہ میں نندی پور پاور پروجیکٹ بھی اسی طرح کی مشکلات کاشکار ہوکر حکومت کیلئے مشکلات اور جگ ہنسائی کاسبب بن چکاہے۔ نندی پور پاور پروجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر اور ناکامی کی وجہ سے حکومت کو خاصی تنقید کاسامنا کرنا پڑرہا ہے اور اب بھی حزب اختلاف کی جانب سے بار بار یہ سوال کیاجارہاہے کہ حکومت نے اتنا مہنگا پروجیکٹ شروع ہی کیوں کیاتھا؟اس حوالے سے حکومت پر پروجیکٹ کے حوالے سے لاپروائی برتنے اور کرپشن کے الزامات بھی عاید کئے جاتے رہے ہیں۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق نندی پور پاور پروجیکٹ کو گیس پر تبدیل کرنے کی تجویز پر غور کیاجارہاہے لیکن اس پلانٹ کو گیس پر تبدیل کرنے کیلئے اس میں مزید 7 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی جبکہ اطلاعات کے مطابق ا س پروجیکٹ پر اب تک 65 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جاچکی ہے۔اس پلانٹ کو گیس پر منتقل کئے جانے کے بعد اس سے پیداہونے والی بجلی ملک میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی ثابت ہوگی کیونکہ ایک اندازے کے مطابق اس پلانٹ سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت کم وبیش15.63 روپے فی یونٹ ہوگی۔ نندی پاور پروجیکٹ کی منظوری سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں دی گئی تھی اور اس کیلئے مشینری درآمد کی گئی تھی لیکن پرویز مشرف حکومت کے خاتمے کے بعد یہ پروجیکٹ تعطل کاشکار ہوگیااور کئی ماہ تک اس کی مشینری کراچی کی بندرگاہ پر پڑی رہی بعد ازاں ملک میں بجلی کی کمی شدت اختیار کرنے کے بعد موجودہ حکومت نے 2014 میں جلد بازی میں اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کافیصلہ کیاتھا۔ ایک اور اطلاع یہ کہ اس پروجیکٹ میں خرابیاں پیدا ہونے کاایک اور بڑا سبب یہ ہے کہ اس کیلئے درآمد کی جانے والی مشینری نئی نہیں بلکہ استعمال شدہ یعنی سیکنڈ ہینڈ ہے اور یہ اپنی پوری استعداد یا گنجائش کے مطابق کام کرنے کی صلاحیت کھوچکی ہے اس لئے جب اس کواس کی پوری استعداد کے مطابق چلانے کی کوشش کی گئی تو یہ جواب دے گئی۔ماہرین کاکہناہے کہ اس طرح کی مشینری سے نئے پلانٹس کے قیام سے ملک میں بجلی کی کمی پرقابو پانا ممکن نہیں ہوسکتا کیونکہ ان پرانے پلانٹس سے پیداہونے والی بجلی نئے پلانٹس پر تیار ہونے والی بجلی کے مقابلے میں بہت زیادہ مہنگی ہوتی ہے اورحکومت کو اس پر زیادہ سبسڈی ادا کرنا پڑتی ہے جس سے سرکلر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوتاہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس حوالے سے کیا طریقہ کار اختیار کرتی ہے اور پیداوار کے ابتدائی مراحل ہی میں دم توڑ جانے والے پلانٹس کو دوبارہ کارآمد بنانے کیلئے حکومت کو مزید کتنی رقم خرچ کرنا پڑے گی۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر