وجود

... loading ...

وجود
وجود

نادان شرارت

بدھ 10 مئی 2017 نادان شرارت

افغان حکومت ملک کے اندر امن قائم کرنے اور حکومت کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ یہ حکومت شخصیات کے گرد گھوم رہی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ افغان حکومت امریکا اور نیٹو افواج کے حصار میں قائم ہے ۔ بیرونی افواج کاآج انخلاء ہوتا ہے تو اگلے لمحے اشرف غنی، حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور دوسری افغان حکومتی شخصیات، عسکری حکام اور وہ تجزیہ کار جو ہمہ وقت پاکستان کے خلاف زہر اُگل رہے ہیں، افغان سرزمین پر نظر نہیں آئیں گے۔ دراصل افغان حکومت نے امریکا کی ناک کے نیچے بھارت کی سرپرستی و رہنمائی اور ہدایات پر پاکستان کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے ۔ گویاسرحدوں کی پامالی و خلاف ورزی کو افغان فورسز نے معمول بنا رکھا ہے، اور یہ اوچھی حرکتیں بلاشک و شبہ بھارت کی شہہ پر کی جاتی ہیں۔ اب کی بار تو افغان فورسز نے حد ہی کردی،نہ صرف پاک افغان سرحد پر گولیاں برسائیں بلکہ سرحدی شہر چمن کے زیرو لائن پر واقع دیہاتوں حتیٰ کہ شہر چمن تک کو نشانہ بنایا ۔اس اوچھی حرکت کے لیے افغان فورسز نے 5مئی کی صبح یعنی فجر سے پہلے تین یاچار بجے کے وقت کا انتخاب کیا ۔زیادتی و تجاوز کا یہ بہیمانہ سلسلہ 13گھنٹوں تک جاری رکھا ۔ پاک فوج تدارک نہ کرتی تو افغان فورسز کا ارادہ یقینی طور پر پاکستان کی حدود میں گھسنے اور پیش قدمی کا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ مردم شماری کا عمل پاکستانی حدود میں پاکستان ہی کی دو آبادیوں کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں ہورہا تھا اور اعتراض افغان فورسز کو تھا اور حملہ کرکے بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا دھجیاں اُڑائیں۔ دس پاکستانی شہری قتل کردیے ۔جن میںخواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔ چالیس سے زائد زخمی کردیے ۔ یہ بڑے افغانیت اور پشتونیت کے علمبردار بنے پھرتے ہیں اور نشانہ پشتون عوام ہی کو بنایا۔ ہزاروں خاندانوں نے چمن شہر اور قرب و جوار کے محفوظ علاقوں میں پناہ لی۔ جب جوابی وار دیکھا تو پسپائی بھی اختیار کرلی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی حکومت اور افواج نے اب بھی ان سے رعایت کا مظاہرہ کیا وگرنہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاک فضائیہ کو ان کی سرکوبی کا حکم دیا جاتا تاکہ جن جن اسلحہ اور گاڑیوں کے ساتھ افغان فورسز آئی تھیں کو فضائیہ نابود کرتی اور ان کی فورسز کو بھاگنے نہ دیتی۔ افغان فورسز کی جانب سے یہ تجاوز و زیادتی ایسے وقت ہوئی کہ جب پاکستان کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے جس میں ملک کی تقریباً تمام ہی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے، نے کابل کا دورہ کیاتھا اور چھ گھنٹوں پر مشتمل طویل ملاقات افغان صدر اشرف غنی سے ہوئی۔ اطلاعات ہیں کہ افغان صدر اور دیگر حکومتی ذمہ داران نے اصول مہمانداری و آداب سفارت کاری کا لحاظ بھی ملحوظ نہ رکھا یعنی وفد سے نامناسب لہجے میں مخاطب ہوئے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ نے الگ افغانستان کا دورہ کیا۔ افغان حکومت اپنی ناکامی و نا اہلیت کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔ دیکھا جائے توافغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔کیونکہ وہاں حکمرانی امریکا کے بعد بھارت کی قائم ہے ۔ اور یقینی طور پر یہ حملہ بھارت کے کہنے پر ہوا ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اشرف غنی یا عبداللہ عبداللہ کو اس ننگی جارحیت کی بھنک تک نہ پڑی ہوگی ۔ یہ سب کچھ افغان آرمی اور سرحدی فورسز کے چند آفیسروں کے ذریعے کرایا گیا ۔ پاکستان نے افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرلیا، ان سے احتجاج کیا۔ اس کے برعکس افغان حکومت نے کابل میں متعین پاکستان کے سفیر کو طلب کرکے ایک اور بے شرمی کا مظاہرہ کیا (6مئی) ۔ یعنی ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔ افغان حکومت نے بعینہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کا طرز عمل اپنا رکھا ہے۔ بھارت کی ایماء پر بنگلہ دیش نے پاکستان میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا۔ اس حکم پر افغانستان نے بھی لبیک کہا ۔نیز اشرف غنی نے پاکستان کے دورے کی دعوت مسترد کردی، دیکھا جائے تو یہ فیصلہ اشرف غنی کا اپنا نہیں ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کی افغانستان سے ملحق سرحد محفوظ نہیں ہے ۔ کالعدم جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے اعترافات اور انکشافات کے بعد توکوئی دلیل و منطق پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی ۔پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کی تمام تر دیکھ بھال بھارت افغانستان میں کررہا ہے۔ انہیں ہر طرح کی سہولیات دستیاب ہیں۔ یہ مسلح جھتے افغانستان کے اندر کہیں بھی آجاسکتے ہیں۔ افغان حکومت ایک طے شدہ پالیسی کے تحت افغان عوام میں پاکستان مخالف رجحان پیدا کر رہی ہے۔اس مقصد کے لیے افغان میڈیا کو بھی مامور کیا گیا ہے ۔ سوافغانستان جانے والے اس وفد میں محمود خان اچکزئی بھی شامل تھے۔ محمود خان اچکزئی کی جماعت کا سرے سے مؤقف ہی یہی ہے کہ پاکستان افغانستان میں مداخلت کرتا ہے ۔ چناںچہ ا گرحتمی رائے یہ ہو تو کیا اس طرح پاکستان کی نمائندگی کا حق ادا ہو سکتا ہے ؟ اصولی طور پر توہونا یہ چاہیے کہ اصل حقائق بیان کیے جائیں، خواہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں۔ قصور اگر پاکستان کا ہے تو ضرور اس خامی کو اُجاگر کیا جانا چاہیے اور اگر افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے تو اس پر خاموشی قطعی انصاف نہیں ۔ ایک نابغہ روزگار پشتون رہنما ء کی چھ مئی کو چمن میں ہونے والی پریس کانفرنس مبہم الفاظ پر مشتمل تھی ۔ جس میںیہ مؤقف اپنایا کہ ’’محض ایک گائوں کی مردم شماری کے لیے 9 افراد کو شہید اور47کو زخمی کرنے اور لوگوں کو بے گھر کرنے کے حق میں نہیں۔‘‘ اس سے یہ معنی اخذہوتا کہ پاکستان ہی اپنے9شہریوں کو مروا نے کی وجہ بنا ہے ،افغان فورسزکو اشتعال دلایاہے۔اگر مراد یہ نہیں تھی تو بات صاف کی جانی چا ہئے تھی تاکہ کوئی ابہام نہ رہتا۔ سوال یہ ہے کہ جس گائوں میں مردم شماری ہورہی تھی کیا وہ علاقہ پاکستان کے زیر انتظام ہے یا افغانستان کے ؟ اگر پاکستان کے زیر انتظام ہے تو کیا افغان فورسز کو مردم شماری روکنے اور بھاری اسلحہ سے حملے کا حق حاصل ہے ؟ یقیناً افغان فورسز نے پاکستانی شہریوں کا قتل عام کیا۔ چناں چہ اس جارحیت پر صاف اور واضح الفاظ میں افغان فورسز اور حکومت کی مذمت کرنی چاہیے تھی ۔گویا مبہم مؤقف پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش ہے۔ البتہ عوامی نیشنل پارٹی کے ر کن اسمبلی انجینئر زمرک اچکزئی نے افغان فورسز کے اس فعل کو نہ صرف بزدلانہ قرار دیا بلکہ پاکستان سے مسئلہ عالمی سطح پر اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی ہی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے واقعہ سے پہلے کشیدگی ختم کرانے کی اپنے طور پر کوشش کی تھی ۔اصغر خان اچکزئی نے بجا طور پر کہا کہ’’ دونوں ممالک دوستانہ تعلقات قائم رکھیں اور ایک دوسرے کی سلامتی و خود مختاری کو یقینی بنا ئیں ۔پاکستان اور افغانستان کے مسائل کا حل مذاکرات ،ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے ،اعتماد اور عدم مداخلت کی پالیسی میں پوشیدہ ہے ۔ اس کشیدگی کا فائدہ دوسرے اٹھائیں گے جس کا ادراک پاکستان اور افغانستان کو بخوبی ہے ۔‘‘ افغان فورسز کی ا س غیرسنجیدگی و حماقت سے خود افغانستان کو نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ علاوہ ازیںسرحد کی بندش سے لاکھوں عوام کا روزگار متاثر ہوا ہے۔ آئی جی ایف سی میجر جنرل ندیم احمد انجم نے کتنی اچھی بات کہی کہ انہیں افغان فورسز کو نقصان پہنچانے کی کوئی خوشی نہیں ۔ کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے اس حملے کو افغانستان کی نادان شرارت کہا، کہ اپنی اس نادانی پر افغان فورسز کو شرمندگی ہونی چاہیے ۔ ‘‘ افغان حکومت اچھی طرح جان لے کہ ان کی نادان شرارتوں کا فائدہ بھارت کو تو پہنچتا ہوگا مگر خود ان کے لئے نقصان اور گھاٹے کا سودا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر