وجود

... loading ...

وجود
وجود

شیر میسور ٹیپو سلطان کی جنگی سپاہ

جمعرات 04 مئی 2017 شیر میسور ٹیپو سلطان کی جنگی سپاہ

ٹیپو سلطان کی فوج کا سب سے خطرناک ہتھیار “تغرق” المعروف میسوری راکٹ تھا،بری افواج کے علاوہ مؤثر بحریہ فوج بھی اس کی قوت تھی‘حیدر علی اور ٹیپو کوتوپوں کے معاملے میں انگریزوں پر فوقیت حاصل تھی، ٹیپو سلطان سے غداری نہ کی گئی ہوتی تواس کی فوج کو شکست دینا مشکل تھا‘

ٹیپو سلطان(10نومبر 1750۔4 مئی 1799ء) ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے آخری حکمران تھے۔ آپ کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ آپ نے اور آپ کے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو روکے رکھا اور کئی بار انگریز افواج کو شکست فاش دی۔ آپ کا قول تھا۔
”شیر کی ایک دن کی زندگی‘ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے“
آپ نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کے لیے سنجیدہ و عملی اقدامات کیے۔ سلطان نے انتہائی دورس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو از سر نو منظم کیا۔ سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔ نظام حیدرآباد دکن اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کرلیا‘ میسور کی آخری جنگ کے دوران جب سرنگا پٹم کی شکست یقینی ہوچکی تھی ٹیپو نے محاصرہ کرنے والے انگریزوں کے خلاف بھر پور مزاحمت کی اور قلعے کو بند کروادیا‘ غدار ساتھیوں نے دشمن کے لیے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور قلعے کے میدان میں زبردست جنگ چھڑ گئی‘ بارود کے ذخیرے میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور ہوگئی اس موقع پر فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو بھاگ جانے اور اپنی جان بچانے کا مشورہ دیا مگر ٹیپو راضی نہ ہوئے اور 1799ءمیں دوران جنگ سر پر گولی لگنے سے شہید ہوگئے۔
ہندوستان کو غلامی سے بچانے کی کوشش میں اپنی جان دینے والا پہلا ہندوستانی حکمران ٹیپو سلطان بیک وقت حکمران‘ عالم ‘مفکر ‘مدبر ‘جرنیل انجینئر تاجر زاہد متقی اور پرہیز گار انسان تھا۔
ٹیپو سلطان کی فوج کا نظم و نسق اعلیٰ پائے کا تھا۔ اس کی فوج باضابطہ اور مستقل تھی، جو نظام حیدرآباد اور مرہٹوں کے مقابلے میں بہتر مسلح، بہتر تربیت یافتہ اور زیادہ جنگ آزمودہ تھی۔ انگریز مصنف کیمپل کے مطابق “ٹیپو ایک مستعد، اولو العزم اور مہم جو حکمراں تھا۔ جن ایشیائی سلطنتوں سے ہم واقف ہیں ان کے مقابلے میں ٹیپو کی فوجی تنظیم بہتر ہے”۔ ٹیپو کے بے ضابطہ سوار بھی بہت زیادہ کارآمد تھے، وہ ہر طرح کی تنگی برداشت کرسکتے تھے۔ٹیپو کی پیدل فوج کے سپاہی یورپی سپاہ کی طرح دستی بندوقوں اور سنگینوں سے لیس ہوتے تھے، جو میسور ہی میں فرانسیسی ساخت کی بنائی جاتی تھیں۔ ٹیپو کی فوج کے پاس انگریزی اور فرانسیسی اسلحے بھی کثیر مقدار میں تھے، لیکن میسور کے بنے ہوئے اسلحہ کے استعمال کو وہ ترجیح دیتا تھا، اگرچہ وہ ہمیشہ عمدہ قسم کے نہیں ہوتے تھے۔ اس کی ہلکی توپیں فرانسیسی صناعوں کی مدد سے میسور ہی میں ڈھالی جاتی تھیں۔ ان توپوں کے دہانے چونکہ انگریزی توپوں سے بڑے ہوتے تھے اس لیے وہ دور مار ہوتیں اور میدانِ جنگ میں زیادہ موثر ہوتیں، اسی بنا پر حیدر علی اور ٹیپو سلطان دونوں کو گولہ باری میں انگریزوں پر خاصہ تفوق حاصل رہا تھا۔ ٹیپو سلطان کی فوج کا سب سے خطرناک ہتھیار “تغرق” نامی راکٹ تھا جسے عرف عام میں میسوری راکٹ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ راکٹ دو کلومیٹر کے فاصلے پر درست نشانہ لگاتا تھا۔ اس راکٹ کی بدولت انگریزی افواج کو اینگلو۔میسور جنگوں میں بہت زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ پیدل فوج کی تربیت یورپین طرز پر ہوتی تھی۔ کمان کی تمام اصطلاحیں فارسی زبان کی ہوتی تھیں۔ ان کے لباس ارغوانی رنگ کی ایک سوتی صدری ہوتی جس پر شیر کی کھال جیسے گل ہوتے، سرخ یا زرد رنگ کی پگڑی ہوتی اور مختصر سا ڈھیلا ڈھالا پاجامہ ہوتا۔ فوجی ڈسپلن کو ٹیپو بڑی سختی سے برقرار رکھتا تھا اور اس نے حکم جاری کیا تھا کہ جنگ کے دوران اگر کوئی سپاہی فرار ہونے کی کوشش کرے تو اسے گولی مار دی جائے۔ ٹیپوسلطان فوجی سربراہی خود اپنے ہی ہاتھ میں رکھتا تھا اور چونکہ امن ہو یا جنگ دونوں زمانوں میں وہ فوج کے ساتھ ہی رہتا تھا، اس لیے اس کی موجودگی سے فوجیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا جوجوش و جذبہ پایا جاتا تھا، جو دوسرے ہندوستانی حکمرانوں کی فوج میں ناپید تھا۔ میسوری فوج میں جمعرات کا دن چھٹی کا ہوتا تھا۔
اپنی حکمرانی اور متعدد اینگلو ۔ میسور جنگوں کے تجربات کے بعد ٹیپو نے فوج کی تنظیمِ نو کی۔ اس تنظیمِ نو کے نتیجے میں” بخشی” فوج کا اہم ترین افسر بن گیا، جو اس سے پہلے صرف تنخواہیں تقسیم کرتا تھا۔ اس تنظیمِ نو میں عسکر (سواروں) کو چار کچہریوں (برگیڈ) میں اور کچہری کو پانچ موکموں (رجمنٹ) میں تقسیم کیا گیا۔ ہر کچہری یا موکم میں سپاہیوں کی تعداد متعین نہیں تھی۔ کچہری کے کمانڈر کو بخشی اور موکم کے کمانڈر کو موکمدار کہا جاتا تھا۔ موکم کو چار رسالوں (اسکواڈرن) میں تقسیم کی گیا۔ ہر رسالہ کا سربراہ ایک رسالدار ہوتا۔ رسالوں کو یاز (ٹولیوں) میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ہر یاز کا سربراہ ایک یزکدار (کیپٹن) ہوتا، جس کے تحت سرخیل (لیفٹیننٹ)، حوالدار اور سپاہی ہوتے تھے۔
محمود خاں محمود بنگلوری اپنی کتاب تاریخ سلطنت خداداد میسور میں رقم طراز ہیں کہ “سلطنت خداداد میسور میں کل فوج کی تعداد تین لاکھ بیس ہزار تھی”۔ٹیپو سلطان نے ایک فرمان کی رو سے بری فوج کو جس کا نام پیادہ عسکر” تھا، پانچ ڈویژنوں میں تقسیم کیا تھا اور ہر ڈویژن میں 27 قشتون (رجمنٹیں) تھیں اور ہر رجمنٹ میں 1392 سپاہی ہوتے تھے، جن میں 1056 سپاہیوں کے پاس بندوقیں ہوتی تھیں۔ ہر رجمنٹ کے ساتھ ان کے باربرداری کے جوان بھی ہوتے تھے۔ ہر رجمنٹ میں دو توپیں اور گولنداز بھی رہتے تھے۔ سوار کو سلطان نے تین محکموں باقاعدہ کیولری، سلحدار اور کازک میں تقسیم کی تھا۔ ان میںاوّل الذکر کو سوار کہا جاتا تھا۔ اس عسکر کے تین ڈویژن تھے، جن میں ہر ایک میں چھ رجمنٹیں اور ہر رجمنٹ میں 376 سوار متعین تھے۔ ان سواروں کو گھوڑے دئیے جاتے تھے، لیکن سلحدار اور کازک جو تعداد میں بالترتیب 8,000 اور 6,000 تھے، اپنے خاص گھوڑے رکھتے تھے۔ ٹیپو کی فوج میںکل 900 ہاتھی، 600 اُونٹ، 30,000 گھوڑے اور 400,000 باربرداری کے بیل تھے۔
ماڈرن میسور کا مصنف بیان کرتا ہے کہ “ملک کی مدافعت کے لیے ایک لاکھ اسی ہزار کی بہترین منظم و باقاعدہ فوج تھی۔ اس کے علاوہ ایک لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو کی امدادی فوج تھی، جو مختلف کاموں پر مامور تھی”۔ سلطان نے اپنے فوجی محکمے کے لیے اپنی زیر نگرانی ایک کتاب لکھوائی، جس کا نام “تحف المجاہدین” تھا (لیکن یہ فتح المجاہدین کے نام سے مشہور ہوئی) ، جس میں فوجی تنظیم اور تربیت کے اصول و ضوابط قلم بند کیے گئے تھے۔
ٹیپو کی فوج میںبہترین بری افواج کے علاوہ مؤثر بحریہ فوج بھی موجود تھی۔ سلطنت میسور کی بحریہ کے قیام کی ابتدا دراصل نواب حیدر علی نے کی۔ نواب حیدر علی نے بحریہ تیار کرنے کی2بار کوشش کی تھی۔ اس کی پہلی کوشش کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ اس کا بحری کمانڈر اسٹین نٹ بھاگ کر انگریزوں سے مل گیا اور اپنے ساتھ متعدد جہاز بھی لے گیا۔ اس نقصان کے بعد نواب حیدر علی نے یورپین ماہرین کی مدد سے دوبارہ ایک بحری بیڑہ تیار کیا۔ اس مرتبہ برطانوی بحری کمانڈر سر ایڈورڈ ہیگیز نے اس کے بیڑے کی کمر توڑ دی اور 1780 میں منگلور میں داخل ہوکر اس نے بہت سے لنگر انداز جہازوں کو تباہ کردیا تھا۔
ٹیپو سلطان جب باپ کی جگہ میسور کے حکمراں بنے تو انہوں نے انگریزوں کے ہاتھوں تباہ کردہ جنگی جہازوں کی جگہ دوسرے جہازوں کا لانا ضروری نہیں سمجھا۔ اس میں شک نہیں کہ اس کے پاس چھوٹے بڑے بہت سے جنگی جہاز تھے، لیکن اس سے وہ صرف تاجروں کو بحری قزاقوں سے محفوظ رکھنے ہی کا کام لیتا تھا۔ تعداد اور سامانِ جنگ دونوں اعتبار سے وہ انگریز بحریہ کا مقابلہ کرنے کے اہل نہیں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تیسری اینگلو میسور جنگ میں میسوری بحریہ نے افسوسناک کردار ادا کیا اور انگریزوں نے آسانی سے ٹیپو کے مالاباری مقبوضات پر قبضہ کرلیا ، بلکہ مرہٹہ بحریہ بھی میسور کی ایک بندرگاہ پر قابض ہوگئی جو ضلع کاروار میں تھی۔ متعدد اینگلومیسور جنگوں کے بعد سلطان کو اپنی بحریہ کی اس کمی کا احساس ہوا اور اس نے 1793 میں کرناٹک کے علاقے بھٹکل میں ایک بحری اسکول قائم کیا۔ اس اسکول کی طرزِ تعلیم انگریزی طرزِ جہاز رانی پر رکھی گئی۔ بحری فوجی تعلیم کے لیے ایک کتاب لکھی گئی جس میں جہاز کے ایک کیل سے لے کر پورے جہاز کی ضروریات، جہازوں کی تعمیر، جنگ کے قواعد، جہاز چلانا، سپاہیوں کی خوراک، ہاربر (جہازوں کی پناہ گاہ) بنانا وغیرہ کے متعلق مفصل اور مشرح احکام موجود تھے۔بحریہ کو بورڈ آف ٹریڈ (محکمہ¿ تجارت) کی ماتحتی سے نکال کر ٹیپو سلطان نے 1796 میں ایک میریم کے تحت بحریہ بورڈ بنایا، جس کے تیس میربحر (ایڈمرل)، ایک میرزائے دفتر، ایک متصدی اور بڑا سا عملہ ایک اندازے کے مطابق 10,520 تھا۔ میربحر بندرگاہوں پر مقیم ہوتے تھے۔ بحریہ میں بائیس بڑے جنگی جہاز اور بیس چھوٹے جنگی جہاز تھے، بڑے جنگی جہازوں کو دو طبقوں اول اور دوم میں تقسیم کی گیا تھا۔ ان میں بالتریب بہتر (72) اور باسٹھ (62) توپیں نصب ہوتی تھیں۔ جبکہ چھوٹے جہازوں پر چھیالیس (46) توپیں نصب ہوتی تھیں۔جہازوں کی تعمیر کے لیے تین گودیاں، ایک منگلور میں، دوسری میر جان کے نزدیک واجد آباد میں اور تیسری مولد آباد میں بنائی گئی تھی ۔ ان گودیوں کے لیے مالابار کے جنگلوں سے ساگوان کی اعلیٰ لکڑی کاٹ کاٹ کر کالی کٹ سے بھیجی جاتی تھی۔جہازوں کے نقشے خود سلطان ٹیپو بنا کر بھیجتا تھا۔یہ منصوبہ بڑے جوش و خروش سے ہاتھ میں لیا گیا تھا، لیکن سقوطِ سرنگاپٹم کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکا۔ ٹیپو کی 4 مئی 1799ءمیں شکست کے بعد منگلور، کنداپور اور تدری کی بندرگاہوں سے جو جہاز ملے ان کی تعداد پینتیس (35) تھی۔ ان سب کا تناسب معقول اور صناعی عمدہ تھی۔ ٹیپو سلطان کی افواج کا جائزہ لینے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اگر غداروں نے ٹیپو سلطان سے غداری نہ کی ہوتی تو ٹیپو سلطان کی فوج کو شکست دینا مشکل تھا۔
محمد عارف سومرو


متعلقہ خبریں


پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، یہاں جنگل کا قانون ہے ،عمران خان وجود - بدھ 24 اپریل 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب کا الیکشن پہلے سے پلان تھا اور ضمنی انتخابات میں پہلے ہی ڈبے بھرے ہوئے تھے۔اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ جمہوریت، قانون کی بالادستی اور فری اینڈ فیئر الیکشن پر کھڑی ہوتی ہے مگر یہاں جنگل کا قانون ہے پنجاب کے ضمنی ...

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، یہاں جنگل کا قانون ہے ،عمران خان

ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ایرانی صدر وجود - بدھ 24 اپریل 2024

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی لاہور پہنچ گئے، جہاں انہوں نے مزارِ اقبال پر حاضری دی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ غزہ کے معاملے پر پاکستان کے اصولی مؤقف کو سراہتے ہیں۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ پر مہمان ایرا...

ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ایرانی صدر

سپریم کورٹ، کراچی میں 5ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم وجود - بدھ 24 اپریل 2024

سپریم کورٹ نے کراچی میں 5 ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم دیدیا۔عدالت عظمی نے تحویل کے لئے کانپور بوائز ایسوسی ایشن کی درخواست مسترد کردی۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کانپور اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کو زمین کی الاٹمنٹ کیس کی سماعت کے دوران وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انیس سو اک...

سپریم کورٹ، کراچی میں 5ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم

بھارت کا انٹرنیشنل ڈیتھ اسکواڈز چلانے کا اعتراف وجود - منگل 23 اپریل 2024

بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کااعتراف کہ بھارت غیر ملکی سرزمین پر اپنے ڈیتھ اسکواڈز چلاتا ہے، حیران کن نہیں کیونکہ یہ حقیقت بہت پہلے سے عالمی انٹیلی جنس کمیونٹی کے علم میں تھی تاہم بھارت نے اعتراف پہلی بار کیا۔بھارتی چینل کو انٹرویو میں راج ناتھ سنگھ نے کہاکہ بھارت کا امن خراب ...

بھارت کا انٹرنیشنل ڈیتھ اسکواڈز چلانے کا اعتراف

پاکستان، ایران کا دہشت گردی کیخلاف مشترکہ کوششوں پر اتفاق وجود - منگل 23 اپریل 2024

پاکستان اور ایران نے سکیورٹی، تجارت، سائنس و ٹیکنالوجی، ویٹرنری ہیلتھ، ثقافت اور عدالتی امور سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لئے 8 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کر دیئے جبکہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ ہم نے پہلے مرحلے میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی ح...

پاکستان، ایران کا دہشت گردی کیخلاف مشترکہ کوششوں پر اتفاق

سعودی اور غیرملکی سرمایہ کاری کی آمد،اسٹاک مارکیٹ میں ڈھائی ماہ سے تیزی کا تسلسل جاری وجود - منگل 23 اپریل 2024

پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں تیزی کے نئے ریکارڈ بننے کا سلسلہ جاری ہے اوربینچ مارک ہنڈریڈ انڈیکس بہترہزار پوانٹس کی سطح کے قریب آگیا ہے اسٹاک بروکرانڈیکس کو اسی ہزار پوانٹس جاتا دیکھ رہے ہیں۔اسٹاک مارکیٹ میں ڈھائی ماہ سے تیزی کا تسلسل جاری ہے انڈیکس روزانہ نئے ریکارڈ بنارہا ہے۔۔سر...

سعودی اور غیرملکی سرمایہ کاری کی آمد،اسٹاک مارکیٹ میں ڈھائی ماہ سے تیزی کا تسلسل جاری

وزیراعلیٰ کا اسٹریٹ کرائم کیخلاف دوطرفہ کارروائی کا فیصلہ وجود - منگل 23 اپریل 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اسٹریٹ کرائم کیخلاف دوطرفہ کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔تفصیلات کے مطابق وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی زیرصدارت اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے صوبے میں امن وامان سے متعلق بریفنگ دی۔اجلاس میں وزیر اعلی مرادعلی ...

وزیراعلیٰ کا اسٹریٹ کرائم کیخلاف دوطرفہ کارروائی کا فیصلہ

ضمنی انتخابات، پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے پی کے میں پی ٹی آئی برتری وجود - پیر 22 اپریل 2024

ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے 21 حلقوں پر پولنگ ہوئی، جبکہ ووٹوں کی گنتی کے بعد غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج موصول ہونا شروع ہوگئے ۔الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کی 5 اور صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں پر پولنگ صبح 8 بجے شروع ہوئی جو بغیر کسی وقفے کے شام 5 بجے تک جاری رہ...

ضمنی انتخابات، پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کے پی کے میں پی ٹی آئی برتری

ضمنی الیکشن دو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں جھگڑا، ایک شخص جاں بحق وجود - پیر 22 اپریل 2024

ظفروال کے حلقہ پی پی 54 میں ضمنی الیکشن کے دوران گائوں کوٹ ناجو میں دو سیاسی جماعتوںکے کارکنوں میں جھگڑے کے دوران ایک شخص جاں بحق ہو گیا۔ جھگڑے کے دوران مبینہ طور پرسر میں ڈنڈا لگنے سے 60 سالہ محمد یوسف شدید زخمی ہو اجسے ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لا کرجان کی بازی...

ضمنی الیکشن دو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں جھگڑا، ایک شخص جاں بحق

بشام خودکش حملہ، چینی انجینئرز کی گاڑی بم پروف نہیں تھی، اہم انکشاف وجود - پیر 22 اپریل 2024

بشام میں چینی انجینئرز کے قافلے پر خودکش حملے سے متعلق پنجاب فورنزک سائنس ایجنسی کی فرانزک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی انجینئرز کی گاڑی بم پروف نہیں تھی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمانڈنٹ ایس ایس یو نے انکوائری کمیٹی کے سامنے ذمے داری نہ لینے کے حوالے سے تسلیم کیا ہے ، ڈائریکٹر سی...

بشام خودکش حملہ، چینی انجینئرز کی گاڑی بم پروف نہیں تھی، اہم انکشاف

پاکستان ، ایران کا باہمی قانونی معاونت کا معاہدہ کرنے کا فیصلہ وجود - پیر 22 اپریل 2024

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی (آج)22سے 24 اپریل تک پاکستان کا سرکاری دورہ کریں گے ،ایرانی صدر ابراہیم رئیسی صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف سے اہم ملاقاتیں کریں گے ۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق عام انتخابات کے بعد کسی بھی سربراہِ مملکت کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہو...

پاکستان ، ایران کا باہمی قانونی معاونت کا معاہدہ کرنے کا فیصلہ

ملک میں ضمنی انتخابات کے لیے پولنگ کا وقت ختم، ووٹوں کی گنتی جاری وجود - اتوار 21 اپریل 2024

ملک میں قومی اسمبلی کی 5 اور صوبائی اسمبلی کی 16 خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات میں پولنگ کا وقت ختم ہوگیا اور اب ووٹوں کی گنتی جاری ہے. پولنگ صبح 8 بجے شروع ہوئی جو شام 5 بجے تک بغیر کسی وقفہ کے جاری رہی۔ الیکشن والے علاقوں میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند ہے۔ گورنمنٹ پرائمری اسکول...

ملک میں ضمنی انتخابات کے لیے پولنگ کا وقت ختم، ووٹوں کی گنتی جاری

مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر