وجود

... loading ...

وجود
وجود

پانی،کلبھوشن اور مسئلہ کشمیر:بھارتی مستعدی اور پاکستان کی بیمار پالیسی

بدھ 24 مئی 2017 پانی،کلبھوشن اور مسئلہ کشمیر:بھارتی مستعدی اور پاکستان کی بیمار پالیسی


پاکستان کلبھوشن یادیو کے کیس سے پہلے پانی کا کیس ہندوستان کے مقابلے میں ہار چکا ہے اور اس وقت بھی پاکستان کے نالائق حکمرانوں نے اپنی عوام کو بیوقوف سمجھ کر آخر وقت تک جھوٹ بولا تھا ۔حیرت انگیز بات یہ کہ ایک مسئلے سے متعلق پاکستان کے میڈیا نے دو متضاد خبریں چلائی تھیں ۔ایک خبریہ تھی کہ’’ عالمی ثالثی عدالت نے پاکستان کی جانب سے کشن گنگا ڈیم منصوبہ پر اٹھائے جانیوالے اعتراضات کو درست قرار دیتے ہوئے فیصلہ پاکستان کے حق میں سنادیا ہے جبکہ اس کے بالکل برعکس خبر یہ تھی کہ پاکستان کے ٹیم کی نااہلی اور ناقص تیاری کی وجہ سے پاکستان مقدمہ ہی ہار گیا۔ اس کے حقائق بعد میں سامنے آئے کہ بھارتی رشوت نے اس مسئلے میں بڑا کام کیا تھا ۔پاکستان کی مشہور ویب سائٹ’’سیاست‘‘ پر خبر ہے کہpakistan has lost its stand due to poor handling of the case with india پاکستان بھارت کے خلاف اپنا مقدمہ ناقص تیاری کی وجہ سے ہار گیا۔روزنامہ نوائے وقت 23جنوری2014ء کو لکھتا ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے عالمی عدالت انصاف میں کشن گنگا پاور منصوبے کیخلاف مقدمہ ہارنے کے باوجود انڈس واٹر کمشنر مرزا آصف بیگ نے پاکستان کے مقدمہ جیتنے کا بیان جاری کیا، عالمی عدالت انصاف نے دریائے جہلم پر بھارت کی طرف سے کشن گنگا پاور منصوبے کی تعمیر کیخلاف پاکستان کی درخواست مسترد کرکے موسم سرما میں پاکستان کے 12مکعب میٹر فی سیکنڈ پانی کے مطالبے کے برعکس صرف 9 مکعب میٹر فی سیکنڈ پانی جاری کرنے کا فیصلہ دیا۔اردوپوائنٹ میں ’’تقسیم آب ‘‘کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں لکھا ہے کہ ’’تقسیم ِ برصغیر کے وقت پاکستان کو کشمیر سے آنے والے دریاؤں سے 5600کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جبکہ جس میں سند طاس معاہدے کے تحت تین دریاؤں پر بھارتی حق تسلیم کر لینے کے بعد یہ پانی کم ہوتے ہوتے 1200کیوبک میٹر تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔جموں و کشمیر کے تمام دریاؤں پر بجلی پروجیکٹس کی تعمیر سے نہ صرف پاکستانی سرزمین بنجر ہو جائے گی بلکہ غذائی اجناس کی شدید کمی کے ساتھ ساتھ بجلی کا بحران پہلے سے زیادہ شدت اختیار کرتا جا ئے گا۔مگر پاکستان کے لکھے پڑھے لوگوں کا پیٹ ملک کے برعکس صرف اس خفیہ رشوت سے ہی بھرتا ہے جو بھارت کی ایجنسیاں مختلف طریقوں سے مختلف مواقع پر انہیں پاکستان کو نقصان پہنچا کر فراہم کرتی ہیں۔ یقین نہ آئے تو کلبھوشن یادیو کے کیس سے متعلق پاکستانی اخبارات میں شائع ہو نے والے انکشافات پڑھ کرشک رفع کر لیجیے ۔
کلبھوشن یادیو پاکستان کے مطابق مبارک حسین پٹیل کے خفیہ نام پرجاسوسی کرنے والے اس شخص کا نام ہے جس نے بلوچستان سے لیکر کراچی تک بہت ساری دہشت گردی کی کارروائیاں کی ہیں ۔پاکستان کی فوجی عدالت نے اس شخص کو سزائے موت سنائی ہے ۔اور 20مئی 2017ء کے بعد فوجی سربراہ سے رحم کی اپیل کی مدت ختم ہو نے کے بعد اس کے پاس دو ہی آپشن باقی رہیں گے ایک سپریم کورٹ اپیل اور دوم صدر مملکت سے رحم کی درخواست ۔اخباری اطلاعات کے مطابق کلبھوشن یادیو فوجی سربراہ سے اپیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے اور شاید وہ دوسرے دو آپشنز کے برعکس پھانسی ہی کو قبول کرے گا ۔مگر بھارتی حکومت نے اپنے طرف سے تمام تر ذرائع استعمال میں لاتے ہو ئے کلبھوشن یادیو کو بچانے کے لیے عالمی عدالت کی طرف رجوع کرتے ہو ئے پھانسی پر روک لگانے کی سنجیدہ کوششوں کا نہ صرف باضابط آغاز کر لیا ہے بلکہ اب بھارت کی کوششیں رنگ لاتی ہوئی نظر آرہی ہیں ،اس لیے کہ عالمی عدالت نے پہلی ہی سماعت میں حتمی فیصلہ آنے تک پھانسی پر روک لگا رکھی ہے ۔مگر بات اتنی سی نہیں بلکہ پاکستانی میڈیا ذرائع سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ خود پاکستان کے بعض طاقتور حلقے کلبھوشن کو بچانے میں نہ صرف دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے اس کھیل کا با ضابط آغاز کر لیا ہے ۔ کراچی پاکستان سے شائع ہو نے والے مقامی اخبار نے 19مئی2017ء کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں وہ کلبھوشن کے کیس کو عالمی عدالت تک پہنچانے کے کھیل کا دوسرا خوفناک پہلو بھی بیان کرتا ہے وہ لکھتا ہے کہ ’’حکومت کو ہمیشہ شک و شبہ کی نظر سے دیکھنے والے حلقے کلبھوشن یادیو کا معاملہ عالمی عدالت میں لے جانے کے تانے بانے بھارتی اسٹیل ٹائیکون سجن جندال کے ساتھ وزیر اعظم کی غیر اعلانیہ ملاقات سے جوڑ رہے ہیں ۔یہ حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بھارتی بزنس مین کے ذریعے حکومت تک یہ پیغام پہنچایا گیا تھا کہ وہ کسی طرح کلبھوشن تک بھارتی قونصلر رسائی کا راستہ ہموار کرے تاکہ دونوں ممالک دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی میں کچھ کمی آئے۔اس حوالے سے اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہوئے سجن جندال کو پیغام دیاگیاکہ بھارت عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرے۔
کلبھوشن کے کیس کو عالمی عدالت میں لے جانے سے پہلے ’’عالمی عدالت‘‘کے دائرہ اختیار کو پاکستان تک بڑھانے کے لئے حیرت انگیز طور پر 29مارچ2017ء کو اقوام متحدہ کے ’’کمپلسری ڈیکلریشن‘‘پردستخط کیے ہیں۔ہندوستان اور پاکستان 1977ء میں ویانا کنونشن کے رکن بنے ہیں۔ ہندوستان نے رکن بننے سے چار برس قبل اس ڈیکلریشن پر دستخط کیے ہیں ۔مذکورہ اخبار کے مطابق پاکستان کے کئی ماہرین قانون کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے خود بھارت کو کلبھوشن کا کیس عالمی عدالت میں لے جانے کا موقع فراہم کیا ہے ۔اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ’’کمپلسری ڈیکلریشن ‘‘پر دستخط کیے ہیں جس سے بھارت کو کلبھوشن کا کیس عالمی عدالت میں لے جانے کا موقع فراہم ہوا ہے ۔حیرت یہ کہ پاکستان کشمیر میں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کیس بھارت کے کہنے پر ہی ابھی تک عالمی عدالت میں لینے سے رکاہواہے اس لیے کہ عالمی عدالت میں اُسی کیس پر فیصلہ ہوتا ہے جس پر فریقین رضا مند ہوں ۔کلبھوشن کے کیس میں ایسا کچھ نظر نہیں آتا ہے ۔بھارت کے وکیل نے عالمی عدالت میں کیس لڑنے کے لیے فیس صرف ایک روپیہ لی ہے جبکہ پاکستانی حکومت اپنے وکیل سے متعلق ابھی تک بتا نہیں پائی ہے کہ کتنی فیس ادا کی ہے یا کرنی ہے ۔حیرت انگیز بات یہ کہ پاکستانی وکیل نے عالمی عدالت کے سامنے اپنے دلائل پیش کرتے ہو ئے وقت سے پہلے ہی بات ختم کر لی یعنی نوے منٹ کا کام اس نے صرف چالیس منٹ میں ختم کر کے شکوک و شبہات کو جنم دیدیا۔جس سے ماہرین یہ کہنے پر مجبور ہو ئے ہیں کہ وکیل صاحب تیاری کر کے عدالت میں نہیں آئے تھے یا یہ عالمی عدالت میں مؤقف نرم رکھنے کی دانستہ کوشش کا حصہ ہے ۔
ان دو کیسوں کا معاملہ براہ راست پاکستان کی سالمیت سے جڑا ہوا ہے، پانی کا کیس ہارنے کا مطلب تھا پاکستان کی سرسبزو شاداب زمینوں کو بنجر کرنے کی کوشش کرنا اور اب کلبھوشن یادیو کے کیس میں نرمی برتنے کا مطلب ہے پاکستان کی سرزمین اور جغرافیائی حدود سے کھلواڑ کرنا ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک ملک اور اس کے حکمران اس حد تک جاسکتے ہیں یا یہ کہ ان میں اس قدر گراوٹ آسکتی ہے تو پھر وہ اس کشمیر کا کیا کریں گے جہاں لوگ اپنے شہداء کو پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر دفناتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔کشمیر کا مسئلہ سمجھتے ہو ئے ہمیں اس بات کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ’’بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو‘‘اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں نہ لے جاتے تو شاید یہ مسئلہ سیاسی سطح پر اس قدر مستحکم نہ ہوتا ۔آج بھی مسئلہ کشمیر سے ان قراردادوں کو نکال دیں تو گویا یہ مسئلہ ان ہزاروں مسائل میں سے ایک مسئلہ ہوگا جو سینکڑوں ملکوں اور قوموں کے بیچ پیدا ہو چکے ہیں۔لہٰذا یہ ماننا پڑے گا’’ صحیح یا غلط‘‘کہ یہ مسئلہ ہندوستان نے خود ہی علاقائی مسئلے سے نکال کر بین الاقوامی مسئلہ بنا دیا ہے ۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس نے اس مسئلے کو اپنی نااہلی اور نالائقی سے ہمیشہ بین الاقوامی سے مقامی مسئلہ بنادیا یقین نہ آئے تو پاکستان اور بھارت کے بیچ تمام معاہدوں کا تفصیلی مطالعہ کیجیے تو پتہ چلے گا کہ پاکستان نے اس کو صرف دو طرفہ مسئلہ مانا ہے اور آج بھی اس کی سفارتی کوششیں اس پر گواہ ہیں ۔
بھارت کے برعکس پاکستان کوعالمی سطح پر سب سے آسان پذیریائی وہ مسلم دنیا ہے جو اب ہر جگہ بھارت کو ترجیح دے رہا ہے۔ یہ ایک دو نہیں پچاس سے بھی زیادہ ممالک پر مشتمل مسلم دنیا ہے جن کے ساتھ مل کر پاکستان بہت کچھ کر سکتا تھا مگر ہمالیائی حقیقت یہ ہے کہ او،آئی،سی کے اجلاس میں کشمیر پر قرارداد لانے کے لیے بھی پاکستان کوبہت جوکھم اٹھانے پڑتے ہیں اس لیے کہ مسلم دنیا بھارت کی ناراضگی سے اپنے آپ کو بچانا چاہتی ہے حالانکہ چند برس قبل تک بھارت کے ساتھ ان کے مفادات بہت ہی محدود تھے مگر اب ان میں بے انتہا وسعت آچکی ہے حتیٰ کہ کل تک ’’نریندر مودی‘‘کو ’’گجرات کے قاتل ‘‘سمجھنے والے عرب حکمران اب اس کو خوش کرنے کے لیے اپنے ممالک میں زمینیں فراہم کر کے مندربنانے کی بھی اجازت فراہم کر رہے ہیں اور تو اور خادمین حرمین شریفین اس کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازکر یہ پیغام دیتی ہے کہ ہمیں ’’خونِ مسلم ‘‘سے بھی زیادہ عزیز وہ مالی مفادات ہیں جن کے توسع کے لیے بھارت ایک وسیع منڈی ہے ۔بھارت کی اس پذیرائی سے یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ وہ ہر محاذ پر مستعد ہے جبکہ پاکستان کی بیمار پالیسی پورے خطے کے لیے سرطان کا کام انجام دے رہی ہے ۔اس کی وزارت خارجہ سب کے سامنے ہے اور اس کے ماتحت سفراء خدا جانے کن مسائل میں مصروف ہیں کہ سب کچھ جانتے ہو ئے بھی وہ عالمی ضمیر کو کشمیر کے قتل عام پر باخبر کرنے سے ہچکچاتے ہیں یا ان کا حال بھی ’’مولانا‘‘کی کشمیر کمیٹی جیسا ہی ہے ۔جو سب کچھ کرتی ہے کشمیر کے سواء!!
کشمیری عوام کی مایوسی کوئی حیران کن امرنہیں ہے بلکہ شاید کچھ عرصے میں کشمیری عوام تنگ آکر اپنا من بدل لیں اس لیے کہ لاشوں کو اٹھاتے اٹھاتے اب ہماری کمر ٹوٹ چکی ہے ۔ہم سے قیدی،زخمی،یتیم ،بیوائیں سنبھالی نہیں جا پاتی تھیں کہ اب ہماری کوکھ میں بھارت کی گاندھیائی فورس نے اندھوں کی بھی ایک بڑی تعداد ڈال دی ہے ۔پاکستان بین الاقوامی برادری کو مسئلہ کشمیر پر جاندار مؤقف رکھنے کے باوجود بھی مطمئن نہیں کر پاتا ہے، نہ ہی اُس مسلم دنیا کو جو کئی حوالوں سے اس کے اپنے ہیں اور جن میں ’’ایٹمی قوت اور باصلاحیت فوج‘‘ہونے کے سبب ایک دبدبہ بھی قائم ہے ۔مگر پاکستان کے نااہل حکمران خود ہی 1972ء کے نقش قدم پر پھر چلتے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔جب ’’ہم اِدھر تم اُدھر‘‘کہہ کر ایک ملک کو دو حصوں میں بانٹ کھایا گیا۔آج بھی حکمرانوں کی نااہلی اس سطح تک پہنچی ہوئی ہے کہ کہیں بلوچستان میں لگی آگ پر قابو پانے کے لیے انہیں پسینے چھوٹتے ہیں اور کہیں کراچی میں نفرتوں کی دیواریں گرانے والے لوگوں پر گردوغبار ڈالنے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔پھر کشمیری کسی سے امید وابستہ کریں تو کیسے ؟جن کے حکمران بزدل اور نااہل ہونے کے ساتھ ساتھ حریص اور کرسی سے چمٹے رہنے کی بھوک میں مبتلا ہوں وہ بھلا اس نریندر مودی سے کیسے مقابلہ کریں جس کے نزدیک ’’گجرات کے قتل عام‘‘میں مارے جانے والے انسان گاڑی کے پہیے کے نیچے مر جانے والے کتے کے بچے جیسا ہو اور جس کی موجودگی میں آج بھی مسلمانوں کی توہین و تذلیل جاری ہو مگر وہ اپنے ہی ملک کے پچیس کروڑ مسلمانوں کے لیے ایک لفظ بھی منہ سے نکالنے کا حامی نہ ہو تو بھلا پاکستانی حاکم اسے کیا مقابلہ کرے جس کا دل کلبھوشن جیسے ’’شریف زادے‘‘ کے لیے بھی موم کی طرح نرم ہو ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر